جمعے کی نماز ابھی ختم ہی ہوئی تھی، مسجد میں ایک خاموشی سی چھا گئی تھی۔ نمازی ایک ایک کر کے جا رہے تھے۔ میں وہیں صوفے پر پر لیٹ گیا ، جیسے تھکن اور سکون کے درمیان کوئی نازک پل ہو جس پر دل چلنے کو رک گیا ہو۔ اتنے میں ایک شناسا آواز نے مجھے چونکا دیا۔
“علم اللہ جمعے میں نہیں آیا؟”
یہ اقبال انکل کی آواز تھی، جن کی شفقت بھری باتیں پردیس میں دیش کی یاد بھُلا دیتی ہے۔ میں نے نیم غنودگی سے نکلتے ہوئے سلام کیا تو وہ مسکرائے۔ “ ارے تم ادھر ہو ، تمہیں ایک جگہ لے کے چلنا ہے۔”
میں کچھ پوچھتا اس سے پہلے ہی ہم ان کی گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔ شہر کی گلیاں پیچھے رہ گئی تھیں اور آگے، سمندر کی طرف جاتی وہ سڑک، جیسے ہمیں کسی اور دنیا کی طرف لے جا رہی ہو۔
گاڑی میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کا جمعے کا خطبہ چل رہا تھا۔ فارسی میں۔ وہی فارسی جو مدرسے کی نیم خوابیدہ صبحوں میں کبھی سیکھنے کی کوشش کی تھی۔ اب وہی زبان میرے دل کے تاروں کو چھیڑ رہی تھی۔ ہر لفظ پوری طرح سمجھ میں نہ بھی آیا ہو، لیکن آواز کا وقار، لہجے کی طاقت، اور الفاظ کی تاثیر— یہ سب کسی صدیوں پرانی روحانی زنجیر کی کڑیاں لگنے لگیں۔
“ملتِ اسلامیہ، اتحاد، اور استعمار کے خلاف بیداری…”
میں سوچنے لگا، کہ وقت کے فرعونوں کو چیلنج کرنے والا یہ مردِ مجاہد، بظاہر کمزور اور بوڑھا سہی، مگر اس کی آواز میں صدیوں کا درد، نسلوں کی پکار، اور وقت کی نبض چھپی ہوئی تھی۔
سوانسی کی یہ سہ پہر عجیب تھی۔ سورج جیسے آسمان کے لحاف میں لپٹا ہوا، نیلے سمندر کی پیشانی پر نرمی سے دمک رہا تھا۔ لہریں بچپن کے شرارتی بچوں کی طرح کنارے سے ٹکرا کر ہنستی، واپس لوٹتی جا رہی تھیں۔ انکل نے ایک بڑے سے مال کے پاس گاڑی روکی اور ہم ایک شیشے سے بنے بڑے سے کافی ہاؤس میں داخل ہوئے جہاں خاموشی بھی جیسے گفتگو کرتی تھی۔
یہ کافی ہاؤس صرف چائے یا کافی کی جگہ نہیں تھی۔ یہ دلوں کی مجلس تھی۔ یہاں وقت ٹھہر سا گیا تھا۔ اندر بیٹھے چہرے گویا قوموں کا ہجوم تھے: عراق، اردن، فلسطین، سعودی عرب، ایران، پاکستان۔ سب اجنبی، مگر سب اپنے۔
ایک خاموش فلسطینی بزرگ، جن کی آنکھیں بولتی تھیں، مگر ہونٹ سلے ہوئے تھے۔ بغداد کے ایک سنجیدہ شاعر، جن کی باتوں میں بارود کی دھواں اور الفاظ میں آبِ فرات کی نرمی تھی۔ اردن کا نوجوان جو ہر بات میں خواب کی مانند امید کا عکس رکھتا تھا۔ سعودی عرب کے وہ معزز بزرگ ، جن کے چہروں پر نجد کی سختی اور مکہ کی نرمی کا امتزاج تھا۔ ایران کے وہ بوڑھے پروفیسر ، جن کی پیشانی جیسے حکمت کا ایک روشن چراغ ہو۔ اور ہمارے اپنے اقبال انکل— پاکستان سے ہجرت کیے ایک زندہ تاریخ۔
اور میں… ایک خاموش مسافر۔ جو سب کا ہو جاتا ہے۔ شاید یہ ہی میری خوبی ہے۔ بچوں کے ساتھ بچہ، بڑوں کے ساتھ ہم دم۔ میں ان سب کے بیچ، لفظوں کی مالا پر موتیوں کی طرح چنتا جا رہا تھا ان کے لہجے، کہانیاں، جذبات۔
کافی کی خوشبو، سمندر کی ہوا، اور اردو، فارسی، عربی کی سرگوشیاں— یہ سب کچھ ایک عجیب نغمے میں ڈھل گیا تھا۔ میں سوچ رہا تھا، “یہ کیسا رشتہ ہے اسلام کا؟ جو سب اجنبیوں کو بھائی بنا دیتا ہے، اور ہر دل میں ایک آہنگ پیدا کر دیتا ہے۔”
وقت کے قدم آہستہ ہو گئے تھے۔ گفتگو ختم ہوئی، چہرے بچھڑنے لگے۔ سب نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور واپس اپنے اپنے راستوں پر ہو لیے۔
ہم باہر نکلے تو انکل بولے، “چلو، تمہیں ایک اور جگہ دکھاتا ہوں۔”
گاڑی اب شہرِ خموشاں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ سورج اب جھکنے لگا تھا، اور خاموشی ایک نئی گہرائی اختیار کر رہی تھی۔
قبرستان۔ درختوں کے سائے، ہوا کی سرسراہٹ، اور خاموش پتھروں پر لکھے ہوئے نام— جو کبھی زندہ تھے، ہنستے تھے، روئے تھے، خواب دیکھتے تھے۔
انکل ایک قبر کے پاس رک گئے۔
“یہ میری اہلیہ کی قبر ہے۔ چھے سال پہلے ہم سے جدا ہو گئیں۔”
انھوں نے بڑے پیار سے قبر کے سرہانے رکھے گملے کو دیکھا، جس میں سرخ پھول کھلے ہوئے تھے۔ پانی ڈالا، دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے، اور میں نے دیکھا… ان کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔
پھر وہ ایک ایک قبر کے پاس لے جاتے رہے۔ “یہ پاکستان سے آیا تھا، میرے ساتھ کام کرتا تھا… یہ پٹنہ سے تھا، چار سال پہلے دنیا چھوڑ گیا… یہ میرا بہت اچھا دوست تھا…”
ان کے لہجے میں محبت تھی، اور وقت کی تھکن بھی۔ میں خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا، اور سوچتا رہا: ہم سب آخرکار یہی تو ہو جائیں گے، مٹی میں لوٹ جانے والے خاموش مسافر۔
سورج ابھی پوری طرح ڈھلا نہیں تھا۔ انکل نے ہاسٹل کے پاس گاڑی روکی اور ڈھیر ساری یاد وں کے ساتھ مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں