• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نیتن یاہو اور رضا پہلوی کی دیوانگی / حمزہ ابراہیم

نیتن یاہو اور رضا پہلوی کی دیوانگی / حمزہ ابراہیم

ایران کی موجودہ صورتحال پر دنیا بھر میں چہ میگوئیاں جاری ہیں۔ البتہ جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ ایرانی معاشرہ جمہوریت کی طرف نہیں جائے گا کیونکہ جمہوریت کے لیے بنیادی شرط دوسروں کی آزادی کا زیادہ سے زیادہ احترام کرنا اور اس مقصد کے لیے قانون بنانا ہوتی ہے۔ جمہوریت میں آئین افراد کی آزادیوں میں ہر ممکن اضافے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح نیک لوگوں کو اپنی مرضی سے نیکی کرنے کا موقع ملتا ہے۔

ایرانی معاشرہ اس خطے کے باقی معاشروں سے زیادہ مختلف نہیں، اگرچہ تیل اور گیس کی دولت نے وہاں ظاہری فرق پیدا کر رکھا ہے۔ تیل و گیس کی دریافت سے پہلے ایران میں پاک و ہند کی طرح گندگی، غربت، بیماریاں اور جرائم عام تھے۔ ہماری طرح  وہاں  تصوف، مردانہ کمزوری کی ادویات، قدیم یونانی معقولات پڑھانے والے مدرسے، فال، جنتریاں   اور جادو ٹونہ  تو آج بھی عام ہیں۔ تاہم   اب قدرتی دولت کی وجہ سے ایران میں سڑکوں کی بروقت مرمت ہو جاتی ہے، صفائی کا اہتمام ہوتا ہے اور بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی۔ جدید مغربی طرز کے سکولوں اور یونیورسٹیوں کا معیار ہم سے  بہتر ہے۔ صحت کی سہولیات اور صنعتی ترقی میں بھی ایران باقیوں سے آگے ہے۔ لیکن دوسروں کی آزادی کا احترام نہ کرنے والا یہ معاشرہ  جمہوریت اور انسانی حقوق کے حصول سے ابھی بہت دور ہے۔

ایران میں جدید قانون لوگوں کے شعور بلند ہونے سے نہیں آیا تھا بلکہ یہ سمجھ کر اپنایا گیا کہ اس سے یورپ جیسی ترقی ہو گی۔ ابھی لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ ترقی قانون کی نقل کرنے سے نہیں بلکہ خود کو قانون سازی کے قابل بنانے سے ہوتی ہے۔ دوسروں کی آزادی کا احترام کرنے کی ثقافت پیدا ہونے کے بعد ظاہری ترقی شروع ہوتی ہے۔ پہلے ذہن ترقی کریں گے تو ترقی کے ظاہری آثار وہاں سے نکلیں گے۔ سماج میں شعور نہ ہو تو آئین ایک کاغذ پر لکھی تحریر ہی ہے، جس کی اوقات ایک بکری کے لئے چارے سے زیادہ نہیں۔ اب تو خیر اس جدید قانون کو بھی مصلحت نظام کی شق اور رہبر کے اس سے بالاتر ہونے نے بے روح بنا دیا ہے۔

دوسری طرف اسرائیل شروع سے ایک مذہبی گروہ کی دوسرے گروہ پر بد معاشی کا عادی معاشرہ ہے۔ جمہوریت وہ بھی نہیں کہ جس میں کسی جغرافیے میں ایک گروہ کو فردی آزادیاں میسر ہوں اور دوسروں کو نہ ہوں۔ نیتن یاہو وہاں پہلے 1996 سے 1999 تک وزراعظم رہا اور پھر 2009 سے آج تک وزیراعظم ہے۔ وہ وہاں کی اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے۔

نیتن یاہو کا باپ ایک تاریخ دان تھا۔ لیکن وہ ویسا ہی تاریخ دان تھا جیسے ایران میں علی شریعتی جیسے لوگ، یا جیسے آج کل ہندوستان میں مودی کے حامی تاریخ دانوں کی ایک کھیپ تیار ہو چکی ہے جو تاریخ کو آئیڈیالوجی کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اس پر ہولوکاسٹ کا بہت برا اثر پڑا تھا اور یہی چیز نیتن یاہو کے لاشعور پر مسلط ہے۔ نیتن یاہو کی اس کمزوری کا فائدہ حماس نے اٹھایا جب اسرائیل کے سینکڑوں شہری قتل کر کے کئی ایک کو اغوا کر لیا۔ نیتن یاہو اگر چاہتا تو اس کے جواب میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنا کر قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کر لیتا۔ لیکن اس کو حماس سے زیادہ فلسطینیوں کے خاتمے کی فکر تھی۔ اس نے اس موقعے پر ویسا ہی ردعمل دیا جو حماس چاہتی تھی۔ اس نے غزہ کو ملیا میٹ کر کے ہولوکاسٹ کے بارے میں عالمی رائے عامہ میں پائے جانے والی ہمدردی کو ختم کر دیا اور یہودی تاریخ پر ایک سیاہ دھبہ لگا دیا۔

رضا پہلوی سابق ایرانی بادشاہ کا بیٹا ہے۔ اپنے باپ کی طرح کوئی زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہے نہ ہی اسے جمہوریت کا شعور ہے۔ وہ انیس سال کا تھا جب ایران میں انقلاب آیا اور اگلے سال ہی اس کے باپ کا کینسر سے انتقال ہو گیا۔ وہ باپ کی چھوڑی ہوئی دولت پر عیاشی  کرتا رہا ہے۔ مغربی ممالک میں رہنے کے باوجود اس نے جدید علوم  کے حصول کی زحمت گوارا نہیں فرمائی۔ جدید دور کی خطرناک سیاست کا نہ علم رکھتا ہے اور نہ تجربہ، البتہ سوشل میڈیا کی ایجاد کے بعد سے ایرانی حکومت کے مخالفین میں حامیوں کی بڑی تعداد پیدا کر چکا ہے۔ یہ لوگ نسل پرست جنونی ہیں، بسیجیوں کا دوسرا روپ ہیں۔ رضا پہلوی کو موقع ملا تو یہ  اپنی نالائقی اور حامیوں کی جنونیت کی وجہ سے  اپنے  باپ جیسی  ڈکٹیٹر شپ قائم نہیں کرے گا بلکہ ایک فاشسٹ لیڈر بنے گا۔ فاشزم زیادہ تباہ کن ہوتا ہے۔

اسرائیل کو ایران میں کیا، پورے خطے میں جمہوریت نہیں چاہیے۔ اسے چھوٹے چھوٹے ملک چاہئیں جن کے جذبات بے قابو ہوں اور ان کے پاس اسلحہ نہایت بے کار قسم کا ہو۔ عراق کو صدام کے بعد آیت اللہ سیستانی نے بچا لیا، لیکن شام اور لیبیا نہ بچ سکے۔  ایران میں آیت اللہ سیستانی جیسی کوئی شخصیت نہیں ہے، سب مراجع وسیع المطالعہ  نہیں ہوتے۔  اسرائیل یہ جانتا ہے کہ  خطے میں جمہوریت اسرائیل کو فلسطینیوں سے امتیازی سلوک نہیں کرنے دے گی، نہ ہی مزاحمتی  تنظیموں کو پروفیشنل فوج پر ترجیح دے گی۔ اسرائیل اپنے پڑوس میں  چھوٹے چھوٹے مذہبی اور نسلی گروہوں کے زیرِ اثر علاقوں کے انتظام  کو بڑی قومی  ریاستوں  پر ترجیح دیتا ہے۔ نفرت سے بھری مزاحمتی تنظیمیں  نیتن یاہو جیسوں  کے لئے لاٹری  ہیں، جو قومی ریاستوں کو کمزور کرتی ہیں اور احمقانہ اقدامات سے انہیں وہاں  تباہی مچانے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔

اسی سوچ کے تحت نیتن یاہو رضا پہلوی کی حمایت کر رہا ہے۔ رضا پہلوی بھی نادانی میں یہی سمجھ رہا ہے کہ ساری دنیا یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ دنیا یہودیوں کو ظلم سے بچانے کے حق میں ہے لیکن ان کی غلام نہیں ہے۔ دنیا کو ایران سے کوئی خطرہ نہیں ہے، نہ ہی باقی ممالک ایران میں حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ ایران ایٹم بم نہیں بنا رہا۔ خود ایرانی حکومت بھی اسرائیل پر ایٹم بم نہیں مارنا چاہتی کیونکہ وہ بہت چھوٹا ملک ہے اور وہاں ایٹم بم مارنے کا مطلب خطے میں آلودگی پھیلانا ہے۔

حقیقت شاید یہی ہے کہ ایران کا یورینیم افزودگی بڑھانے کا مقصدمغرب کو ڈرانا تھا تاکہ وہ ایران کے ساتھ ڈیل کریں اور اس پر پابندیوں میں کچھ کمی آئے۔ ایرانی حکومت کو ایران کی تباہی سے کوئی سروکار نہیں، جب سے انقلاب آیا ہے ایران میں قبرستان آباد ہو رہے  ہیں۔ کسی کی  نفرت پر اکٹھے ہونے والے  اپنی تباہی کو برا نہیں سمجھتے۔ ان کی ترجیح مخالف کو گندہ کرنا ہوتی ہے۔ اسرائیل ان دو سالوں میں بہت گندہ ہو چکا ہے۔ اب اسرائیلی ہسپتال پر میزائل گرا تو دنیا نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔

امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ جنگ مخالف ہے۔ وہ اسرائیل کی خاطر کبھی ایران پر حملہ نہیں کرے گا۔ وہ یوکرین سے بھی جلد از جلد نکلنا چاہتا ہے، کجا یہ کہ ایران میں خود کو پھنسا لے۔ ٹرمپ نے ایران میں رہبر کے قتل کی مخالفت کی ہے۔ اگرچہ رہبر کے قتل ہو جانے سے بھی اس کی جگہ نیا بندہ آ جائے گا۔ ایران میں حکومت کی تبدیلی ایک وسیع فوجی کاروائی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کوئی بھی ملک رضا پہلوی یا اسرائیل  کی خاطر اپنی فوج ایران میں نہیں جھونکے گا۔ وسیع فوجی کاروائی کے بعد بھی ایران میں خانہ جنگی ہو گی۔ ایران میں دس سے پندرہ فیصد رہبر کے حامی پولیس اور فوج کا اسلحہ لے کر لڑیں گے۔ شاہ کے حامیوں کو شاید اسرائیل اسلحہ پہنچا چکا ہو، لیکن ان کی فتح نہ تو یقینی ہو گی نہ ہی ایران کو متحد رہنے دے گی۔ ایران دوسرا شام یا  لیبیا بن جائے گا۔

پاکستان کو اپنے پڑوس میں شام یا  لیبیا بننے کی مخالفت کرنی چاہیے، ورنہ بلوچ فاشسٹوں کی دہشتگردی میں اضافہ ہو گا۔ نیز ایرانی بلوچستان میں دیوبندی عسکریت پسند بھی ایرانی ریاست ٹوٹنے سے فائدہ اٹھائیں گے اور تحریک طالبان پاکستان کو پناہ گاہیں فراہم کریں گے۔ سپاہِ صحابہ اور جماعتِ اسلامی جیسی تنظیمیں پاکستان کو سنی ایران بنانے کی کوششوں میں تیزی لائیں گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے آرمی چیف کی ملاقات میں یہ معاملہ پیش نظر رہا ہو گا۔ لگتا ہے  ڈونلڈ ٹرمپ کی خوشامد کرنے اور اسے امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کرنے کا ایک مقصد اسے اس جنگ سے باز رکھنا بھی رہا  ہو گا۔

julia rana solicitors

نیتن یاہو اور رضا پہلوی کی دیوانگی نے خطے میں خوف پھیلا دیا ہے۔ اس کھیل سے نیتن یاہو تو شاید ایران کو تباہ کر سکے، لیکن رضا پہلوی کے خواب ادھورے ہی رہیں گے۔ بیرونی فوجی مداخلت ایران کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ اس بحران کا واحد حل نیتن یاہو کو جارحیت سے روکنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ وہ دو ہفتے بعد فیصلہ کرے گا، اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ امن کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرے۔

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات § دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply