شام کا نیا محاذ جنگ۔۔سید اسد عباس

وحدات حمایة الشعب جسے People’s Protection Units بھی کہا جاتا ہے، کرد جنگجوﺅں پر مشتمل ایک ملیشیا ہے۔ ترک سرحد سے متصل شام کے شمالی علاقوں میں ایک کثیر رقبہ اس ملیشیا کے تصرف میں ہے۔ یہ گروہ 2004ء میں معرض وجود میں آیا۔ شام میں جاری حالیہ کشیدگی کے دوران میں اس گروہ نے خاصی تقویت حاصل کی۔ داعش کی جانب سے 2015ء میں کوبانی کے محاصرے کے دوران میں اس گروہ کو امریکہ اور اتحادی ممالک کی جانب سے فضائی اور زمینی مدد حاصل ہوئی۔ اسی People’s Protection Units جسے مقامی لوگ YPG کے نام سے بھی جانتے ہیں، نے امریکہ کی ایما پر SDF سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کی بنیاد رکھی۔ اس فورس نے امریکی اور اتحادی افواج کے تعاون سے داعش کے زیر تصرف بہت سے علاقوں پر قبضہ بھی کیا۔ ترکی سے متصل سرحد کے علاوہ عراقی سرحد سے متصل شام کے بہت سے علاقے جو قبل ازیں کرد علاقے شمار نہیں ہوتے تھے، SDF کے تصرف میں ہیں۔
شام کے کردوں کی کہانی عراقی کردستان سے ملتی جلتی ہے، بلکہ اس کہانی کے پیچھے موجود ہاتھ بھی تقریباً ایک ہی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ داعش کے خلاف عراقی افواج کے آپریشن کے دوران میں کرد ملیشیا اپنے علاقوں کے تحفظ کے لئے اپنے اکثریتی علاقوں سے نکل کر عراقی علاقوں پر قابض ہوگئی۔ عراقی افواج کی توجہ چونکہ داعش پر مرکوز تھی، لہذا اس پیشرفت کو زیادہ اہمیت نہ دی گئی۔ مسئلہ تب زیادہ گھمبیر ہوا جب عراقی کردستان کے صدر نے علیحدگی کے حوالے سے ریفرنڈم کروایا اور اس ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ عراقی کردستان آزاد حیثیت حاصل کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ عراقی کرد افواج نے اپنے نئے قبضہ شدہ علاقوں جو کہ تیل کی دولت سے مالا مال ہیں، کو بھی خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً عراقی فوج کرد افواج کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ تکریت تو بہت کم عرصے میں آزاد ہوگیا اور عراق کی کرد افواج واپس اپنی سابقہ پوزیشنز پر چلی گئیں، تاہم شام میں صورتحال قدرے مختلف ہے۔

جب 2011ء میں شام میں آپریشن The Pray Hunt کا آغاز کیا گیا اور امریکہ سمیت اتحادی ممالک کی جانب سے جنگجو، شامی سرزمین پر اتارے گئے اور شامی افواج کے لئے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں امن و امان کا قیام حتٰی کہ اپنی عملداری کو قائم رکھنا ممکن نہ رہا تو اسی لمحے دیگر اقوام کی مانند کردوں کو بھی اپنی بقاء کا مسئلہ درپیش ہوا۔ اس عرصے میں داعش اور دیگر جنگجو گروہوں نے کئی ایک کرد علاقوں جن میں کوبانی، عفرین اور عمودا شامل ہیں، پر حملے کئے۔ YPG ہی وہ گروہ تھا، جس نے سلفی جنگجوﺅں کے ان حملوں سے اپنی سرزمین کی حفاظت کی۔ ابتداء میں کرد اپنے دفاع تک محدود رہے، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ شامی کردوں نے حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں اور داعش نیز النصرہ فرنٹ کے زیر قبضہ علاقوں پر بھی قبضہ شروع کر دیا۔ 2016ء تک کرد شمالی شام کے اکثر علاقوں پر قابض ہوگئے۔ 2016ء میں امریکی ایماء پر SDF کی بنیاد رکھی گئی، جس میں کردوں کے علاوہ شام کی دیگر اقلیتوں اور مشرق و مغرب سے رضاکاروں کو اس فورس کا حصہ بنایا گیا۔ اس فورس میں بہت سے یورپی ممالک کے جنگجو موجود ہیں، اسی طرح اس فورس کو امریکہ اور اتحادی افواج کی جانب سے بھی مدد حاصل ہوئی۔ اس فورس نے داعش اور النصرہ فرنٹ کی ناکامیوں کے بعد رقہ اور دیر الزور سمیت شام کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کیا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ Raqqa’s Dirty Secret کے مطابق رقہ پر قبضے کے بعد داعش کے بچے کچھے جنگجوﺅں کے قافلے SDF کے تعاون سے ہی عراقی سرحدی شہروں تک پہنچائے گئے۔ ایس ڈی ایف نے ہی ایک معاہدے کے تحت سلفی جنگجوﺅں کو اپنے علاقوں سے گزار کر محفوظ مقامات تک پہنچانے کا اہتمام کیا۔

شام میں تازہ ترین پیشرفت کے مطابق رواں ماہ ترکی نے YPG کے خلاف عفرین کے شہر میں آپریشن کا آغاز کیا ہے اور اس نے اس ارادے کا بھی اظہار کیا ہے کہ اس کا اگلا ہدف شام کا شہر منبیج ہوگا۔ یہ اہم شہر بھی کردوں کے زیر قبضہ ہے۔ ترکی اس مقصد کے لئے النصرہ، فری سیرین آرمی اور دیگر شامی جنگجو گروہوں کی ایک فوج سے استفادہ کر رہا ہے۔ ترک وزیر خارجہ نے یہ جانتے ہوئے کہ YPG اور SDF امریکی ایماء پر تشکیل پائی اور اس کے پیچھے امریکی اور اتحادی ہیں، امریکیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس جنگ کا حصہ نہ بنیں اور ترک افواج کے مدمقابل نہ ہوں۔ روس جو کہ شام میں موجود ہے، نے ترک افواج کی پیشقدمی کو روکنے کے حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیا، بلکہ عفرین سے اپنی افواج کو نکال لیا ہے۔ عالمی برادری کی جانب سے بھی ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ نیٹو، برطانیہ، ہالینڈ، جرمنی نے اس آپریشن کو ترکی کا حق قرار دیا ہے، جبکہ دیگر بہت سے ممالک جن میں یورپی یونین کا دفتر بھی شامل ہے، نے اس حملے کی مذمت کی ہے اور اس کے جلد خاتمے کی بابت نیز انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے حوالے سے بیانات جاری کئے ہیں۔ شامی حکومت ترکی کی جانب سے اس حملے کو اپنی علاقائی سالمیت پر حملہ تصور کرتی ہے۔ صدر بشار الاسد کا کہنا ہے کہ ترکی ایک مرتبہ پھر جنگجوﺅں کی پشت پناہی اور انہیں اپنے مقصد کے لئے استعمال کر رہا ہے، جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ترکی کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کی بابت شامی حکومت کو اعتماد میں لیا گیا ہے، جبکہ شامی حکومت کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا اور اس ترک دعوے کی سختی سے تردید کی گئی ہے۔

شامی حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر، سوچی مذاکرات کو پس پشت ڈال کر ترکی کا یکطرفہ آپریشن بہت سے تحفظات کو جنم دے رہا ہے۔ ترکی نے ایک ایسا اقدام کیا ہے، جس میں ظاہراً شامی حکومت، اس کے اتحادی اور مخالف کوئی بھی ایک پیج پر نہیں ہے۔ یہ گھمبیر صورتحال ہے، جس میں شام کا اہم اتحادی روس عفرین سے نکل گیا ہے، یعنی عفرین پر فوجی و فضائی حملے کو روکنے میں روس نے کوئی مداخلت نہیں کی۔ YPG جس کے روس سے سفارتی روابط تھے، نے اس خاموشی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، اسی طرح امریکہ کی فقط بیان بازی بھی SDF کے لئے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ترک حملہ کیا رخ اختیار کرتا ہے، فی الحال کہنا بعید از قیاس ہے۔ آیا ترکی براہ راست طور پر امریکہ کے مدمقابل آچکا ہے۔؟ مغربی ریاستیں منجملہ برطانیہ، ہالینڈ، جرمنی، ترکی کے اس حملے کو جواز کیوں مہیا کر رہے ہیں۔؟ ترکی اس جنگ میں دہشتگرد گروہوں سے کیوں استفادہ کر رہا ہے۔؟ وہ اس حملے سے کیا اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔؟ کیا ان حملوں کے نتیجے میں ایس ڈی ایف کا خاتمہ ہو جائے گا اور شام کی علاقائی سالمیت کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا، یا یہ حملے شام اور ترکی کے مابین ایک طویل وجہ نزاع کو جنم دیں گے۔؟ یہ وہ سوالات ہیں، جو ہر ذہن کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ بہرحال اس نئی جنگ کے نتیجے میں مغرب کو خطے میں رہنے کا مزید جواز مل چکا ہے۔ امت کی توجہ ایک مرتبہ پھر مسئلہ فلسطین سے ہٹ کر مسئلہ شام کی جانب مبذول ہوگئی ہے۔ ایک نیا محاذ ہے، جس کا ایندھن ایک مرتبہ پھر یقیناً مسلمان ہی ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply