خودکشی حرام مگر بڑھتا رجحان/ شکیل رشید

اس دُنیا میں کتنے غم ہیں ! گھر سنسار کا غم ، پڑھائی میں ناکامی کا غم ، دل ٹوٹنے کا غم ، معاشی تنگی ، اپنوں کی بےرخی ، بچوں کے سلوک سے ڈپریشن اور خوابوں کے پورا نہ ہونے کا غم ۔ واقعی دنیا غموں اور دکھوں سے بھری ہوئی ہے ۔ لیکن کیا غموں اور دکھوں سے بچنا ناممکن ہے ، کیا اس کا واحد حل ’ خودکشی ہی ہے ، جیسے کہ ریاست جھارکھنڈ میں ایک امامِ مسجد نے سمجھ لیا تھا اور مسجد کے اندر ہی گلے میں پھندا ڈال کر جھول گیا ؟ جھارکھنڈ کے ضلع مغربی سنگھ بھوم کے صدر تھانہ علاقہ میں رضائے مدینہ مسجد کے امام مولانا شہباز عالم کی عمر ابھی صرف تیس برس تھی ، ایک ایسی عمر جو فکر اور تشویش کو خود سے دور رکھتی ہے ۔ لیکن وہ اس قدر ڈپریشن میں چلے گیے تھے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسلام میں خودکشی حرام ہے ، خودکشی کر لی ۔ اپنے خودکشی نوٹ میں مولانا نے اس بات کا ذکر بھی کیا ہے کہ انہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ’’ خودکشی حرام ہے ‘‘ خودکشی کی ، کیونکہ اور کوئی راہ نظر نہیں آ رہی تھی ۔ وہ قرض میں ڈوبے تھے ، مالی حالت بہت خراب تھی اور ذہنی دباؤ شیدید تھا ۔ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ دو بیٹوں کے باپ ہیں ، اور موت کے بعد ان کی اہلیہ کیسے بچوں کو سنبھالے گی ! لیکن اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کسی سبب انسان ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے تو اسے موت کو گلے لگانے کے سوا کچھ نہیں سوجھتا ۔ مقامی لوگ ان کی موت پر اظہارِ تاسف کر رہے ہیں ، ہاتھ مل رہے ہیں ، لیکن جب مولانا زندہ تھے تب یہ سب انہیں دیکھ کر دور بھاگتے رہے ہوں گے کہ کہیں قرض نہ مانگ لیں ! ان میں مسجد کے ٹرسٹی حضرات بھی شامل رہے ہوں گے جن کی اکثریت نے ملک بھر کی مسجدوں میں اماموں اور مؤذنوں کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں ۔ میں کسی پر مولانا کی خودکشی کا الزام نہیں لگا رہا ہوں ، لیکن اتنا ضرور پُوچھوں گا کہ یہ جو اتنے سارے علماء مدرسوں سے نکل کر آ رہے ہیں اور مسجدوں میں مؤذن اور امام کے طور پر اور مکتبوں میں استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں ، ان کی فکر کرنے اور انہیں استحصال سے بچانے کے لیے کوئی جماعت ، کوئی تنظیم یا کو ادارہ سرگرم ہے ؟ شاید کوئی نہیں ! اور اگر ہے بھی تو بس نام کے لیے ۔ اسیروں اور تعلیمی امداد کے حق داروں کی طرح یہ علماء بھی مستحق ہیں کہ ان پر توجہ دی جائے ، ان کے استحصال کو چیلنج کیا جائے ۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر چند فارغین مدارس ڈینگیں ہانکنے میں لگے ہیں کہ ہم نے چاند تارے فتح کر لیے ہیں ، انہیں مبارک ہو ، مگر اپنے اُن بھائیوں سے ، جو ان ہی کی طرح مدارس کے فارغین ہیں ، وہ لاپروا ہیں ۔ افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمانوں میں خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں ؛ مالیگاؤں جیسے چھوٹے سے شہر میں گذشتہ چار مہینے کے دوران مسلمانوں میں خودکشی کے کوئی پچاس واقعات ہو چکے ہیں ۔ مولانا عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے اپنے ایک بیان میں اس پر کافی کچھ کہا ہے ، لوگوں کو سمجھایا ہے ، خودکشی سے اجتناب کی درخواست کی ہے ۔ جو حقائق سامنے آئے وہ دردناک ہیں ۔ اکثر نوعمر بچے بچیاں موبائل فون کے عذاب کا شکار ہوئے ہیں ، بلیک میل کیے گیے اور لمبی رقم بلیک میلروں کو ادا نہ کرپانے کی صورت میں خودکشی کرلی ، کچھ بچوں نے تعلیم میں ناکامی کی وجہ سے موت کو گلے لگایا اور جو بڑی عمر کے تھے وہ مالی تنگی اور قرضوں کی شدت سے گلے میں پھندا لگا کر جھول گیے ! کیا ضرورت نہیں ہے کہ یہ جو ایک رجحان بن رہا ہے اس کے سدّباب کے لیے علماء اور دانشوران اور ڈاکٹر صاحبان سر جوڑ کر بیٹھیں ، کوئی ترکیب نکالیں اور کاؤنسلنگ کریں اور کسی بھی مسلمان کے لیے خودکشی حرام ہے ، یہ بات سب ہی کے دماغ میں بٹھائیں ؟

julia rana solicitors london

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply