صدر ٹرمپ تو گلی کا غنڈہ ثابت ہوا ہے۔ ٹرمپ نے جس طرح کی زبان اس جنگ کے دوران مختلف بیانات میں استعمال کی، ڈپلومیسی کی دنیا میں شاید ایسی زبان ٹرمپ کے علاوہ کسی نے استعمال کی ہو۔ سفارتی دنیا میں ہمیشہ نپے تلے انداز میں دھمکی دی جاتی ہے۔ گفتگو میں سلیقہ مند ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ٹرمپ کے اس غیر سنجیدہ اور حقارت آمیز لہجے سے دنیا بھر میں امریکہ کے سنجیدہ حامیوں اور دوستوں کو بڑی تشویش لاحق ہوئی ہے۔
ٹرمپ کا لہجہ ، اس کے فیصلے ، اس کا کردار ، دوست ممالک سے اس کا رویہ ، دشمنوں کے ساتھ سلوک سب کچھ ایک عجیب اور پُراسرار حیرتوں کی مختلف پرتوں میں چھپا ہوا ہے۔ آپ جہاں یہ توقع کریں گے کہ ٹرمپ کوئی کام کی بات کرے گا اس کا رویہ مایوس کن دکھائی گا۔
یہاں تک کہ اپنے دوستوں کو بھی معاف نہیں کیا۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ امریکہ روس یوکرین جنگ میں یوکرین کی حمایت میں کس قدر واضح ہو کر سامنے آیا تھا اور پھر خود یوکرین میں کس طرح کی قانون سازی بھی کروائی گئی۔ امداد فراہم کی گئی اور بھی بہت سارے ساز و سامان سے نوازا گیا لیکن پھر اسی یوکرین کے صدر کو وائٹ ہاؤس بلا کر بے عزت کیا گیا۔ یوں کہیں کہ دھکے مارے گئے تو بے جا نہ ہو گا۔
اب جب کہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا اور اس کا کوئی جواز نہ تھا۔ امریکہ یہ جنگ بندی کروا کے ہیرو بن سکتا تھا اور ہے۔ لیکن اس نے غلط راستے کا انتخاب کیا۔ اس نے جنگ بھڑکانے کے لیے خوب ایندھن مہیا کیا۔ ایک دن بیان دیتا ہے کہ “جنگ بندی ہونی چاہیے اور امریکہ اس جنگ میں شامل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتا” تو دوسرے وقت میں پھر بیان داغ دیتا ہے کہ “ایران کی تسلی ضروری ہے” اور مشرقِ وسطیٰ میں بنائے گئے اپنے فوجی اڈوں پر فوجی نقل و حرکت کو بڑھا دیتا ہے۔ جہازوں کی آمد و رفت بڑھ جاتی ہے۔ سمندر میں بحری بیڑے حرکت میں آ جاتے ہیں۔ میڈیا مختلف طریقوں سے ایک ایسا ماحول بنانے میں مصروف ہو جاتا ہے کہ جیسے ابھی عالمی جنگ شروع ہو جائے گی”۔ اور اب کہا کہ “ایران غیر مشروط طور پر سرنڈر کر دے”.
اس وقت جنگ بندی ہو جائے اور عالمی جنگ کے بڑھتے خدشات ختم بھی ہو جائیں تو پھر بھی امریکہ کو ٹرمپ کے بیانات سے جو سفارتی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ نہایت مہنگا نقصان ہو گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں