حصارِ وجود/ڈاکٹر اظہر وحید

انسان اپنے وجود کے حصار میں مقید ہے۔ وہ اس قید سے رہائی چاہتا ہے۔ اس کے لیے نت نئے طریقے سیکھتا ہے، نئے نئے کلیے ایجاد کرتا ہے، مراقبوں اور ورد وظیفوں کی ڈکشنریاں مرتب کرتا ہے، ان کی اشاعت و تبلیغ کرتا ہے، لیکن اپنے وجود کے حصار سے نکل نہیں پاتا۔ اک طرفہ تماشا ہے کہ اس کی تمنا میں رہائی ہے اور تقدیر میں قید۔ اس کی تمنا اور تقدیر میں کہیں صلح نہیں ہو پاتی۔ اس کی تقدیر تمنا کے تابع ہے، نہ اس کی تمنا ہی اس کی تقدیر کے زیرِ فرمان ہے۔ بس ایک تسلیم ہے، دل سے تسلیم … اس کے وجود کا سجدہِ تسلیم ہے جو اس کو تقدیر کے جبر سے آزادی دلانے کی کوئی سبیل مہیا کرتا ہے۔ تسلیم شاید اپنی تمنا سے برضا و خوشی دست بردار ہونے کا نام ہے … اپنے اختیار کے منصب سے مستعفی ہونے کے لیے بقلم خود استعفیٰ لکھنے کا نام ہے۔
ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے انسان کے وجود کے گرد ایک طاقتور فصیل قائم کر دی گئی، جس پر دولت، شہرت اور لذت کے بلند و بالا تکونی برج قائم ہیں۔ جب کوئی ذی نفس اپنے وجود کے حصار سے باہر نکلنے کی تدبیر کرتا ہے، ان تینوں برجیوں میں سے کوئی سنتری نکلتا ہے اور اسے واپس اس کے قید خانے میں دھکیل دیتا ہے۔ یہ سنتری بظاہر وجودی قلعے کے محافظ نظر آتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ حاکم ہیں … کسی سلطان کے مقرر کیے ہوئے حاکم، داروغہ۔ ان کا فرضِ منصبی ہی یہ ہے کہ کوئی ذی نفس اپنی مرضی سے اس حصارِ وجود سے باہر نکلنے نہ پائے۔ کبھی تو یہ اپنے قیدی کو بہلا پھسلا کر اور کبھی بالجبر سنگینوں کی نوک پر واپس اسے اس کے بندی خانے میں جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
انسان اپنے وجود کے حصار سے رہائی تو چاہتا ہے … لیکن کچھ دیر کے بعد … وہ چاہتا ہے کہ اسے ابھی یہاں کچھ دیر مزید قیام مل جائے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی قیدی کو رہائی کا اذن مل جائے لیکن وہ قیدی کھانے کے انتظار میں بیٹھ رہے
اور اسی اثنا اس کی رہائی کی روبکار منسوخ ہو جائے۔ تھوڑی سی مزید دولت، کچھ مزید شہرت اور کچھ دیر کے لیے لذتِ مزید … اس کی رہائی کی راہ میں سد راہ ہیں۔ اپنے وجود کے حصار سے رہائی کا متلاشی یہ بھول جاتا ہے کہ رہائی کا پہلا پروانہ ترکِ خواہش ہے … اور وہ یہی ایک شرط پوری نہیں کر پا رہا۔ جب اسے خبر ملتی ہے کہ خواہش کو ترک کرنے سے رہائی کی راہداری میسر آ سکتی ہے تو وہ اس خبر پر دل سے یقین نہیں کرتا … وہ لفظوں میں خواہش ترک کرتا ہے، عملاً ترک نہیں کرتا۔ جب کبھی وہ اعلان کرتا ہے کہ لیجئے میں نے اب خواہش چھوڑ دی ہے، اس وقت بھی وہ خواہش ترک نہیں کرتا بلکہ وہ خواہش کو ملتوی کرتا ہے۔ خواہش ترک کرنے میں اور خواہش ملتوی کرنے میں فرق ہے۔
دولت، شہرت اور لذت … ان میں سے ہر خواہش انسان کے لیے یکساں درجے کی رکاوٹ ہے۔ سیدِ ہجویرؒ کشف المحجوب میں قلم فرسا ہیں: ’’کوئی غفلت کسی غفلت سے بہتر نہیں ہوتی‘‘ اپنے مزاج، کلیہَ تشکیل، عناصرِ خمیر اور افتادِ طبع کے اعتبار سے ہر کسی کی رکاوٹ الگ الگ ہے۔ کسی کے لیے دولت کی لپک مہلک ہے، کسی کے لیے شہرت کی لٹک روح فرسا ہے اور کسی کے لیے لذتِ وجود جان لیوا ہے۔ مراد یہ ہے کہ ہر قیدی کو جکڑنے کا جال الگ ہے۔
اس جانگسل قید سے نکلنا چنداں آسان نہیں۔ اس میں کوشش عام طور پر کارگر نہیں ہوتی۔ کوشش بس ایک دستک ہے … اپنے اخلاص کو بطور گواہ پیش کرنے کی اپنی سی کوشش ہے۔ کوشش کرنے والا اگر اپنی کوشش کے بل بوتے پر لذتِ وجود پر فتح بھی پا لے تو شہرت کی کھائی میں گر جاتا ہے۔ اگر دولت کی حرص سے اپنا دامن بچا لے تو خود نمائی کی کیٹ واک میں جا شامل ہوتا ہے۔ خود نمائی شہرت ہی کا ابتدائیہ ہے۔ دولت اور شہرت دونوں سے رہائی لازم نہیں کہ لذتِ کام و دہن سے بھی خلاصی کا پروانہ ثابت ہو۔
حصارِ وجود سے رہائی کوشش سے نہیں، سفارش سے ملتی ہے۔ جو ذی نفس پہلے سے رہا شدہ ہے، وہ کسی کی رہائی کا بندو بست کر سکتا ہے، وگرنہ ایک قیدی کسی دوسرے قیدی کی کیا مدد کر سکتا ہے۔ روحانی سفارش کو شفاعت کہتے ہیں … اور شفاعت دونوں جہانوں میں کارگر ہے۔
یہاں روح ہے جس نے وجود کی فصیلوں سے آزاد ہونا ہے، اس لیے یہاں روحانی سفارش ہی درکار ہے … یہاں شفاعت ہی کارگر ہو سکتی ہے۔ روح آزاد فضاؤں کا پنچھی ہے۔ زمان و مکاں کی فصیلوں کے اندر اس کا دم گھٹتا ہے۔ یہاں زمین پر رینگنے والے وجود کے ساتھ یہ اس قدر مانوس ہو چکی ہے کہ اپنا وظیفہِ حیات بھول گئی ہے۔ روح طائرِ قدس ہے، اس کا مکاں سرِ لامکاں ہے … اس کا وظیفہِ حیات لامکاں کی سیر ہے۔ جسم کا طواف اگر خانہ کعبہ کے گرد ہے تو روح کا طواف بیت المعمور کی اور!
اس جہان میں انسان پر سب سے بڑا انعام یہ ہوتا ہے کہ اسے حصارِ وجود سے آزاد کر دیا جائے۔ یہ طے شدہ ہے کہ ایک آزاد شخص ہی غلام کو غلامی سے رہائی دلوا سکتا ہے۔ ایسے ہی آزاد انسان انعام یافتگان کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ اس گروہِ سلاطین میں شامل ہیں جن کی مدد کے بغیر اقطار السمٰوات و الارض سے نکلنا محال ہے۔ یہ سلاطینِِ وقت … سطانِ زمانہ کے ماتحت ہیں۔ جب سلطاناً انصیرا کا اذن شاملِ حال ہو جائے تو وہ اپنے چاہنے والے کے نام رہائی کا پروانہ جاری کر دیتے ہیں۔ ان کی غلامی آزادی کا پروانہ ہے۔ جو ان کی غلامی میں آ جائے وہ حصارِ وجود سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ وجود کی قید فنا ہے، اور اس سے رہائی سندیسہِ بقا۔ حصارِ وجود میں قید فنا کے گھاٹ اترنے والے … آزاد ملکِ بقا کے سفیر ہیں۔
فنا زیرِ قدم، اُن کی بقا پر حکمرانی ہے
محمدؐ کے غلاموں تک کی ہستی جاودانی ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply