یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں تازہ تازہ نویں جماعت میں آئی تھی اور نئے مضامین سے آنکھ مچولی کھیل رہی تھی کہ ایک صبح اسکول شروع ہونے کے کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد اسکول کا گھنٹا ٹن ٹنا ٹن بجنا شروع ہوگیا۔ سب پریشان ہوگۓ کہ ابھی تو اسکول کی آدھی چھٹی میں دو پریڈز باقی تھے۔
ساری لڑکیاں شور مچاتی برآمدے میں نکل آئیں اور ٹیچرز بھی پریشان پریشان سی ہمارے برابر آکھڑی ہوئیں۔ تب ہی ایک ٹیچر نے کہا مسز سلیم ( ہیڈ مسٹر یس ) نیچے آنے کا اشارہ کر رہی ہیں۔ ان دنوں اسکولوں میں اجتماعی طور پر آنے جانے کا مطلب ہوتا تھا لائن بنا کے چلیں۔ منٹوں میں تمام کمرے خالی ہوگئے اور اسکول کےاندرونی گراؤنڈ میں ہم سب لائن بنا کے کھڑے کسی انہونی کا انتظار کرنے لگے۔
مسز سیلم! یعنی ہماری ہیڈ مسٹر یس صاحبہ آگے بڑھیں اور باآواز بلند سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد انھوں نے بتایا” بچیوں آج الصبح دشمن یعنی بھارت نے ہمارے ملک پے حملہ کردیا ہے۔ لاہور میں اس وقت جنگ ہو رہی ہے۔ ڈائیریکٹ سے ابھی اسکول بند کرنے کا فون آیا ہے۔ ملک میں ایمر جنسی نافذ کردی گئی گئ ہے۔ تھوڑی دیر میں صدر مملکت قوم سے خطاب کریں گے۔ آپ سب اپنے گھروں کو جاسکتی ہیں۔ اپنے ملک کی کامیابی کے لئے دعا کرئیے۔ “
ہم سب کلاسوں میں واپس آنے اور کتابیں کاپیاں سمیٹنے کے دوران ایک دوسرے سے یہ پوچھتے رہے کہ جنگ کیسی ہوتی ہے؟کس رنگ کی ہوتی ہے؟ اس میں کیا ہوتا ہے؟ایک ساتھی نے کہنی مارتے ہوۓ یہ بھی کہا تمہارے والد تو فوج میں تھے نا تم بتاؤ جنگ میں کیا ہوتا ہے؟
میں نے منمناتی آواز میں کہا “ آج پوچھوں گی”۔
پانچویں،چھٹی جماعت کی اسلامیات میں البتہ جنگ احد اور جنگ بدر کے بارے میں ضرور پڑھا تھالیکن وہ تو دین کے لئے ہونے والی جنگیں تھیں اور دین تو اب پھیل چکا۔ اب کس بات کی جنگ ہے۔
یہ سب سوچتے، بولتے گھر کی جانب گامزن ہوگۓ۔ ہمارے گھر اور اسکول کے درمیان کوئی دوسو قدموں کا فاصلہ تھا۔ گھر میں بے وقت داخل ہوتے دیکھ کے قبل اس کے امی کوئی سوال کرتیں ان کے چہرے کی پریشانی کو دیکھتے ہوۓ ہم نے خالص بڑی باجی یعنی ہیڈ مسٹر یس والے انداز میں کہا” جنگ ہوگئی ہے، بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے۔ لاہور میں لڑائی ہو رہی ہے تھوڑی دیر میں صدر پاکستان خطاب کرنے والے ہیں”۔
ہمارے اعلانیہ کے جواب میں دھلے کپڑے الگنی پر پھیلاتی ہماری تائی اللہ رحم کرے کہتی نیچے بیٹھتی چلی گئیں۔ امی نے گھور کے دیکھا اور غصے بھری آواز میں ڈانٹتی ہوئی ریڈیو کی طرف لپکیں۔ ان دنوں کے ریڈیو سب ہی کو یاد ہوں گے، کھولنے کے بعد چند منٹ تک اس کے گرم ہونے یا آواز نکلنے کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ریڈیو کی آواز نکلی کہ صدر پاکستان محمد ایوب خان قوم سے خطاب فرمائیں گے۔ لمحوں میں ایوب خان کی بھاری بھرکم آواز گونجنے لگی۔ ان کی تقریر کا دورانیہ مشکل سے دو یا تین منٹ کاتھا۔ اپنی تقریر میں انھوں نے دشمن کے دانت کھٹے کرنے،شکست فاش دینے اور قوم کو متحد رہنے جیسی کچھ باتیں کیں۔
ہم نے کیا کرنا ہے گھر میں موجود کسی فرد کو اندازہ نہ تھا۔ اسی دوران مسجد سےبھی جنگ اور دعاؤں کااعلان ہونے لگا،اگلے آدھے گھنٹے میں ہماری تایا زاد بہنیں اور اسکولوں کو گۓ لڑکے بھی واپس آگۓ اور اس سے اگلے گھنٹے میں پاپا اور تایا بھی واپس پہنچ گۓ۔
گھر کے دونوں بڑے مرد کچھ سراسمیہ سے تھے۔ ان کے دل اور ذہنوں میں کیا چل رہاتھا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ ریڈیو بار بار ایوب خان کی تقریر نشر کر رہاتھا۔ درمیانی وقفے میں نورجہاں کی آواز وطن کے سجیلے جوانوں کو پکارنے لگتی۔
شام کی چاۓ پیتے ہوۓ ہمارے تایا نے اپنے بھائی یعنی ہمارے والد کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا” عبدل احد گھر میں کچھ فالتو آٹا،چینی،دالیں وغیرہ ضرور ہونی چاہئیں۔ گھر میں چھوٹے بچے بھی ہیں۔ یاد ہے نا برطانیہ کی لڑائی میں کھانے پینے کی اُ شیاء کتنی مشکل سے ملتی تھیں”۔
ان کی گفتگو سے جنگ کی پہلی برائی کااحساس ہوا کہ کھانے پینے کا سامان نایاب ہوجاتا ہے۔
شام آگے بڑھی تو مساجد اور ریڈیو سے بلیک آؤٹ کے اعلانات ہونے لگے۔ کیسے ہوگا،کیاکرناہوگا،یہ بھی باربار بتایا جانے لگا۔ جب ہی ہمارے تایا نے فوراً اعلان کیا کہ رات کا کھانا مغرب کی روشنی میں کھالیاجاۓ اور ایسا ہی ہوا۔
تب ہی جنگ کی دوسری برائی دل میں انی کی طرح اٹک گئی کہ جنگ کا مطلب ہے گھر میں روشنی نہ ہو۔
اگلی صبح کا اخبار جنگ میں ڈوبا، نہایا،لہو لہان آیا۔ لاہور،سیالکوٹ،چونسہ،قصور،سرگودھا،جہلم،کھاریاں،ٹینک،توپیں،جہاز،بم،بندوقیں،لاشیں،شہید،غازی، گاؤں سے آبادی کا انخلا،ماریں گے مر جائیں گے۔ لہولہان اخبار میں سب ہی کچھ تھا ایک نہیں تھا تو اسکولوں کے بارے میں کچھ نہیں تھا۔
جب ہی ریڈیو پر شکیل احمد کی کڑکڑاتی آواز گونجی”ہم ایک زندہ قوم ہیں اور زندگی کے معمولات روز کی طرح چلیں گے۔ تعلیمی اداروں، دفاتر میں کام ہوگا”۔ البتہ زندہ قوم نے تعلیمی اداروں میں آدھے وقت کی چھٹی بند کرکے تعلیم کا ایک گھنٹہ کم کردیا۔
ایسی جنگ کا کیا فائیدہ سوچتے ہوۓ اسکول کی طرف چل پڑے۔
پھر زندگی کے معمول جنگ کے ساتھ چلنے لگے۔ چاند دیر سے نکلنے لگا تو سائرن بھی دیر سے پچھلے پہر بجنے لگے،راتوں کو جب دھمادھم ہوتی تو چاند کی روشنی میں اکثر جہاز قلابازیاں لگاتے نظر آتے۔ سول ڈیفنس والوں کی سیٹیاں بھی سنائی دیتیں ،ہر طرف ہو کا عالم ہوتا،مغرب بعد سڑکیں ویران ہو جاتیں ،پیدل چلنے والوں کو سول ڈیفنس کے ہرکارے سڑک سے ہٹ کے چلنے کی ہدایت کرتے،ایک شب ریڈیو سے اعلان ہوا کہ سابق فوجی اگلے حکم کا انتظار کریں تو امی نے رو،رو کے ڈھیر لگا دئیے۔ سارے گھر کی تسلیاں ،دلاسے ایک طرف اور امی کے آنسوؤں کا سیلاب ایک طرف تھا۔
جنگ شروع ہوۓ ایک ہفتہ گزر چکاتھا اور جنگ کچھ کچھ سمجھ آنے لگی تھی کہ جنگ کا مطلب موت اور تباہی ہے۔
ایک دوپہر اخبار چاٹتے، چاٹتے دل،ذہن اور آنکھوں کی سوئی اس خبر پے اٹک گئی جس میں لکھا تھا” فوجی جوانوں کے لئے خون کی اشد ضرورت ہے،خون لینے کے مرکزوں کی نشاندہی بھی کی گئی تھی”۔
میں ! نویں جماعت کی طالبہ نے اپنی بی اے سال اول کی تایا زاد بہن کو شام تک اس بات کے لئے راضی کرلیاکہ “ کل کو ہم فوجی بھائیوں کو خون دینے جائیں گے”۔
اسی رات کو کھانا کھاتے ہوۓ میں نے پوچھا” پاپا خون کیسے دیتے ہیں؟”
انھوں نے نظر اٹھاۓ بنا پوچھا”کون دے رہاہے؟”قبل اس کے بات آگے بڑھتی تایا نے خون دینے کا پورا عمل سمجھایا پھر پوچھا کون دے رہا ہے؟ ان کا جواب تھوڑا حوصلہ افزا تھا سو میں نے جلدی سے کہا” میں اور—-باجی پروگرام بنا رہے ہیں” پانی پیتے ہوۓ انھوں نے ٹھیک ہے کہا اور پوچھا سول ہسپتال کا پتا ہے، بہتر ہے کسی بڑے کے ساتھ جانا۔
اگلی صبح ہم دونوں کی حوصلہ شکنی کے خیال سے گھر کی دونوں بڑی خواتین نے ساتھ جانے سے انکار کردیا تو میری تایا زاد نے اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ چلنے پر آمادہ کر لیا۔
مجھے آج بھی یاد ہے۔ جس بس کے ہم مسافر تھے وہ صدر میں ختم ہوگئ تھی اور ہمیں آگے کا کچھ پتہ نہ تھا۔ لہٰذا راہ چلتے لوگوں سے پوچھتے پوچھتے ہم سول ہسپتال پہنچے تھے۔ وہاں پہنچ کے پتا چلا کہ کیمپ برابر میں واقع کراچی کالج نامی ایک عمارت میں لگا ہے۔ کالج کے بڑے سے ہال میں درجنوں بستروں پر خون دینے والے لیٹے ہوۓ تھے اور درجنوں لوگ اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔
خون دینے سے قبل خون لینے والوں نے ضروری کاروائی کرتے ہوۓ ہمارا نام،عمر اور دیگر معلومات لینے کے بعد ہمارے لمبے قد کو دیکھتے ہوۓ کہا آپ کی عمر کم ہے،آپ خون نہیں دے سکتیں،ایک ڈاکٹر نے آگے بڑھتے ہوۓ کہابیٹا بچیوں کو کم ازکم اٹھارہ سال کا ہونا چاہیئے۔ ہم آپ کی بہن اور بھائی کا خون لے سکتے ہیں۔ بھائی اندر کے مناظر سے گھبرا کے باہر نکل گیا اور ہم کھڑے ضد کرتے رہے کہ خون دے کے جانا ہے۔ بہرحال گروپ چیک ہوا اور ساتھ ہی شاید ہیمو گلوبن بھی کہ کچھ دیر بعد ایک ڈاکٹر کی آواز آئی “ بچی کا ہیمو گلوبن اچھا ہے۔ خون دے سکتی ہے”۔ وہ میری چھوٹی سی زندگی کا پہلا عطیہ خون تھا۔
ہم دونوں بہنیں اس کارنامے کے بعد اسی طرح پیدل چل کے صدر آۓ اور بس میں سوار ہوکے گھر پہنچے تو دونوں کی مائیں پریشانی کے بدترین تاثرات کے ساتھ منتظر تھیں۔
اسی شام ریڈیائی نشریات کہہ رہی تھیں کہ خون کے اوُ گروپ کی اشد ضرورت ہے اور میں خود کو بادلوں کے سنگ سنگ محسوس کر رہی تھی کہ میرا گروپ اوُ تھا اور بقول تایا کے فوراً کام آگیا ہوگا۔
ابھی جنگ چل رہی تھی کہ ایک صبح اسکول میں ٹرک سے ڈھیروں ڈھیر اون کے بنڈل اترے اور آٹھویں سے دسویں جماعت تک کی لڑکیوں میں چار ، چار کے گروپ بناکے سوئیٹر بننے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ مجھے نٹنگ کا شوق بھی تھا اور ہاتھ بھی تیز چلتا تھا لہٰذا میں نے نہ صرف اپنے گروپ کا سوئیٹر مکمل بنایا دوسروں کے ساتھ بھی ہاتھ بٹایا۔
چونڈا کے محاذ پر ٹینکوں کی تباہی کے بعد ایوب خان نے قوم سے اپیل کی کہ ایک پیسہ چندہ دیں تو ہم نۓ ٹینک خرید سکتے ہیں۔ جذباتی قوم نے پیسوں کے ڈھیر لگا دئیے۔
نورجہاں نے “ کرنیلی، جرنیلی” گاکے تمام کرنلوں، جرنلوں کو امر کر دیا۔ نسیم بیگم نے” اے راہ حق کے شہیدو” یوں گایا کہ پھر کوئی آواز اس کو چھو نہ سکی۔ درجنوں محبت عقیدت میں ڈوبے نغمے گیت نہ صرف زبان زد عام تھے انھیں سن کے لوگ دیوانے ہوجاتے تھے۔
جنگ ایسی بھی ہوتی ہے!
قوم مر مٹنے کو تیار، ایک آواز پر فنا فی الفور
پھر ایک دن اچانک سے جنگ ختم ہوگئی۔ خوشی اس بات کی تھی کہ بلیک آؤٹ ختم ہوگیا۔ شامیں مسکرانے لگیں اور رات جگمگانے لگی۔ سالوں اس جنگ کا ڈنکا ہم سب کی زندگیوں میں بجتا رہا۔
وقت کا پہیہ چلا اور خوب چلا—-ہم بھی چلتے چلتے بی اے میں پہنچ گۓ۔ دماغ نے سوچنا اور بے تحاشہ سوچنا شروع کردیاتھا۔ ہر وقت بحث کے لئے تیار رہتے ایسے ہی ایک دن پڑھاتے ، پڑھاتےآج کے لیڈر کل کے استاد نے بحث پر آمادہ دیکھ کے کہا لڑکی میں ہارا تم جیتی اب چپ کرکے بیٹھ جاؤ۔ سیاسیات پڑھاتے ہوۓ ، مساوات کی مثالیں دیتے ہوۓ انھوں نے مشرقی بھائیوں کو ناشکرا اور نہ جانے کیاکچھ کہنا شروع کردیا تھا۔
۱۹۷۰-۷۱ کاپورا زمانہ ہنگاموں،خون ریزیوں،شر پسند یوں ،عزتوں کی پامالیوں میں گزرا، لوگ یا عوام گاجر مولیوں کی طرح کٹتے رہے، آبادیاں قبرستان بنتی رہیں، قبرستان مسکراتے رہے ، سب مل کے موت بوتے رہے موت کاٹتے رہے، ایک دوسرے کا گریبان تار تار کرتے رہے۔
ابھی چھ سال پہلے کی جنگ کے زخم مندمل نہ ہو ۓتھے کہ ایک اور جنگ شروع ہوگئ۔
جنگ کا مقصد اس بار بھی سمجھ نہ آیا بھلا کوئ اپنے ملک میں اپنے لوگوں سے بھی جنگ کرتا ہے۔ اپنوں سے تو ٹھنڈے کمرے میں چاۓ پیتے سمے، کھانا کھاتے کھاتے،ٹی وی دیکھتے ،شام ڈھلے، سورج نکلتے، ندیا کنارے،چاۓ کے ڈھابے،گول میز، چوکور میز،آم کے باغ،چاول کے کھیت، پٹ سن کے ڈھیر،کھٹل ،لیچی،جامن،چھالی،ناریل کی تھوک مارکیٹ سے لے کے ہر ہر جگہ بات ہوسکتی ہے۔
کیا میدان جنگ بہت ضروری ہے۔
ایک بار پھر سے دن اور رات کے اوقات میں سائیرن بجنے لگے،دھادھم ہونے لگی، بلیک آؤٹ آنکھیں دکھاتا رہا البتہ اس بار کھڑکیوں کے شیشے سیاہ کرکے گھروں میں روشنیوں کے دیپ جلتے رہے۔
دماغ کی فیکٹری دن رات چلتی رہتی بلکہ اوقات کار سے زیادہ چل رہی تھی بنا صلے کے، وہ نویں جماعت والی جزباتیت میں ٹھہراؤ آگیا تھا۔ لہریں اٹھتی تھیں لیکن لمحوں میں دم توڑ دیتی تھیں۔ لوگ ایک دوسرے سے سر گوشیوں میں بات کرتے کبھی کوئ بات کانوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتی تو اندازہ ہوتا لوگ یعنی عوام لڑنا نہیں چاہتی۔ یہ بھی اندازہ ہوا کہ عام انسان سکھ چین کی چھاؤں تلے ٹانگیں پھیلا کے زندہ رہنا چاہتا ہے۔
پھر جنگ کون چاہتا ہے؟
دماغ کی بھٹی اسی ایک بات کو دن رات دہکاۓ رہتی۔
اس بار نہ کسی نے خون مانگا نہ ہی ہمارے خون نے جوش مارا۔ بس دوستوں کے ساتھ مل کے ایک معصوم سی سول ڈیفنس کی تربیت مکمل کرلی۔
جنگ جاری تھی، لہو میں تر سچی جھوٹی خبریں چلتی رہتی تھیں۔ عجب بات تھی کہ پچھلی جنگ کی طرح اس بار کوئ بھی اپنی خبریں نہیں سنتا تھا۔ سب کی خبروں کاکعبہ بی بی سی تھا۔ اسے سنے بغیر نہ تو کھانا ہضم ہوتا نہ ہی نیند آتی تھی۔ ابھی
جنگ چل رہی تھی کہ ایک رات با حالت مجبوری ریڈیو نے اس بات کو قبولا کہ پاکستان کی اکلوتی آبدوز دس دن سے missing ہے۔ جب کے یہ خبر دوسرے نشریاتی ادارے کئ دن سے نشر کر رہے تھے۔
ہمارے اپنے خاندان میں تو اس بات کی چرچا اور بھی زیادہ تھی کہ آبدوز کے سر براہ ظفر امی کے دور پار کے رشتے دار تھے۔ وہ آبدوز سمیت نہ سمندر کے اوپر ملتے نہ تہہ میں نظر آتے تھے۔
خبروں میں جھوٹ سچ کا کھیل اور مر مٹنے اور جینے مرنے کے بیانات چلتے رہے،مونچھوں کو بل لگتے رہے،سینے کھینچ کھینچ کے چوڑے کیے جاتے رہے،پرانے نغمے،گیت نئ بوتلوں میں بند ہوتے رہے، دہلانے والی خبریں سینہ در سینہ چلتی رہیں،وطن کے سجیلے جوانوں کی ڈبہ بند باقیات ان کے گھروں پر پہنچتی رہیں،جیسور،ڈھاکہ،چٹگانگ،کھلنا،لاہور،سیالکوٹ،جہلم،کھاریاں،کراچی کے نام ایک تواتر سے جھوٹی سچی خبروں کے حوالے بنتے رہے۔
لیکن !
ایک دن کا سورج غروب آفتاب سے کچھ قبل پانچ کروڑ جوانوں ،بوڑھوں،عورتوں ،بچوں کے منہ پر کالک ملتا اپنا پژمردہ منہ چھپا گیا۔ اگلی صبح سات کروڑ کا سورج ان کی نئ صبح بن کے طلوع ہوا۔ پانچ کروڑ سیاہ منہ والوں کی
وہ صبح بہت عجیب سی تھی کوئ کسی سے بات نہیں کر رہاتھا۔ بڑوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ رات سے براۓ نام ساتھا۔ بچوں میں سے کسی کی آواز نکلتی سنائی دیتی تو فورا ایک لمبی “ہوں” کا سامنا کرنا پڑتا۔ کوئ بولتا کیوں نہیں،دل چاہ ایک لمبی چیخ ماروں پر آواز گھٹ گئ،دوپہر ڈھلے میں نے بہت ہمت کرکے پوچھا” پاپا کیا میں کبھی جیسور نہ جا سکوں گی، میرے بچپن کے دوسال اس زمین پر کھیلے تھے،ہم وہاں سے اپنی زندگیوں میں ایک بھائ کا تحفہ لے کے لوٹے تھے”۔ پاپا نے سنجیدگی سے آسمان کو دیکھتے ہوا جواب دیا”اب کبھی نہیں”۔
ایسی جنگ کا کیا فائدہ؟ دماغ نے فورا سوال داغا، کوئ جواب نہ ملا، البتہ اندرون خانہ سوالوں ،جوابوں کی جنگ شروع ہوگئ تو زبان کو بمشکل بتیس کے درمیان قید کیاکہ سوال بہت باغیانہ تھے اور ان کا جواب گھر میں نہ تھا۔ بھائ ،بھائ کو چھوڑ گیا،وہ جو مر مٹنے کی باتیں کر رہے تھے وہ سب کہاں ہیں ؟کیا کر رہے ہیں؟سوچوں کی فیکٹری ہر وقت کھٹا کھٹ چلتی رہتی، خود سے سوال جواب کاسلسلہ نیند میں بھی چلتا رہتا۔
جنگ، جنگ سے وابستہ افراد سے نفرت کے سنگ میل میں ایک اور میل کا اضافہ ہوگیا۔
خالی اوقات میں اکثر سوچتی یہ کیسی جنگ تھی، ختم بھی ہوگئ ، نہ کسی نے خون مانگا،نہ سوئیٹر ز بنے گۓ،نہ ٹینکوں کے لئے چندہ جمع ہوا اور جنگ ختم ہوگئ۔
دل میں اکثر ایک لہر سی اٹھتی کہ یہ جنگ کرنے والے ہم سے چندہ اور خون تو مانگتے ہیں۔ جنگ کرنے سے پہلے ہم سے پوچھتے کیوں نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟
پچھلی جنگ کے مقابلے میں اس بار یہ ضرور ہواکہ لوگوں میں چہ میگوئیاں بڑھ گئیں ،بلند آواز، دھیمی آواز میں سوال اٹھنے لگے،محاسبے کی باتیں ہوتیں،سزاجزا کا تزکرہ ہونے لگا،ریاستی ظلم کی باتیں ہوتیں۔
اس جنگ نے جہاں ایک بازو توڑا وہیں ریاستی ظلم میں بے تحاشہ اضافہ بھی کیا ، ظلم وستم کی وہ سیاہی پھیلے جا رہی ہے۔
ریاست کے ایوانوں میں آنے جانے کی گاڑی مسلسل چل رہی ہے کبھی بنا آہٹ،کبھی دندناتے ہوۓ، جو آتا ہے وہ پہلے والے سے زیادہ خونخوار ہوتا ہے تو جانے والا معصوم لگنے لگتا ہے۔
جنگ کیوں ہوتی ہے؟ کیسی ہوتی؟کس رنگ کی ہوتی ہے؟اس کا کوئ رنگ بھی ہوتا ہے کہ نہیں؟
سوچ کے صحرا میں پتہ نہیں کس جانب نکل گئ ہوں۔ جنگ کے بادل اندر ،باہر ،چاروں اُور چھاۓ ہوۓ ہیں،جنگ کی گھن گھورگھٹا میں روشنی ، زندگی کی روشنی بڑی مشکل سے جگہ بنا پارہی ہے۔
ہفتوں پہلے کی تو بات ہے۔ جنگ نامی ایک شے ہمارے سروں پے سے سرسراتی ہوئ گزری ہے۔
وہ جنگ تھی، جھڑپ تھی،منہ ماری تھی،دل پشوری تھی،نجانے کیا تھی اور کیا نہیں؟
اس دن سے ،آج کے دن تک جنگ کے کاغذی گھوڑے ادھر سے ادھر تک دوڑے پھر رہے ہیں۔
سڑکوں ،گلیوں،چوباروں،چوراہوں پے اب تک لاکھوں نہیں تو کروڑوں روپے کے بینر لگ چکے ہوں گے۔ بہت ممکن ہے کہ بات اربوں تک بھی پہنچ چکی ہو۔
اتنے ہی اربوں روپے کا اخباروں،ٹی وی چینلز ان کے اینکروں کو دانہ دنکا پڑ چکا ہوگا۔
میں چشم دید گواہ ہوں ان اسکولوں کی جہاں پینے کاپانی اور صفائی کا کوئ انتظام نہیں ان کی ٹوٹی کھڑکیوں اور برآمدوں میں بھی کمشنری حکم کی پاسداری میں زندہ باد کے بینر جھول رہے ہیں۔ گٹر ابلتی سڑکیں،مارکیٹیں ،دکانیں بھی اس شرف سے محروم نہیں۔
شہروں ،شہروں ایستادہ کھمبوں پر جو تصویری بینرز، لکڑی کے فریم یا ہو لڈنگز لگائ گئ تھیں وہ پھسلتی، پھسلتی اب کھمبوں کے قدموں میں آچکی ہیں اور سڑکوں کی دھول مٹی، غلاظت ان کامنہ چاٹ رہی ہے۔ آئ،ایس، پی ،آر کے ہیڈ کالجوں ، یونیورسٹیوں، اسکولوں میں Bunyan Al Marsousکی تشریحات بتا رہے ہیں،لیکچرر دے رہے ہیں، نوجوانوں کو اپنی انتہائ خفیہ اکیڈمیوں میں بلا کے گھما رہے ہیں۔
آخر کیوں؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں