• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی مسیحی اور پی ایس پی (پولیس سروس آف پاکستان )قسط 3- اعظم معراج

پاکستانی مسیحی اور پی ایس پی (پولیس سروس آف پاکستان )قسط 3- اعظم معراج

قیام پاکستان سے پہلے آئی سی ایس کے زمانے سے پاکستان کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے والوں کی فہرست میں سول سروسز کا امتحان پاس کرکے کسی مسیحی پوليس افسر کے شواہد نہیں ملتے ۔ 1956 میں دو مسیحی دوستوں نے سی ایس پی کا امتحان پاس کیا اور انھوں نے اوپن میرٹ پر پوليس سروس آف پاکستان میں شمولیت اختیار کی ۔ان میں سے ایک تھے سابقہ آئی جی بلوچستان و سندھ دلشاد نجم الدین اور دوسرے تھے، سرفراز شادی خان جو بطور ایس پی ہی ریٹائرڈ ہو گئے۔انکا تعلق گجرانوالہ سے تھا۔ انکے والد کا نام مہنگا مسیح تھا۔ وہ شاعر بھی تھے، اور سنا ہے،بہت ہی باغ وبہار طبیعت کے انسان تھے۔ گجرانوالہ کے پرانے رہائشی چوہدری سجاد پنوں کے مطابق گجرانوالہ تھیالوجگل سمینری ان مہنگا صاحب کا گھر تھا۔اور یہ گھر چھ کنال پر محیط تھا۔۔جبکہ چوہدری پنوں کے کزن لندن میں مقیم صحافی، نعیم واعظ صاحب کے مطابق انکی زندگی کے آخری ایام شیخوپورہ میں گزرے۔انکے بارے میں زیادہ تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔ میری دلشاد نجم الدین صاحب سے ٹیلیفونک یاد اللہ رہی ہے، لیکن نہ ان کی طرف سے ذکر ہوا ،نہ ہی مُجھے اس وقت تک اس کردار کے بارے میں پتہ تھا۔دلشاد نجم الدین صاحب کی وفات کے بعد انکے تیسرے دوست میجر جوشوا میرے رابطے میں آئے ۔ تحریک شناخت کے فلسفے کے بہت بڑے حمایتئ اکثر ان سے پرانے لاہوریوں مسیحیوں کی بابت بہت کچھ پتہ چلتا رہتا ہے۔۔ان سے مجھے سرفراز شادی خان کے بارے میں پتہ چلا ،جوشوا صاحب انکی بہت تعریف کرتے ہیں۔ کیا شاندار افسر تھا۔کیا سجاوٹ تھی۔۔ اپنے کورس میں میرٹ پر بہت اوپر تھا۔ لیکن پھر وہ انتخابی دکھ سے کہتے ہیں ۔اسکی جلدی ریٹائرمنٹ اور بیماری کی ذمہ دار صرف اور صرف ام الخبائث ہے ۔۔ اسکے بعد 1956 سے نہ 2010 سے پہلے نہ 2010 میں کوٹے کے بعد کوئی مسیحی پاکستان پوليس سروس آف پاکستان میں شامل ہوا ۔ جب 2020 میں حکومت پاکستان نے تقریباً 45 سال بعد صوبوں اور 2010 سے اقلیتوں کی بچی ہوئی کوٹے کی اسامیوں کے لئے اسپشل سی ایس ایس کا اعلان کیا تو تحریک شناخت نے اسکے لئے بھرپور آگاہی مہم چلائی جس میں مسیحی مذہبی سماجی ورکروں نے بھی خوب حصہ لیا جسکے نتیجے میں 104 کے قریب اقلیتی اسامیوں کے لئے 16 اقلیتی نوجوان ہی پاس ہوپائے جن میں صرف 7 مسیحی ہیں۔ یہ تعداد تاریخی طور پر بہت حوصلہ افزا لیکن دستیاب اسامیوں کے اعتبار سے انتہائی مایوس کن ہے۔ ان سات میں سے تین مسیحی فارن سروسز کے لئے سلیکٹ ہوئے ہیں۔ دو پاکستان ایڈمنسٹریٹر سروس کے لئے اور دو پولیس کے لئے سلیکٹ ہوئے ہیں ۔ ان میں سے ایک مسیحی خاتون،اورایک مرد امیدوار ہے۔ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں
1۔ افرا زاہد ( پاکستان پوليس سروس ) اس امتحان میں کل 489 امیدوار کامیاب قرار دیئے گئے ہیں۔جن میں افرا کا میرٹ نمبر 331 ہے۔۔انکا تعلق سرگودھا کے ایک متوسط طبقے کے مسیحی خاندان سے ہے  اور مسیحی نوجوانوں کے لئے افرا زاہد ایک ایسی قابل تقلید مثال ہے، جس طرح کی مثالیں پاکستانی مسیحیوں میں کم ہی ہونگی،امتحان دینے کے بعد وہ امریکہ تعلیم کے لئے چلی گئی تھیں۔۔ ایک ایسے ماحول میں جب زیادہ تر نوجوان خصوصاً اقلیتی نوجوان زیادہ سے زیادہ ہجرت کرنا چاہتے ہیں۔انھوں نے اپنے گھر والوں کی مشاورت اور حوصلہ افزائی سے واپس آ کر اپنے امتحان کے دیگر مرحلے طے کئے اور جلد ہی سول سروسز اکیڈمی جوائن کریں گی۔ امید ہے۔جب یہ یونی فارم پہنے گی یا جب یہ مضمون پبلک ہوگا تو یہ بہت سارے بالعموم اقلیتی اور خصوصاً مسیحی نوجوانوں کے لئے بطور پہلی مسیحی پوليس افسر ایک شاندار مثال ثابت ہونگی۔ جو بہت سارے اقلیتی نوجوان بچوں کے لئے انکے اجداد کی سرزمین پاکستان میں شان سے جینے کی راہیں ہموار کرے گی۔
2۔یوشوب کامران پی ایس پی انکا میرٹ نمبر 489 میں سے 431 ہے، یہ بھی باہر سے پڑھ کر آئے ہیں۔ اور یہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پی ایس پی بذریعہ سول سروسز جوائن کرنے والے چوتھے مسیحی ہونگے۔۔ ان دونوں نوجوان مسیحوں کے لئے جہاں دلشاد نجم الدین اور سرفراز شادی خان کی جانشینی ایک اعزاز ہے وہیں ایک بہت بڑا چیلنج بھی ہے کہ وہ اپنے کیریئر میں اپنے آپ کو دلشاد نجم الدین اور سرفراز شادی خان جیسے روشنی کے میناروں کے سچے جانشین ثابت کریں اور آنے والے دنوں میں خود بھی آنے والی نسلوں کے لئے مثال ثابت ہوں۔ اس لئے ان دونوں نوجوانوں کو بہت مبارک ہو اور مستقبل کی نیک خواہشات کے ساتھ ایک مختصر سی یاد دہانی بھی، آپکی محنت نے آپ کو اپنے حق کوٹہ کے ذریعے اس پروقار سروس میں شمولیت کا موقع دیا ہے۔ اس لئے جس طرح کوٹہ آپ کا آئینی حق تھا،جسکی بدولت آپکو یہ موقع ملا ہے اسی طرح اب آپ کا یہ اخلاقی فرض بھی ہے، آپ اپنے پیش رو کی طرح خوب محنت ،لگن سے دل لگا کر اپنے پیشہ ورانہ کیریئر میں خوب ترقی کریں ,اور ملک وقوم کے ساتھ, ساتھ اپنی کمیونٹی کا بھی نام روشن کریں۔ اسی طرح پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے نوجوان بچے بچیوں کو بھی مشورہ ہے،کہ اگر آپ یہ امتحان دینے کے اہلیت اور رحجان رکھتے ہیں, تو زیادہ سے زیادہ اس امتحان میں شامل ہوں کیونکہ اسپشل سی ایس ایس کے لیے 850 نوجوانوں نے حصہ لیا تب کہیں جاکر 104 اسامیوں کے لئے صرف 16 پاس ہوئے ہیں۔ ریگولر امتحان میں بھی اوسطا 15 آسامیاں ہر سال اقلیتوں کے لئے مخصوص ہوتی ہیں ۔ پھر بہت سے اقلیتی امیدواروں کو وہ سارے مواقع دستیاب ہیں جن کی بدولت انھیں بلکہ ہر اقلیتی نوجوان کو اوپن میرٹ میں مقابلے کی ذہنی کفیت کے ساتھ اس امتحان میں شامل ہونا چاہیئے۔ یہ تمام معلومات انتہائی مشقت اور عرق ریزی سے اکھٹی کرکے تحریک شناخت کے پیغام انضمام بذریعہ شناخت کو موٹر طریقے سے عوام الناس آور خصوصا مسیحیوں کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے زبان زد عام کرنے کی کوشش کے لئے کی گئی ہے۔اس کے کچھ حقائق شائد کسی فرد یا چند افراد کو ناگوار گزریں، لیکن یہ اجتماعی مفاد عامہ کے لئے بہت ضروری ہیں۔۔ کیونکہ سچ وقتی طور پر جلاتا ضرور ہے, لیکِن اسکا اصل تعارف روشنی ہی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply