مشاہدہ بتاتا ہے کہ ضمیر کے اطمینان یا اضطراب کا تعلق اعمال و نیت کے ساتھ ساتھ انسان کی عقل سے بھی ہے، عقل کی گہرائی یا سطحیت بعض اوقات نہیں بلکہ اکثر اوقات میں یہ طے کرتی ہیں کہ فرد اپنے اعمال و افعال سے کس قدر مطمئن یا مضطرب ہے، یہاں سب سے پہلے نفاق بارے کچھ وضاحت ضروری ہے شاید ، منافق کی بہترین تعریف یہ ہوگی کہ فرد جان بوجھ کر زہر ہلاہل کو گلقند منوانے پر بضد ہو، لیکن اگر فرد واقعتاً اس زہر ہلاہل کو گلقند ہی سمجھتا ہے تو مذکورہ شخص احمق تو ہو سکتا ہے مگر اسے منافق نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی سوچ اور فعل میں بد نیتی شامل نہیں، اب حماقت اور منافقت میں کونسی خصوصیت دوڑ میں آگے ہے، اس بارے یقین سے کچھ بھی کہنا مشکل ہے، دوڑ میں ان دو فریقوں کو بالترتیب بدنیت عقل اور نیک نیت حماقت کے القاب دیئے جا سکتے ہیں، لیکن وہ جو انگریزی محاورہ ہے کہ نیک نیتی کا راستہ سیدھا جہنم کی طرف لے جاتا ہے ، اس محاورے کو سچ مانا جائے تو نیک نیت حماقت کو پہلی پوزیشن دی جانی چاہیے ۔
اس دعوے کیلئے یہ بنیاد پیش کی جا سکتی ہے کہ نیک نیت حماقت فرد کے ضمیر کو اطمینان بخشتی ہے، اور یہ اطمینان ایسی تمام حماقتوں کو تسلسل فراہم کرتا ہے، بد نیت عقل (نفاق) ضمیر میں اطمینان کی بجائے اضطراب کا موجب ہے اور اس اضطراب کی موجودگی جلد یا بدیر بہتری کا سماں پیدا کر سکتی ہے ۔
وطنِ عزیز میں بگاڑ کی وجوہات کا باعث وہ تمام معروف شخصیات ہیں جنہیں لوگ پسند کرتے ہیں اور ان کی پیروی کی خواہش رکھتے ہیں، اور ان معروف شخصیات میں بدنیت عاقلوں کو فصلی بٹیرے کہا جائے تو درست ہوگا، ان کا اثر نسلوں تک جاری نہیں رہ سکتا، یہ زیادہ سے زیادہ وقتی ٹھوکر کا باعث ہو سکتے ہیں، البتہ زیادہ خطرناک نیک نیت احمق ہیں کہ ان کے کرتوت ایک باطل اطمینان کو جنم دیتے ہیں اور اسی اطمینان کی طلب ہل من مزید کے تحت بگاڑ در بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔
شروعات مذہبی شخصیات سے کی جا سکتی ہے، ان میں سے بدنیت عاقل تبرا و جذبات تک محدود ہے، چند ایک میں نفاق کے بیج بو کر یہ بد نیت عاقل صفحۂ ہستی سے مٹ جاتا ہے، مگر نیک نیت احمق نے کئی نسلوں کو جکڑ رکھا ہے، وہ یوں کہ اس احمق کے ذاتی افعال میں سخاوت، بردباری ، صبر و برداشت اور دیگر کئی اچھی خصوصیات ہو سکتی ہیں جو اس احمق میں ظاہری اور باطنی اطمینان کے ساتھ ساتھ اعتماد بھی پیدا کرتی ہیں، بدقسمتی سے کئی نسلیں اسی کامل اطمینان کی بھینٹ چڑھ سکتی ہیں، کیونکہ عمومی تصور یہی ہے کہ کسی بھی فعل سے فرد کا قلب اگر سکون محسوس کرتا ہے تو فعل احکامِ الٰہی کے عین مطابق ہے، لیکن یہ سکون باطل بھی ہو سکتا ہے، یہی وہ لطیف مقام ہے جہاں کئی لوگ دھوکا کھا سکتے ہیں۔ دل کی گواہی ہر بار ضروری نہیں کہ صراطِ مستقیم ہی کا ثبوت ہو اور اضطراب کا احساس بھی لازم نہیں کہ بد راہی ہی کی ضمانت ہو، گاہے معاملہ بالکل الٹ بھی ہو سکتا ہے۔ نیک نیت احمق کا وسیع دستر خواں ، خدمتِ خلق کا جذبہ ، گناہگاروں کو خدا کی طرف دعوت وغیرہ بلاشبہ اچھے افعال ہیں، جو کامل مگر باطل اطمینان تو پیدا کرتے ہیں، لیکن ان اچھے افعال کی بدولت اس نیک نیت احمق کا وہ جرم کیسے پس پشت ڈال دیا جائے جس کی وجہ سے لاکھوں افراد تک مذہب کی بالکل غلط تعبیر پینچی اور مستقبل قریب میں نہ صرف اس غلط تعبیر کی تصحیح ممکن نہیں بلکہ اس تصحیح کیلئے بڑے ذہنوں کی پیداوار بھی بند ہو چکی ہے۔
اسی طرح ہم اگر اپنے آرٹ کا جائزہ لیں تو یہاں بھی ہر ایک چیز کی بنیاد، ” نیک نیتی ” پہ استوار ہے، آج ہر آرٹسٹ اس بات پر مکمل مطمئن ہے کہ اس نے مولانا طارق جمیل صاحب کے ساتھ ایک چلہ لگایا تو اس کی زندگی بدل گئی، حج اور عمرے کے احوال بھی ایسی سسکیوں کے ساتھ سنائے گا کہ ہمارے جیسے سیاہ رو کی روح کانپ اٹھتی ہے، لیکن یہی آرٹسٹ جب چمکیلی دھوتی باندھ کر سٹیج پر غلیظ جگتوں اور بیہودہ اشاروں سے پبلک کو ہنسانے کی کوشش کرتا ہے تو کیا اسے اس بات کا ادراک ہے کہ اس کے یہ کرتوت اگلی دو نسلوں کے ذہنوں کو جمالیات سے شہویات کی طرف بدل رہے ہیں، کیا اسے اندازہ ہے کہ جمالیاتی احساس کو وہ مشت زنی کی سطح پہ لے آیا ہے؟
اب یہاں اس کی نیک نیت حماقتوں پہ چار حرف نہ بھیجیں تو کیا کیا جائے، لیکن نہیں چونکہ پس پردہ وہ معزوروں کی مدد کرتا ہے، ہسپتالوں میں مریضوں کیلئے فی سبیل اللہ ناشتہ پہنچاتا ہے تو اس کے یہ ناقابلِ معافی جرائم ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
اوپر سے خواجہ سراؤں نے ایک نیا اودھم مچا رکھا ہے،
” میں اللہ کے فضل سے سو خاندانوں کو پال رہی ہوں، خیر میں کون ہوتی ہوں پالنے والی، پالنے والی تو اللہ کی ذات ہے، لیکن میں بہت خوش قسمت ہوں کہ اللہ نے مجھ پہ ایسا کرم کیا اور مجھے اتنی عزت دی “۔
یہ جملہ ہر خواجہ سرا بلکہ تھیٹر کی ہر ڈانسر کے منہ سے سننے کو ملتا ہے، پہلا تاثر یہی جاتا ہے کہ یار اس نیک خاتون یا خواجہ سرا کیلئے خواہ مخواہ ہی بدگمانی پالی، اللہ مجھے معاف کرے ، کس قدر عاجز اور مخلوقِ خدا کی خدمت کرنے والا انسان ہے یہ، لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ شادی بیاہ، سٹیج اور دوسری محفلوں میں ان کے پلنگ توڑ ٹھمکے اور پاجامہ پھاڑ خرمستیاں کتنی نوجوان نسلوں کو بیہودگی و حرامزدگیوں کی طرف لے جا رہے ہیں، یہاں بدکاری کا لفظ جان بوجھ کر استعمال نہیں کر رہا کہ بدکاری میں گر دوطرفہ لطف و شگفتگی ، شائستگی و جمالیات کا حسن شامل ہوتو شاید ایسی بدکاری پر آنکھ بند کی جا سکتی ہے، بقول عمر خیام، اندھیرے کا گناہ کوئی گناہ نہیں، ان کی بے ڈھنگی اچھل کود کو بیہودہ خباثتوں کا مرکب کہا جائے تو عین حق ہوگا ، لیکن ان کے یہ تمام جرائم پہ ان کا وہ فعل پردہ ڈال دے گا جہاں یہ کسی بزرگ خاتون کا علاج اپنی جیب سے کروا رہے ہوں گے۔
ہمارے سماج کی عمومی شکل یہی ہے، ہم اس سماج کے باشندے نیک نیت حماقت کو پسند کرتے ہیں کہ ہمارے جذبات کیلئے یہ ایندھن کا کام کرتی ہے، سیاستدانوں کی بھی اکثریت اسی اصول پہ کاربند ہے، قانون سازی یا اداروں کی فعالیت کی بجائے ایک سیاستدان صبح سے شام تک فون کان پہ رکھے لوگوں کے تبادلے کروا رہا ہے یا پھر ایف آئی آر خارج کرواتا پھر رہا ہے،۔ شام کو تھکا ہارا جب بستر پہ لیٹتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ آج تو بہت محنت کر لی، بدنیت عقل کو سمجھنے، پرکھنے کیلئے عقل کے ساتھ ساتھ محنت بھی درکار ہے، ہم جذبات کی تسکین تک ہی محدود رہیں گے، قارئین کرام کی رائے مختلف ہو سکتی ہے لیکن راقم الحروف کو یہی لگتا ہے کہ بڑے اور حقیقی نقصان کا موجب نیک نیت حماقت ہے اور بدقسمتی سے ہماری توجہ اس کی مخالف سمت میں ہے، سمت درست ہو جائے تو کئی چیزیں اپنی جگہ پہ آ سکتی ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں