چند دنوں سے یہ خبر گردش میں ہے کہ وفاقی ادبی و علمی اداروں ،جیسےاکادمی ادبیات،پاکستان اور اقبال اکادمی کو ادارہ فروغ قومی زبان میں ضم کر دیاجائے گا ۔
اردو سائنس بورڈ اور اردو لغت بورڈ پہلے ہی ، اس ادارے میں ضم ہیں۔ پھر ادارہ فروغ قومی زبان کو کسی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سپر د کردیا جائے گا۔ اگر متعلقہ یونیورسٹی نے ،اسے قبول نہ کیا تو پھر اسے ختم کردیا جائے گا۔
پہلے تو اس سارے خیال پر قہقہہ لگاناچاہیے۔ وہی قہقہہ جو اس وقت لگایا جاتا ہے، جب ہم کسی چھوٹی سی ذہانت کے پیچھے، بڑی سی حماقت کو دیکھ لیتے ہیں،اور اس حماقت کے مزید پیچھے، تخیل کی مفلسی کو بھی پہچان لیتے ہیں۔
بھئی، جس طرح آپ ان اداروں سے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں، اس طرح تو کوئی ترک وطن کرنے والا اپنے گھر کا سامان بھی نہیں بیچتا۔ آپ ایک گٹھری باندھ کر،اسے گویا ایک پڑوسی ،جس کے گھر میں پہلے ہی جگہ نہیں ہے اور جس سے اپنا ہی گھر ڈھنگ سے نہیں چلایا جارہا، اسے فی سبیل اللہ دینا چاہتے ہیں، اگرو ہ معذوری ظاہر کرے تو اسے دریادبرد کرنا چاہتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ یہ سارا منصوبہ نیا نہیں ہے۔ اصلاح اور سادگی کے نام پر گزشتہ دودہائیوں سے، ان اداروں کو باہم ضم کرنے یا ختم کرنے کی تجاویز دی جارہی ہیں، جو کماتے نہیں ہیں۔ نیو لبرل معاشی نظام میں ایسے اداروں کی جگہ نہیں ہے۔ یہ منطق سمجھ میں آتی ہے کہ ہر شخص اور ہر ادارے کو’’ کمانا ‘‘چاہیے۔ لیکن’’کمانے ‘‘ سے مراد صرف دولت لینا،ذہن کی مفلسی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
عزت، آبرو، امتیاز، عظمت، علم، جمال، اقدار، تصورات ، کلامیے، مباحث، نظریات،ثقافت،فن ، ادب، موسیقی ، رقص، یہاں تک کہ فرصت میں خاموشی سے تفکر….یہ سب بھی ’’کمائے ‘‘ جاتے ہیں ،اور سماج کی اتنی ہی ضرورت ہیں،جتنی روپیہ پیسہ، روٹی ، کپڑا اور مکان۔ نہ پیسہ آسمان سے نازل ہوتا ہے نہ یہ سب ۔ انھیں انسانی محنت سے ، انسانوں کی ذہنی وداخلی، جذباتی و فکری دنیا کے لیے کمایا جاتا ہے۔
سادہ سا سوال ہے، یہ بات ہماری حکومتوں کو کیوں سمجھ میں نہیں آتی ؟ اس کے جواب سے پہلے ، میں ایک ذاتی تجربہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ جن دنوں(۲۰۱۶ء تا ۲۰۱۹ء) میں ارود سائنس بورڈ کا سربراہ تھا، ان دنوں اردو سائنس بورڈ اور اردو لغت بورڈ کو ادارہ فروغ قومی زبان میں ضم کرنے کی تجویز نے ایک بار پھر سر اٹھایا تھا۔ ان دنوں اصلاح وسادگی کی کمیٹی عشرت حسین کی سربراہی میں کام کررہی تھی۔
مجھے اس کمیٹی کے اجلاس میں اس تجویز پر رائے دینے کی دعوت دی گئی تھی۔ میں نے اور اس وقت کے سیکرٹری قومی تاریخ و ادبی ورثہ ، انجنیئر عامر حسن نے مخالفت کی تھی۔ کچھ دنوں بعد نئے سیکرٹری ندیم شفیق ملک آئے تو اس وقت کے وزیر کے چہیتے تھے۔انھوں نے ترغیب، اصرار، دھمکی سب سے کام لیا کہ میں اس تجویز کے حق میں لکھ کر بھیج دوں۔ میں نے معذرت کی۔ میں یہ گناہ اپنے سر نہیں لینا چاہتا تھا۔
میں نے بھانپ لیا تھا کہ ایک مقصد اور بھی ہے۔ ارود سائنس بورڈ کی عمارت پر کچھ خاص لوگوں کی نظر تھی ،اور وہ اسے دیکھنے بھی آئے تھے۔ مجھے کہا گیا کہ میں بورڈ کے اصل ملکیتی کاغذ قومی تاریخ وادبی ورثہ کو ارسال کروں تاکہ اس کی نیلامی کی جاسکے۔ میں نے لکھ بھیجا کہ یہ عمارت اشفا ق احمد نے ، جب یہ ادارہ مرکزی اردو بورڈ کہلاتا تھااور خو دمختار تھا، بورڈ ہی کی آمدنی سے خریدی تھی ،ا س لیے یہ سرکاری جائیداد کی ذیل میں نہیں آتی۔ اصل کاغذات کے بجائے، تصدیق شدہ نقول بھیجیں۔ مجھے کس ذہنی اذیت میں مبتلا رکھا گیا ،یہ الگ کہانی ہے، مگر ارود سائنس بورڈ میرے واپس آنے تک ،ضم ہونے سے بچا رہا۔
مجھے لگتا ہے کہ اب کچھ خاص لوگوں کی نگاہ ، اکادمی ادبیات، اقبال اکادمی اور ادارہ فروغ قومی زبان کی عمارات پر ہے۔
یہ کہ اداروں کو پیسے کے علاوہ کچھ چیزوں کو کمانا چاہیے، ہماری حکومتوں کو کیوں سمجھ نہیں آتی؟ اس کے جواب میں کئی باتیں عرض کی جاسکتی ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہماری حکومتیں ، فرانسیسی مفکر التھیوسے کے مطابق دو طرح کے اداروں پر انحصار کرتی ہیں۔ جبری ریاستی ادارے (Repressive State Apparatus) اور نظریاتی ریاستی ادارے (Ideological State Apparatus)۔
پہلی قسم کے اداروں کے پاس بندوق، بارود، لاٹھی، قانون، جیل کی طاقت ہوتی ہے۔دوسری قسم کے ادارے ریاست کے نظریات کی حفاظت اور ترویج کرتے ہیں ، یعنی تعلیم، نصابات، مسجد ،مدرسہ، میڈیا۔( سوشل میڈیا چوں کہ متبادل کے طور پر سامنے آتا ہے، ا س لیے حکومتوں کو کھَلتا ہے)۔
یہ دونوں قسم کے ادارے ایک ہی کام ، دوالگ طریقوں سے کرتے ہیں۔ ایک جسم کو دوسرے ذہن کو قابو میں رکھتے ہیں۔ ایک سماج میں اگر یہی دو ادارے ہوں تو وہ سماج بہ ظاہر ’’پرامن اور ہر قسم کی مزاحمت ،سوال سے محفوظ ‘‘ ہوگا ،یعنی اسے کوئی ’’اندرونی خطرہ ‘‘ نہیں ہوگا۔
لیکن ہر وہ سماج مردہ ہے، جہاں اصلی اور قانون کی لاٹھی اور نظریے کی چھڑی ہو، مگر سوال ، مزاحمت ، متبادل کی گنجائش موجود نہ ہو، یعنی جس میں کچھ سرپھرے افراد اورایسے ادارے موجود نہ ہوں،جنھیں ’’بیانیاتی ، علامتی ، جمالیاتی ،ثقافتی ادارے ‘‘ (Discursive, Symbolic, Aesthetics, Cultural Apparatuses) کہا جاسکتا ہے۔ یہ ادارے سماج کے لیے وہ سب ’’کماتے ‘‘ہیں،جس کا ذکر اوپر ہوا ہے،یعنی خیالات ،معانی ، اقدار، تصورات ، مباحثے ، کلامیے وغیرہ۔
بجا کہ سرکاری علمی وا دبی ادارے سرکار کی نظریاتی اجارہ داری(Ideological Hegemony) کے کام آسکتے ہیں اور کچھ صورتوں میں آتے بھی ہیں، اس کے باوجود وہاں ، ایک آزاد فضا ، ادب وفن کے سبب ضرور پیدا ہوجایا کرتی ہے۔
ان اداروں کوبلاشبہ مسلسل اصلاح کی ضرورت رہتی ہے، مگر انھیں سرے سے ختم کردینے کاایک ہی مطلب ہے کہ آپ صرف جبری اور نظریاتی بنیادوں پر سماج پر حکمر انی چاہتے ہیں۔ہر متبادل کی بیخ کنی چاہتے ہیں۔
اگر آج ان داروں کو ختم کرنے کی نام نہاد منطق قبول کر لی گئی تو کل اس کا نشانہ تمام آرٹس کونسلیں، سرکاری جامعات بھی بنیں گی۔ان کی بھی گٹھڑی باندھی جائے گی۔
یہ کہنا کہ یہ ادارے محض اشاعتی ادارے ہیں،اور ایک جیسی کتابیں شائع کررہے ہیں،اس لیے انھیں بند کردیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا، سادہ لوحی ہے۔پہلی بات یہ کہ یہ محض جزوی طور پر درست ہے۔دوسری بات یہ کہ کتابیں شائع کرنا کوئی معمولی بات ہے؟ ہمارے ملک میں ہر سال چند ہزار کتب شائع ہوتی ہیں، انھیں لاکھوں تک پہنچنا چاہیے،۔کتب کی اشاعت کے مزید ادارے ہونے چاہییں ۔ کیا تمام نجی اشاعتی ادارے ایک جیسی کتب نہیں شائع کرتے ؟ انھیں بھی ایک بڑی نجی فرم میں ضم ہونے کی ترغیب کیوں نہ دی جائے؟
آپ ان اداروں کو اپنے اپنے مینڈیٹ کی پابندی پر ضرور مجبور کیجیے،اور جہاں ضرورت ہو،اسے تبدیل بھی کیجیے۔ تاہم یہ سمجھنا تو حماقت ہے کہ یہ محض اشاعتی ادارے ہیں۔ یہ سماج کی متبادل ، جمالیاتی ، علامتی جگہیں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی مخصوص علمی وادبی بوباس، فضا ہے ،اور یہاں موجود درختوں سے لے کر کتب خانوں ، دیواروں پر آویزاں تصویروں ، کچھ نادر ونایاب چیزوں کی گہری معنویت ہے۔
اسے محسوس کرنے کے لیے تخلیق علم وفن کے بس ذراسے ذوق کی ضرورت ہے۔
انھیں بہتر بنائیں، ان کے خاتمے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔
عرفان صدیقی صاحب، تری آواز مکے اور مدینے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں