ہم میں سے بالعموم 99 ٪ فیصد لوگ (مجھ سمیت) اپنے بچوں کی تربیت کے بارے میں یہ ایک خوبصورت تسلی بخش جملہ بول کر اپنے آپ کو مطمئن کرتے ہیں، کہ
“ہم ( میں ) اپنے بچوں کو وہ سب کچھ دے رہا ہوں/ دینے کی کوشش کررہا ہوں، جو میرے والدین مجھے نہیں دے سکے، میں ایک اچھا باپ/ ماں بننے جا رہا ہوں/بننے کی کوشش کررہا ہوں، جو مجھے اپنے والدین سے بچپن میں نہ مل سکا، وہ خواہشیں، اظہار آزادی، یا زندگی کی آسائشیں و ضروریات، توجہ، محبت، احساس وغیرہ وغیرہ۔
حالانکہ جن والدین کے بارے میں ہمارا یہ دعویٰ ہوتا ہےکہ وہ ہمیں وہ سب نہ دے سکے، جو اَب ہم اپنی اولاد کو دینا چاہتے ہیں، ان بیچارے والدین نے اپنے خاندان کی کفالت کے لیے سارا دن کام کیا ہوتا ہے، اپنی زندگی سولی پر لٹکائی ہوتی ہے، ان کے پاس بمشکل آرام کرنے کا وقت تھا، وہ اپنی اولاد کی پرورش میں ڈپریشن کے دور سے گزرے، لیکن ہمارے ادا کئے گئے اس جملےکے مطابق وہ والدین یہ سب کرنے کے باوجود شائد ناکام لوگ تھے، حالانکہ اپنی اولاد کی پرورش کے لئے انہی والدین سے کبھی کسی نے پوچھا ہوتا تو وہ بھی یہی کہتے کہ
“انہوں نے بھی وہ سب کچھ دینے کے لیے کام کیا، جو اُن والدین کے والدین انہیں نہیں دے سکتے تھے۔ اس نے اپنے تئیں آپ کو ایک بہت مہنگے اسکول کے لیے فیسوں کی ادائیگیوں کے لئے کھپایا، خود کھانے پینے کے معاملے میں کنٹرول کرکے آپ کے لئے کھلونے یا اچھے کھانے مہیاکیے، انہوں نے اپنے تمام خوابوں اور خواہشوں کو ہم میں ڈھونڈا، بیماری و پریشانیوں میں بغیر رُکے سخت محنت کرکے کام کیا، یہ بھی ہوا کہ کبھی کبھی کام سے واپسی پر توجہ دینے کے بجائے انہوں نے ڈانٹ دیا، اور وہی ڈانٹ آپ کے بچپن میں آپ کا روگ بن گیا وغیرہ وغیرہ۔
اگر بچے پیدا نہ ہوتے تو ممکن ہے کہ بچوں کے بغیر وہ والدین پُرسکون طریقے سے کام کر سکتے تھے اور ان کی زندگیوں میں تناؤ کم ہوتا کیونکہ انہیں پورے خاندان کی کفالت نہیں کرنی پڑتی۔
چلیں ایک اور زاوئیے سے سوچتے ہیں، کسی بھی والدین کا وہ بیٹا یا بیٹی کیوں پیدا ہوئے؟ ان کے بیٹا یا بیٹی کے لیے پیدا ہونا اگر بائی چوائس ہوتا تو شائد وہ کبھی خود پیدا بھی ہونا نہیں چاہتے تھے۔
ہم جس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ہم سے اکثر لوگوں نے اپنے بچپن یا نوعمری میں اسکول میں نمبر کم آنے پر, کسی شکایت پر، کسی شرارت پر، کسی بات کی ضد پر یا اپنی خواہش کے لئے اپنے والدین سے یہ جملے ضرور سنے ہونگے کہ ” ہم سارا دن سخت محنت کرتے ہیں، صرف تمہارے لئے اور تم یوں کررہے ہو یا ہمیں پریشان کررہے ہو یا ہمیں ذلیل کروارہے ہو، ہمارے ساتھ ایسا یا ویسا سلوک کررہے ہوـ” ۔
اس کے مقابلے میں جب کوئی یہ بات کرتا ہے کہ ” وہ اپنی اولاد کو وہ سب دینا چاہتا ہے جو اسے نہیں ملا” تو مجھے عجیب لگتا ہے کہ وہ اپنے لیے جواز تلاش کرتا ہے، کیونکہ وہ خود اس بات کو قبول کررہا ہوتا ہے کہ میری زندگی میں خواہشیں پوری نہ ہوسکیں، کچھ کمیاں رہ گئی تھیں ، میری زندگی میں احساس، توجہ اور محبت کی کمی رہ گئی تھی، اس لیے میں اسے درست کرنے کی کوشش کروں گا، لیکن وہ کبھی اس میں کامیاب نہیں ہوسکتا ، ہاں یہ الگ بات ہےکہ فطرت کے اس جبری ارتقائی قانون میں چاہے والدین کتنی کوشش کریں یا اپنی کوشش میں ناکام رہیں اولاد کو ان سے فطری محبت رہے گی، ہاں اگر آپ کی اپنی زندگی اتنی اچھی ہوتی تو یقین کریں آپ یہ جملہ کبھی بھی اپنی اولاد کو پیدا کرنے کے بعد اس کی تربیت کے حوالے سے نہ بولتے۔
لیکن اس کے مقابل اگر یہ قبول کرلیا جائے کہ زندگی اتنی ہی بُری ہے تو والدین نے بچوں کو زبردستی اس دنیا میں لانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ آپ بچوں کو یہ جانتے ہوئے بھی خوشی سے اس دنیا میں کیوں لائیں گے کہ آپ کو ان کی مالی مدد کرنے کے لیے اتنی محنت کرنی پڑے گی؟ وہ ایک ایسا شخص ہے جو جانتا ہے کہ زندگی بری ہے، لیکن پھر بھی وہ انسانوں کو دوبارہ پیدا کرتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ دوگنا محنت کر کے اپنی زندگی کی راہ میں خود حائل ہو جاتا ہے۔ اپنی زندگی کو عذاب بناتا ہے، محبت میں، ضرورت میں، خواہشوں کے لا متناہی سلسلے کی دوڑ میں، پھر بھی کچھ مکمل نہیں ہوتا کوئی مطمئی نہیں ہوتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو خوشیاں دیتے ہیں، مگر ساتھ ہی ان کو درد، کرب امتحان پریشانیوں کے ایک ایسے لا متناہی سلسلے سے جوڑ دیتے ہیں، جو صرف موت پر ختم ہوتا ہے۔ بچوں کی پیدائش کا اصل مقصد خود اپنے بچوں کو درد سے بھرپور زندگی دینے کے بعد موت کی خواہش کا نام ہے۔

اس پوسٹ کا بنیادی خیال بچے نہیں ہیں، بلکہ وجودی افراتفری، درد اور جنون ہے۔ بچے پیدا کرنا نہ صرف بچوں کے لیے بلکہ والدین کے لیے بھی منفی تجربہ ہی ہے۔
نوٹ : میری کسی بات سے اتفاق کرنا بالکل ضروری نہیں ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں