قدم نہیں اٹھتے
جانے کس کے سر پہ
کسی کے دل پر
پاؤں پڑ جاۓ
یہاں اس ٹھنڈے فرش کے نیچے
گرمی خواب سے جلنے والی
کتنی آنکھیں خوابیدہ ہیں
کتنے کشیدہ سر،اب کیسے خمیدہ ہیں
وہ جو دنیاوی فرہنگ میں
خوش طالع کہلاتے تھے
جن کے بخت کا تارہ
وقت کے ماتھے پر کچھ ایسے چمکا
جیسے کبھی غروب نہ ہو گا
جن کی فکر نے
ایک ہجوم کا دھارا موڑا تھا
کوئی وقت،کوئی حرکت اور کوئی مقام سے آگے تھا
زرد پتے ہر اک روش کو ڈھانپتے ہوۓ کتبوں سے چپکنے لگتے تھے۔دیو قامت برہنہ درخت پت جھڑ کے موسم میں سر نگوں سے کھڑے تھے۔اک بلبل درخت کی ٹہنی پر آنکھیں موندے نرم دھوپ سے لطف اٹھا رہی تھی۔ہدہد درختوں کے تنوں میں نوکیلی چونچ سے آشیانے بنانے میں مصروف تھے اور قبروں میں سونے والے صدیوں سے نسل در نسل دنیا کے میلوں میں گم انسانوں کی غفلت پر مسکراتے تھے۔
کتاب کی مصنفہ کیرولین پھولوں سے چھپی قبروں پر بنے نقش و نگار اور کتبوں کے ساتھ دیو قامت مجسموں کو حیرت سے دیکھتے ہوۓ تاریخ کے اوراق میں جھانکنے کی آرزو مند تھی۔
وہ زمانہ رخصت ہوۓ دو صدیاں بیت چکی تھیں جب اہل پیرس کھانا ضرورت کی بجاۓ ایک رسم کے طور پر اپناۓ ہوۓ تھے۔موم بتیوں کی زرد روشنی میں نفیس میز پوشوں پر ہر کرسی کے سامنے چھری،چمچ اور ترتیب سے لگے کانٹوں کے ساتھ کئی قسم کے گلاس اور جام رکھے جاتے تھے۔ہر کورس کے بعد پلیٹ تبدیل ہوتی اور گفتگو کا لامتناہی سلسلہ آخر شب کو جامِ وداع کے ساتھ تمام ہوتا۔اندرونی و خارجی حالات کی وجہ سے بادشاہ سلامت جان کی امان مانگتے تھے جبکہ قدرتی آفات بھی فرانس میں ڈیرہ ڈالا ہوۓ تھیں۔کھانا کی رسم کیسی اور کہاں کے جام و سبو لوگ بھوک سے مرنے لگے تھے۔نوزائیدہ کم اور جنازوں کی تعداد شمار سے باہر تھی۔تدفین کے کاروبار سے وابستہ چرچ اور پادری دولت سمیٹنے میں مصروف تھے۔شاہ کی بساط لیپٹ چکی تھی نپولین محاذ جنگ پر مصروف ہونے کے باوجود امور مملکت کی زمام بھی سنبھالے ہوۓ تھا۔دنیا کے نقشے پر Norte dame کی تزئین و آرائش اور Louvre میں ہر عہد اور ملک کے عظیم فن پاروں کی عوام تک رسائی کے بعد پیرس دنیا کے نقشے پر تہذیبی مرکز کی حثیت اختیار کرنے لگا۔
شہر کو ترتیب سے بسانے کے بعد 1799 میں حکومت کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ پیرس کے مضافات میں نئے قبرستان بناۓ جائیں گے۔چرچ نے مالی مفادات کے پیش نظر اس اعلان کی مخالفت کی جبکہ عوام بھی اپنے پیاروں کو ویرانے میں سپرد خاک کرنے کی بجاۓ مرنے والوں کی بخششش کے واسطے خدا کے قرب کی خواہش میں کسی گرجے کے قبرستان میں دفنانے کو ترجیح دیتے تھے۔
پیرس کے مشرقی جانب ماؤنٹ لیوس نامی قطعہ ارض شاہ لیوس چہاردہم نے بعد از مرگ نجات کی خواہش میں ایک مذہبی گھرانے کو عطیہ کیا تھا Brongniart نے حکومتی اعلان کے بعد اس وسیع پہاڑی مرغزار کو اہل پیرس کی ابدی آرام گاہ کے طور پر ایک نقشے میں ڈھالا Frochot سے چرب زبان کاروباری نے اسے خرید کر اکیس مئی اٹھارہ سو چار کو شاہ لیوس کے پادری Pere-Lachaise کے نام سے منسوب ایک شاندار قبرستان کے افتتاح کی تقریب منعقد کی۔سرکار نے اسی سال مذہبی مقامات پر تدفین کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کا عندیہ دیا۔مگر اس کے باوجود Pere-Lachaise سے آباد ویرانے میں کوئی بھی اپنے پیارے کو خاک کے سپرد کرنے کو تیار نہ تھا۔Frochot نے قد آدم مجسمے آویزاں کرنے کے علاوہ سترھوریں صدی کے دو مشہور دربار سے وابستہ لکھاریوں کی بقایاجات کے علاوہ رومیو اور جولیٹ کی حکایت سے بھی صدیوں پہلے پیرس میں پروان چڑھنے والی داستان عشق بلا خیز کے دو کرداروں Heloise اور Abelard کی پیار میں گوندھی ہڈیاں بھی پیر لاشز لانے میں کامیاب رہا۔اس نے عاشق نامراد اور اس کی فتنہ پرور محبوبہ کے مجسمے قبرستان کے مرکزی دروازے کے ساتھ لگواۓ۔یہ مرغزار شائد عشاق اور اہلِ فن کو ہی اپنے اندر سموتا ہے۔
مصنفہ نے قبرستان کے بارے کتابچے کو بند کیا اور گائیڈ کی طرف متوجہ ہوئی جو لوگوں کے ایک گروہ کو بتا رہا تھا کہ اب یہاں ایک قبر کے پلاٹ کی قیمت بارہ ہزار ڈالر سے شروع ہوتی ہے۔لواحقین مرنے والوں سے بھی یکساں سلوک نہیں کرتے۔کسی کے فرزند اپنے اجداد کو گوشہ خواص کے حوالے کرتے ہیں جبکہ مطمئن روحیں عوام کے ہجوم میں قطار اندر قطار بنی سادہ سی قبروں میں کہیں گم ہو جاتی ہیں۔جن قبروں کی کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہ ہو تو قبرستان کے کارندے پہلے ورثا کو خط کے ذریعے اطلاع دیتے ہیں پھر بھی کوئی پرسان حال نہ بنے تو قبروں کی باقیات کو مٹا دیا جاتا ہے اب سالانہ صرف تین سو لوگوں کی اس تاریخی قبرستان میں تدفین کی گنجائش ہے۔
خزاں رسیدہ پتا مصنفہ کے ریشمی بالوں سے اُلجھا اس نے کتابچے اور قلم کو Todd بیگ میں رکھتے ہوۓ خود سے کہا یہاں کوۓ بہاراں سے آۓ لوگ ابدی نیند سوتے ہیں۔میں ان سے مکالمہ کرنے بہار رت میں آؤں گی جب سورج کی تمازت میرے بدن کے ساتھ دل کو بھی پناہ میں لے گی۔برہنہ درختوں پر سبز کونپلیں پھوٹتی ہوں اور چہار سو چڑیاں چہچہاتی ہوں گی۔
مصنفہ جب قبرستان سے نکلی تو خزاں کی شام پیرس کو اپنی بانہوں میں بھر رہی تھی۔قبرستان سے متصل میٹرو اسٹیشن پر راہزن اور جیب تراش مسافروں کے گرد منڈلا رہے تھے۔مصنفہ دل میں مسکرائی کیونکہ جب وہ امریکہ سے پیرس کے لئے روانہ ہوئی تھی تو کیرولین کی دوست نے مرغی کے خون اور وائن سے اس کو غسل دیا تھا تاکہ قبرستان کی سیر کے دوران اس کا کسی بھوت سے ٹکراؤ نہ ہو۔ بائیس خواجہ کی چوکھٹ سے داتا کی نگری تک اور واشگنٹن سے پیرس تک دنیا توہمات سے بھری ہوئی ہے۔کوئی کالی بلی کے راستہ کاٹنے سے دہل جاتا ہے اور کوئی سمندر پار کے سفر سے گریزاں رہتا ہے جبکہ فکرِ امروز و فردا میں مگن لوگ زندگی کی رہگزر پر دوڑے چلے جا رہے ہیں۔جو کل تھے وہ آج نہیں اور جو آج ہیں وہ کل نہ ہوں گے یہی نظامِ حیات ہے اور دستور فطرت ہے۔پیر لا شیز میں زیر زمین سونے والے امن اور اور سکون کے داعی تھے جبکہ میٹرو اسٹیشن پر زندہ انسان غریب الوطن مسافروں کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ظلم کرنے والے یاد رکھیں وہ دن بھی آۓ گا جب ان کو اپنے اعمال پر پچھتاوا ہو گا۔
صبح محشر
روزِ حساب
اک جہاں اور بھی ہے جسے کوئی فنا نہیں۔۔۔عدم آباد
City of immortal
امریک کی ایک آرٹ گیلری میں کام کرنے والی کیرولین کو پینٹنگز کی ایک نمائش کے سلسلے میں پیرس مدعو کیا گیاتھا۔
مصنفہ نے جہاز سے اترتے ہوۓ سوچا ارض خدا کے اس مرکز اور میرےجنم بھومی واشگنٹن ڈی۔سی کا نقشہ بھی ایک فرنچ باشندے چارلس لی کا بنایا ہوا ہے۔مجھے چارلس لی کے ساتھ ساتھ اہل فرانس کا بھی فرض کفایہ ادا کرنا ہے۔کیرولین اہل فن اور لفظوں کی پاسداری سے آشنا تھی۔اس نے فرض کفایہ کے طور پیرس کے قبرستان پر کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔
بہار رت میں پیرس روشنیوں اور خوشبو سے نہایا ہوا تھا۔ماہ غسل منانے والے جوڑے ملکوں ملکوں سے پیرس کی طیران گاہ پر اتر رہے تھے۔مصنفہ نے پیرس پہنچتے ہی پیر لاشیز کا رخ کیا۔وہ دنیا کے میلے میں گم بچپن کی یادوں کی انگلی تھامے آسودگانِ خاک سے مکالمہ کرنے کی خواہاں تھی۔وہ گلابی دھاری والی سنگ سیاہ سے بنی ایک کشادہ قبر کے پاس پہنچی۔کیرولین نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوۓ کہا اے بغاوت پسند خاتون تم مبارکباد کی مستحق ہو تم نے زندگی کو اپنی مرضی سے بسر کیا۔زیر زمین سونے والی فطرت نگار اہل قلم نے کروٹ بدلتے ہوۓ دھیمی آواز میں کہا دور دیس سے آنے والی نوجوان لڑکی مجھے مرضی سے زندگی گزارنے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔لوگ میری محبت،لذت اور ہوس پر مبنی نیم سوانحی تحریروں کے عشاق تھے مگر میری ذاتی زندگی کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔میں نے تین شادیوں کے علاوہ چند برس ایک عورت کے ساتھ بھی گزارے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ میں اپنے سولہ سال کے سوتیلے بیٹے کو ورغلانے میں بھی کامیاب رہی۔مرنے کے بعد پادریوں نے میری آخری رسومات ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔مگر حکومت فرانس نے مجھے سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازا اور سرکاری سطح پر میرا تابوت شاہی محل میں عزت و تکریم سے رکھا گیا جہاں کئی نامور لوگوں سمیت ہزاروں مداحین نے میرا آخری دیدار کیا۔میری وصیت کے مطابق تدفین کے وقت صرف اہل خانہ اور نجی دوست موجود تھے۔
کیرولین نے قبر سے گھاس کے تنکے ہٹاتے ہوۓ کہا اے جہاں دیدہ اور رمز شناس لکھاری میری بہن تمھاری کتابوں کی گرویدہ تھی۔میں نے برسوں تمھاری کتابوں کو حرزِ جاں بنائے رکھا۔سیڈونی گابریل کولیٹ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی اور اس نے زیر زمین کروٹ بدلتے ہوۓ کہا تم نے لڑکپن میں میری کتابیں پڑھی تھیں جس کے لۓ میں تمھاری شکر گزار ہوں۔ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا تصنع اور مصنوعی پن سے دور رہنے والے کامیاب اور شادمان رہتے ہیں۔
کولیٹ نے ذرا توقف کے بعد کہا کیرولین یہ کیسی مضطرب دھنیں بجتی ہیں، شوپاں کے علاوہ بھلا اور کون باجے سے روح کو آسودگی بخش سکتا ہے۔اچھا اب تم جاؤ میں موسیقی کی مدھم لہروں کے درمیاں خود سے بات کرنے کی آرزومند ہوں۔
۰*۰
کیرولین نے کولیٹ کے سرہانے پھولوں کا گلدستہ رکھا اور موسیقی کی مدھم لہروں کے تعاقب میں فیڈرک شوپاں کی آخری آرام گاہ پر پہنچی۔شوپاں کی قبر کے گرد خوبصورت اور رنگین شیشے کے مرتبانوں میں جلنے والی موم بتیاں زرد روشنی کا حلقہ کئے ہوۓ تھیں۔پگھلنے والا موم آنسوؤں کی عکاسی کر رہا تھا۔مرتبان کے باہر لکھے ہوۓ نام اس بات کے گواہ تھے کہ شویاں کو گزرے دو صدیاں ہونے کو ہیں مگر اس کے چاہنے والے ہر دیس میں موجود ہیں۔
کیرولین قبر کے سرہانے لگی دو مورتیوں کو حسرت بھری نظروں سے تک رہی تھی۔اوپر لگی مورتی موسیقی کی دیوی کی تھی جو شوپاں سے عظیم موسیقار کو سفر آخرت میں بھی اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔اس کے بکھرے ہوۓ بال اور ڈھلکا ہوا سر شوپاں کے مرنے پر مجسم غم کی علامت تھا۔دوسری مورتی شوپاں کی تھی جو دیوار نما کتبے میں چنی ہوئی تھی۔
کیرولین نے شوپاں کی مورتی پر برگِ گلاب پھینکتے ہوۓ کہا تم سینکڑوں سال پہلے پولینڈ سے اٹلی کے لۓ روانہ ہوۓ تھے۔اٹلی تو تم کیا پہنچتے عمر بھر وطن جانے سے بھی گریزاں رہے۔
شوپاں نے زیر زمین مسکراتے ہوۓ کہا اس وقت اٹلی کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے وہاں جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔میں تو پیرس میں چند روز کے لۓ ہی ٹھہرا تھا مگر اس شہر دلربا نے مجھے ایسے اپنایا کہ میں اپنا وطن بھی بھول گیا۔فراق رتُوں میں وصلِ یار کے موسم اور بوسہ اولین کی ساعت بھی مجھ پر اسی شہر میں اُتری تھی۔صدیوں سے سنی اور بجائی جانے والی سب بہترین دھنیں میں نے دریاۓ سین کے کنارے آباد اسی شہر میں تخلیق کیں۔قبر کے سرہانے لگے میرے جس مجسمے کو تم گھورے جا رہی ہو وہ مشہور سنگ تراش Clesinger کا بنایا ہوا۔میری مخالفت کے باوجود اس کی شادی جارج سینڈ کی بیٹی سے طے ہوئی۔آہ!جارج بھی کیا فتنہ پرور تھی۔وہ ایک وقت میں کئی عشاق رکھنے کے ہنر میں یکتا تھی سو میں بھی برسوں اس کی زلف کا اسیر رہا۔اس کے اصل نام ڈپن سے کم لوگ ہی وقف ہیں جارج سینڈ اس کا قلمی نام تھا اس زمانے میں خواتین اہل قلم مردوں کے نام سے لکھتی تھیں۔
نیویارک کی شاہراہوں سے لے کر پیرس کے نیم تاریک قہوے خانوں تک میری تخلیق کی ہوئی دھنیں ہمہ وقت بجتی رہتی ہیں۔تھرکتے ہوے جسم میری موسیقی پر بد مست ہو جاتے ہیں۔کچھ روح کے زخم بھرنے یا پھر خود سے ملنے کی آرزو میں دبیز پردوں کو کھڑکیوں پر گرا کر پہروں روتے ہوۓ میری موسیقی کے جلترنگ پر باطن کے داغ دھونے میں مگن رہتے ہیں۔
تم نے جس توجہ اور انہماک سے میری گفتگو سنی ہے۔مجھے یقین ہے کیرولین تم کن رسیا بھی ہو اور موسیقی کی رموز اور باریکیوں سے بھی آشنا ہو مجھ سے تھوڑی ہی دور مہان گلوکار جم موریسن آسودہ خاک ہے۔جو مجھ سے زمانوں بعد پیدا ہوا مگر شہرت اور مقبولیت کی سب حدوں سے آگے نکل گیا تھا۔تمھاری نسل کے لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لۓ کئی کئی راتیں کسی ہوٹل یا طیران گاہ کے باہر جاگ کر گزار دیتے تھے۔وہ تمھاری نسل کا ہیرو تھا اور مجھے اس بات کا بھی اندازہ ہے تم اس کے سنگ مزار پر بوسہ دینے کی جلدی میں ہو۔خوشبو سے معطر تیز ہوا کے جھونکا کا گزرنا تھا کہ شوپاں کی سمفنی بھی بجنا بند ہوئی۔کیرولین نے آہستہ خرام چلتے ہوۓ سوچا اس پل دو پل کے میلے سے میں بھی کسی روز تیز ہوا کے جھونکے کی مانند گزر جاؤں گی۔مجھ سے لوگوں کا سنگ مزار اہل دنیا کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔میری قبر کا نشان مٹنے سے پہلے لوگ میرا نام تک بھول جائیں گے مگر افسوس مجھے جاننے میں اک عمر لگی کہ یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں۔
اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا
۰*۰
برسوں کے دائروں میں گھومتے ہوۓ جواں مرگ جم مورسن نے زندگی کا مقصد سمجھنے کے لۓ قلم،موسیقی،تھیٹر اور اسکرین کا انتخاب کیا۔مگر افسوس اس لاحاصل عہد میں تم نے صرف ستائیس برس گزارے۔اس روز تم نہانے کے ٹب میں بوتل و جام سمیت اترے۔پہلے تمھارے دل میں اک ٹیس سی اٹھی پھر ہونٹوں پر مسکراہٹ چھائی اور آخر میں سر ڈھلکا۔
بے لباس نیم گرم پانی کے ٹب میں درد دل یا نشے کی لت میں مبتلا تم ابدی سفر پر روانہ ہوۓ۔تین چار دن میں قانونی کاروائی مکمل ہونے کے بعد انتہائی رازداری سے دو قدیم مقبروں کے درمیان پیر لاشیز میں تمھیں سپردِ خاک کیا گیا۔تمھاری قبر کے گرد یہ آہنی جنگلہ اس لۓ نصب ہے کہ رات کے اندھیرے میں تمھارے دو مداح قبر کے سرہانے لگے تمھارے مجسمے کو اتارنے کے بعد رفو چکر ہو گئے تھے تھے۔آہنی جنگلے کے چاروں طرف وائن کی بکھری ہوئی بوتلیں اس بات کی گواہ ہیں کہ تمھارے چاہنے والے ایک دو گھونٹ لگانے کے بعد انہیں تمھاری بھینٹ چڑھا جاتے ہیں۔
کیرولین نے ایک خالی بوتل کو پاؤں سے ٹھوکر لگاتے ہوے کہا میرا تعلق بھی اس نسل سے ہے جس کو تم نے باغیانہ سوچ عطا کی۔تاریخ کے اوراق میں اُس عہد کوbaby boom generation کے نام سے پکارا جاتا ہے۔مالی مفادات کی خاطر لوگ زندگی کی لذتوں کو فراموش کر رہے تھے۔فطرت سے دوری نے کشادہ دستی اور اور انسانی ہمدردی کو قصہ پارینہ بنا دیا تھا۔جمع آوری کی لگن میں اہل زرتقسیم کا سبق بھول گئے تھے۔میلے میں گم انسان تنہائی کے المیے سے دو چار تھا۔ایسے میں تم نے The door کے نام سے ایک بینڈتشکیل دیا نوجوان ہاتھوں میں جام تھامے منہ سے دھویں کے بادل چھوڑتے ہوۓ تمھارے گانے اور تیز موسیقی پر باغینانہ نعرے لگاتے۔تمھارے گانوں کے مکھڑے اور استائیوں میں تشدد کی لہر تھی جو انسان کے بناۓ ہوۓ قوانین سے ٹکراؤ کا درس دیتی تھی۔
جم مورسن نے کیرولین کی طویل گفتگو سننے کے بعد کہا The door کا نام میں نے الڈلس ہکسلے کی کتاب The doors of perception سے لیا تھا جبکہ ہکسلے کی کتاب کا عنوان ولیم بلیک کی نظم جنت اور دوزخ کے ملاپ کے اس مصرعے سے ماخوذ ہے۔
“If the doors of perceptions were closed everything would appear to man as it is infinite”
خود کو جاننے کی جستجو میں نوجوانوں کے گروہ سپاٹ زندگی سے اُکتاۓ ہوۓ محبت کی فسوں خیز وادی میں تمیزِ خیر و شر کے متلاشی تھے۔ اس عہد میں تنہائی اور مایوسی کے اندھیرے زندگی میں وحشت کے رنگ بھر رہے تھے۔دیر و حرم کے چراغ بجھنے کے بعد دل جلانے کی باری تھی۔
کیرولین نے قہقہ لگاتے ہوۓ کہا دل جلانے کے لۓ ہم ابھی تک زندہ ہیں اور تم light my fire کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوۓ اس دروازے میں داخل ہوۓ جو موت کی وادی میں کھلتا ہے۔موت کے ہزاروں ہاتھ ہیں اور وہ کئی راستوں سے آ سکتی ہے۔جب شہرت کی دیوی تمھارے قدم چومتی تھی تم امریکہ سے گمنامی کی زندگی گزارنے اپنی محبوبہ کے ساتھ پیرس آۓ تھے۔مگر موت کی پرچھائی نے نہاتے ہوۓ تمھیں اپنے دامن میں سمیٹا اور کوئی پُر سکون سوتے ہوۓ عدم آباد روانہ ہو جاتا ہے۔زندگی کے تعاقب میں سرگرداں موت کو کون شکست دے پایا ہے مگر تم سے لوگ جو اپنے فن میں یکتا تھے تاریخ کے نصابوں میں ان کا نام آبِ زر سے رقم ہوا۔وقت کا دریا بھی کمالِ فن کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔
کیرولین نے جنگلے کے گرد بکھری ہوئی بوتلوں کو ترتیب سے رکھا اور پیرس کی محبت میں بالزاک کی قبر کی جانب رواں ہوئی۔
۰*۰
بالزاک کی قبر کے سرہانے کانسی کی کتاب اور قلم سے ٹیک لگاتے ہوۓ کیرولین نے کہا اے عظیم مصنف تم نے پیرس کی معاشرت کو ناولوں میں بیان کیا۔تمھیں الفاظ کی حرمت کی پاسداری کے علاوہ مال و زر جمع کرنے کا طمع بھی تھا۔چہلی قدمی کے واسطے تم نے سونے اور جھنڈ کھنڈ کے دستوں والی جو سینکڑوں چھڑیاں جمع کی تھیں وہ لالچ کے علاوہ تمھارے اندر بسے ہوۓ معاشی خوف اور سماجی حلقوں میں تمھاری انفرادی پہچان کی علامت بھی تھیں۔تم عوام کی بجاۓ بوژوار طبقے کے لوگوں سے مل کر خوش ہوتے تھے۔دولت مند خواتین سے مراسم رکھنا بھی تم کو محبوب تھا۔
تمھارے کرداروں کی منفی سوچ اور ان کا اپنی محبت میں مبتلا ہونا کس بات کی علامت ہے؟
زیر زمین بالزاک نے نرم آواز میں جواب دیتے ہوۓ کہا مجھے میری ماں نے اپنے مخصوص مزاج کی وجہ سے بچپن میں نظر انداز کیا تھا۔اس محرومی نے میرے اندر لالچ اور انفرادی پہچان کی خواہش کو جنم دیا۔میں نے اپنے عہد کی معاشرت کو کہانیوں کی صورت بیان کرنے کی کوشش کی۔تم میری تحریروں کو اپنے زمانے کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرتی ہو۔شائد اسی لئے میرے کردار تم کو منفی سوچ کے حامل لگتے ہیں۔
بالزاک نے کاغذوں کے پلندے کو ترتیب سے رکھا اور قلم میں دوات بھرتے ہوۓ لکھنا شروع کیا۔کیرولین نے بالزاک کو لکھنے میں انہماک دیکھ کر مزید سوال و جواب کرنے سے گریز کیا۔
۰*۰
شام کا پہلا تارا افق کے اس پار نمودار ہو چکا تھا۔اس وقت آسکر وائلڈ نے اپنے قبر سے کیرولین کو پکارتے ہوۓ کہا اے نوجوانی لڑکی جب میں تمھارے دیس دورے پر آیا تھا تو لوگ میری ایک جھلک کے لۓ آپس میں دست و گریبان ہوۓ جاتے تھے۔بندرگاہ پر میرا استقبال کرنے کے لۓ لوگوں کا ہجوم نجانے کب سے منتظر تھا۔
زیر زمین سونے والے لوگوں سے تمھاری گفتگو کی سرگوشیاں تو میں سن رہا ہوں۔ اچھا ہوا تم نے میری قبر پر بھی دستک دی کیونکہ میں تم کو اپنی کہانی سنانے کا آرزومند تھا۔
میری کہانی پیر لاشیز کے سب مکینوں سے الگ ہے۔میں وہ غریب الوطن ہوں جو اپنے دیس انگلستان میں ہم جنس پرستی کے جرم میں سزا کاٹنے کے بعد پیرس آیا تھا۔میری دنیاوی زندگی بھی ہنگاموں میں بسر ہوئی مگر مرنے کے بعد بھی مجھے چین نہیں پڑتا۔دنیا میں جو مجھ پر گزری اور زندگی کو جیسے میں نے اپنایا اس داستان کے بارے دفتروں کے دفتر لکھے گئے۔میں تم کو خاک کا پیوند ہونے کے بعد کی آپ بیتی سناتا ہوں۔مرنے کے بعد میری تدفین پیرس کے گمنام قبرستان میں کی گئی۔مگر میری قدر آور شخصیت اور فن کے سامنے سب کو سرنگوں ہونا پڑا۔نو سال بعد میرا تابوت ویران قبرستان سے پیرلاشیز میں دوسرے اہل فن کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔قبر کشائی کے بعد میرے چہرے پر اُگے داڑھی کے بال شائد ہی کسی نے دیکھے ہوں مگر میری طنزیہ مسکراہٹ پر اہل دنیا نے خوب ناک بھوک چڑھائی۔
میرے اولین محبوب رابرٹ رؤس نے برطانوی مجسمہ ساز اپسٹین کو میری قبر کی تزئین و آرائش کے لۓ منتخب کیا۔اپسٹین نے یونان کے داستانوی کردار سفنیکس کو میرے سنگ مزار کے طور پر شہر لندن میں بنایا۔مجسمے میں عضو تناسل کے ابھار کو بنیاد بناکر اخبارات میں خوب اُچھالا گیا جبکہ مجسمے کو قبر پر نصب کرنے کی تقریب میں سنگ تراش نے احتجاجاً شرکت کرنے سے معذرت کر لی تھی ۔پیر لاشیز آنے والے میری قبر پر حاضری بھرتے ہوۓ کن اکھیوں سے سفنیکس کے عضو تناسل کو دیکھتے اور میں زیر زمین ان پر مسکراتا رہتا۔
کچھ مدت بعد شدت پسندوں نے عضو تناسل کو پتھروں سے توڑ دیا۔قبرستان کے اہلکار ٹوٹے ہوۓ عضو تناسل کے ایک ٹکڑے کو برسوں پیپر ویٹ کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ہم جنس پرست گروہ در گروہ میری قبر پر بوسوں کے نشان ثبت کرنے آتے رہتے ہیں کیونکہ میں ان کے راستے کے سب کانٹے برسوں پہلے پلکوں سے اٹھا چکا تھا۔
میری کہانی تو ابھی باقی ہے مگر میرے ہر دلعزیز محبوب نواب ڈیگلوس کا ہمشکل لونڈا سامنے سے میری قبر پر پھول چڑھانے آ رہا ہے۔میں کچھ وقت اس کے ساتھ تنہائی میں گزارنا چاہتا ہوں تم اب جاؤ۔
اے حسینہ خدا حافظ!
جس کا سبزہ خط ابھی اُترا ہی نہیں مجھے اس کی رفاقت تمھاری ہمنوائی سے زیادہ عزیز ہے اور وہ میرے پیارے بوُسی سے بھی تو ملتا جلتا ہے۔
کیرولین نے انگڑائی لیتے ہوۓ نظر اوپر اٹھائی تو ماہ تمام کی ٹھنڈی روشنی گھنے درختوں کے پتوں پر اتر رہی تھی۔کیرولین اب تھک چکی تھی۔اس نے خود کو قوتِ گویائی سے محروم پایا اور سننے کی تاب بھی اس میں کہا تھی۔مگر وہ پیرس چھوڑنے سے پہلے ایڈتھ پیف سے ملنے کی خواہ تھی زندگی کے سفر میں ایڈتھ کے پاؤں لہو لہان اور جگر خون ہوا۔مگر غم و الم کے بیکراں سمندر کو وہ کسی طور عبور کر کے پیرس کی سماجی و رنگین زندگی میں معتبر ٹھہری۔
سنگ سیاہ کی کشادہ اور ہموار قبر پر رکھا سرخ گلاب چاند رات میں پیرلاشیز کے منظر میں اداسی کے رنگ بھر رہا تھا۔
چہار سو گونجتی خاموشی میں ایڈتھ نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوۓ کہا غربت کے ہاتھوں مجبور میری ماں ہی میری دلال تھی۔قحبہ خانے کی سرد سرد راتوں میں کئی بار بستر کی شکنوں سے میں نے اپنی روح کو گھائل ہوتے دیکھا۔میں نے جسم فروش عورتوں کے علاوہ لوٹنے والوں کے ایک گروہ کے ساتھ لڑکپن بسر کیا۔میں خدا کے سامنے سرنگوں ہر روز ایک کامیاب زندگی گزارنے کی التجا کرتی۔میں شہرت کے ساتھ محبت کی بھی طلبگار تھی۔
میری آواز کا جادو فرانس کے مشہور کلبوں تک پہنچا۔کسی بھی کنسڑٹ میں میرا گانا کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا۔موسیقی کے نقادوں نے مجھے فرانس کی قومی آواز قرار دیا۔گفتگو سے لے کر کپڑوں تک نوابین کی بیگمات میری نقالی کرتیں۔چکلے میں کام کرنے والی ایڈتھ پیف اب فرانس کے کلچر کی شناخت تھی۔شہرت اور دولت پرچھائی کی صورت برسوں میرے ساتھ رہے۔
مردانہ وجاہت اور طاقت کی علامت عالمی چمپئن باکسر مرسل سرڈان کے ساتھ نے جسم کی آسودگی کے علاوہ میری روح کو بھی شاداب رکھا۔اس کا طیارہ فضا میں پھٹا سُر اور تانوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا۔
موت کس قدر بے رحم ہے۔
وہ دبے پاؤں آتی ہے۔
وہ مقفل دروازوں اور حفاظتی تدابیر کی پرواہ نہیں کرتی۔
وہ اپنے انتخاب میں خوبرو جوان اور کھانستے ہوۓ ضعیف میں امتیاز نہیں کرتی۔
موت سے غافل رہنے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ کشادہ دلی سے اس کے احترام اور تکریم کے لۓ خود کو آمادہ رکھیں۔
وہ نہانے کے ٹب یا فضا میں کہیں بھی تم کو دبوچ سکتی ہے۔
یگانگت،اخلاص اور خود سے محبت کرنے والے موت سے مسکرا کر بات کرتے ہیں۔
کیرولین زندگی سے لطف اٹھاؤ اور دنیا میں صلح کُل کا درس دو تاکہ تمھارے جانے کے بعد لوگ تمھیں یاد رکھیں۔
“The essential thing is to love, to be loved, to be happy and in harmony with yourself”

یہ کتاب پڑھنے کے بعد میری آنکھوں میں بسی نمی آنسوؤں میں ڈھلنے لگی۔میں مضطرب سا کھوۓ ہوؤں کی جستجو میں سرگرداں تنہائی میں ان ستارہ چہروں سے ہمکلام رہتا جن کو بہار رتوں میں زمین کے سپرد کیا تھا۔اداسی کے اس موسم میں میرے بٹوے میں موجود سنگریزہ چمکنے لگا جس کو مایوسی کے عالم میں اماں کی قبر سے اٹھایا تھا۔اس حرزجاں سے بھی عزیز پتھر کو میں نے بوسہ دیتے ہوۓ آنکھوں سے لگایا۔ضبط کا بندھن ٹوٹا اور آنسوؤں کے سیلاب میں بار بار اماں ہاۓ میری اماں پکارتا رہا۔
برسات کا موسم کب کا نکل گیا پر
مژگاں کی یہ گھٹائیں اب تک برستیاں ہیں
دنیا کے میلے میں تنہا میں آغوش مادر میں چھپنے کا متمنی ہوں۔عدم آباد میں اماں سے ملنے کی آس میں زندگی گزر ہی جاۓ گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں