مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ/ کامریڈ فاروق بلوچ

“یہ تحریر وقت کے ایک ایسے صفحے پر رقم کی جا رہی ہے جس پر گزرے ہوئے لمحات کے خُونچکاں دھبّے ابھی خشک نہیں ہوئے…” واشنگٹن کی وہ شام غیر معمولی تھی۔ افق پر سورج نہیں، پیشانی پر شکست کی سرخی تھی۔ سپرنگس کی ہوا میں تھکن کا وہی رنگ تھا جو کسی عظیم تمدن کی آخری سانسوں سے اٹھتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی راہداریوں میں قدموں کی چاپ نہیں تھی، ضمیر کی کراہیں گونجتی تھیں۔ اسکرینوں پر حائفہ کی ریفائنری، موساد کی عمارت، اور تل ابیب کے ملبے نظر آتے تھے—جیسے کسی تہذیب نے اپنا سر خود اپنے ہی قدموں میں رکھ دیا ہو۔ صدر ٹرمپ کی آنکھوں میں وہی حیرانی تھی جو ہمیشہ ان قوموں کے چہروں پر اترتی ہے جو صرف طاقت کو تاریخ سمجھتے ہیں۔ “یہ ممکن نہیں!” اس نے گرج دار لہجے میں کہا۔ “ہمیں بتایا گیا تھا کہ ایران کے ایئر ڈیفنس سسٹم ہیک ہو چکے ہیں۔” یہ وہ لمحہ تھا جب یقین دم توڑتا ہے، اور غرور اپنے ہی ملبے تلے دفن ہو جاتا ہے۔

1979 میں تہران کی گلیوں سے جو صدا اٹھی تھی، وہ فقط ایک سیاسی نعرہ نہ تھا، وہ ایک تہذیبی عہد کا آغاز تھا۔ شاہ کا تخت گرا نہیں تھا، تہذیب کا ترازو الٹ گیا تھا۔ امام خمینی نے فرمایا تھا: “ما آمریکا را زیر پا می‌گذاریم”— تو گویا مشرق نے مغرب کے خدائی دعوؤں کو چیلنج دے دیا تھا۔ علی خامنہ ای اسی احیاء کے امین ہیں۔ وہ تیل کے نہیں، صبر کے وارث ہیں۔ وہ قوم جس نے پابندیاں جھیلیں، سائبر حملے سہے، سلیمانی کی شہادت پر آنکھوں کا پانی پیا مگر انتقام کے نام پر بےخردی کی راہ نہ چنی—آج اپنی حکمت کی بلندیوں پر ایستادہ ہے۔

جب پانچ دن قبل اسرائیل نے سرپرائز حملہ کیا تو اس کے ذہن میں ایک ہی خاکہ تھا: قیادت کو اکھاڑ دو، ملک میں دہشت بکھیر دو، اور پھر “رجیم چینج” کا نعرہ لگا دو۔ لیکن جس ایران کا تصور موساد کے دفتروں میں باندھا گیا تھا، وہ صرف تخیلات کی دھند تھا۔ اصلی ایران نے آٹھ گھنٹوں میں ایئر ڈیفنس کا کنٹرول واپس لیا، نئی عسکری کمانڈ دی، اور جواب میں اسرائیل پر میزائلوں کی بارش کردی۔

پہلی رات کے میزائل اسکرین پر صرف دھماکے نہیں تھے، وہ ایک سوالیہ نشان تھے—”کہاں چھپے ہو؟” دوسری اور تیسری رات وہی اہداف مٹائے گئے۔ اور چوتھی رات؟ چوتھی رات ایران کی حکمت نے ضرب لگائی. حائفہ کی ریفائنری: اسرائیلی فضائیہ کی سانس تھی—ختم ہوئی۔ تل ابیب کا موساد ہیڈکوارٹر: وہ دماغ جس نے مشرق میں زخم بانٹے—اب اپنے زخم چاٹتا ہے۔ یونٹ 8200: خاموش سننے والی وہ آنکھیں، اب ہمیشہ کے لیے بند ہو چکی ہیں۔ ایران نے محض میزائل نہیں پھینکے، شطرنج کے ماہر کی مانند ہر مہرہ درست وقت پر چلایا۔ اسرائیلی شہروں میں ہر آہٹ، ہر چیخ، ہر اندھیری رات—گویا مغرب کے غرور کا جنازہ ہے۔ زیرزمین شیلٹرز جو کبھی تحفظ کا استعارہ تھے، اب قبروں کی طرح تنگ اور گھٹن زدہ ہو چکے ہیں۔ گیس، بجلی اور پانی کی بندش نے اس قوم کو آئینے میں خود کا چہرہ دکھا دیا ہے.

صدر ٹرمپ، جو جی 7 سمٹ کے لیے کینیڈا میں تھے، جب اسرائیل کی آدھی عسکری صلاحیت خاک میں ملی تو ان کی پرواز کا رخ بدلا گیا۔ دورانِ پرواز ہی ایک ٹوئٹ جاری ہوئی: “تہران خالی کرو، ورنہ ہم آگ لگا دیں گے” یہ ایک صدر کا بیان نہیں تھا، کسی گلی کے بدمعاش کی بڑھک تھی۔ جب انہیں یاد دلایا گیا کہ تلسی گابرڈ نے رپورٹ دی ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا، تو وہ جھنجھلا اٹھے: “مجھے کوئی پروا نہیں، میں کہتا ہوں وہ بنا رہا ہے تو بنا رہا ہے!” ایسا بیان شاید واشنگٹن کے آئینے میں صدیوں تک ہنستا رہے گا. میگا MAGA کی حیرانی، ایلان مسک، ٹکر کارلسن، اور تلسی گابرڈ—وہ لوگ جو “امن کی تحریک” میں شامل ہوئے تھے، اب جنگ کے شور میں گم ہیں۔ مسک: “زمین جہنم بن جائے تو مریخ پر کس کا راج ہوگا؟” ٹکر: “یہ وہ ٹرمپ نہیں جسے ہم نے منتخب کیا تھا۔” تلسی: “ہمیں وعدہ امن کا ملا تھا، اور ہاتھ میں بارود کی راکھ آئی۔”

نیتن یاہو تنہائی کا ناخدا، اقوامِ متحدہ سے لے کر ریاض تک، سب در بند ہیں۔ نیتن یاہو کے پاس فقط فریاد باقی ہے. جب پانی سر سے گزر جائے، تو ناخدا بھی بیکار ہوتے ہیں۔ جنگ میں وہی فاتح ہوتا ہے جو وقت کو پڑھ سکے۔ حکمت کے وارث علی خامنہ ای نے سویلین اہداف پر حملے سے منع کیا۔ یہ جنگ نہیں تھی، تہذیبی پیغام تھا: “ہم بےخوف ہیں، مگر بےخرد نہیں۔” جب ایران نے جنوبی لبنان اور گولان ہائٹس میں اسرائیلی تنصیبات کو نشانہ بنایا، تو اسرائیل کی پشت پر ایک اور محاذ کھل چکا تھا۔ اب اسرائیل کو صرف میزائلوں سے نہیں، حزب اللہ کی یلغار سے بھی ڈرنا ہے۔

julia rana solicitors

جب ایئر فورس ون واشنگٹن پہنچی تو صدر ٹرمپ کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا: “مجھے ایرانیوں سے ملواؤ… فوراً!” یہ جملہ نہیں تھا، ایک مغلوب سپرپاور کا اعتراف تھا۔ جب تاریخ لکھی جائے گی تو ایک سطر ضرور لکھی جائے گی: “وہ دن جب مشرق بول اٹھا اور مغرب سُن پڑ گیا؛ جب تہران کی خامشی، واشنگٹن کی چیخ پر غالب آئی؛ جب تلوار نے نہیں، تدبیر نے فتح پائی۔” یہ جنگ نہ صرف عسکری تھی، یہ تہذیبوں کی جنگ تھی۔ اور اس جنگ میں غالب وہی آیا… جس نے وقت کے سینے پر صبر کی تلوار سے حرفِ حق کندہ کیا۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply