چیٹ ونڈو… وہ کھیت جہاں لفظ اگتے بھی ہیں اور مرجھا بھی جاتے ہیں۔
“Read…”
یہ لفظ سیما کی سکرین پر ہر بار اس وقت چمکتا جب وہ جانتی تھی کہ میں نے پیغام پڑھ لیا ہے… مگر جواب نہیں دیا۔
اور میں؟ میں ہر بار سوچتا، “لکھوں یا موسم گزرنے دوں؟”
ہم دونوں کی گفتگو ایک چیٹ ونڈو میں پروان چڑھی، جیسے دو کسان ہوں مگر ان کا کھیت الفاظ تھے، اور موسم وہ فاصلہ جو ان کے درمیان حائل تھا-
“کیا تم کبھی کسی کو اتنا یاد کرتے ہو کہ پورے دن کے نوٹیفیکیشنز بے معنی لگیں؟”
سیما نے ایک بار پوچھا۔
میں نے دیر سے جواب دیا:
“یادیں وہ پودے ہیں جو آن لائن موسموں میں نہیں اگتے۔ یہاں صرف مجازی بیج ہوتے ہیں، پانی نہیں، مٹی نہیں۔”
سیما نے لکھا:
“تم کہانیوں کی طرح ہو، پڑھ بھی لوں تو مکمل سمجھ نہیں آتی۔”
میں نے سوچا، شاید وہ صحیح کہتی ہے۔ میں واقعتاً ایک ایسا فرد ہوں جو خود کو جزوی ظاہر کرتا ہے، جیسے کسی خالی پروفائل پر صرف ڈی پی ہو اور بایو غائب۔
ہماری گفتگو اکثر فلسفیانہ ہو جایا کرتی تھی۔
سیما: “کبھی لگتا ہے ہم چیٹ نہیں، صرف خود سے جھوٹ بولتے ہیں؟”
میں: “ہاں، جیسے کوئی AI خود سے بات کرے اور سمجھے کہ وہ سنا گیا ہے-”
یہی لمحے تھے جب مجھے اس پر افسوس ہوتا جسے ہم ‘مواصلات’ کہتے ہیں۔ ایک لفظ، دو ڈیجیٹل دل، اور بیچ میں وہ خاموشی جسے ہم “typing…” کے نیلے نقطوں سے ناپتے ہیں۔
سیما کا کہنا تھا:
“تمہاری خاموشی بھی ایک فقرہ ہے، بس میں اس کا ترجمہ نہیں کر پاتی۔”
میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی:
“تمہارے ہر پیغام میں بارش کی امید ہوتی ہے، مگر میری اسکرین پر اکثر قحط ہوتا ہے۔”
وہ ہنسی، لیکن صرف ایموجی کی حد تک۔
“میں فصلوں جیسی لڑکی ہوں… اگر جذبات نہ دو تو مرجھا جاتی ہوں۔”
اس کا جملہ میرے دل کے اندر کھیتوں کی سی گونج پیدا کر گیا۔ شاید ہم سب فصلیں ہیں، کوئی بارانی، کوئی خودکار سسٹم پر۔
ایک دن سیما نے لکھا:
“تمہیں اندازہ ہے؟ میں روز تمہارے ‘last seen’ سے اندازہ لگاتی ہوں کہ تم ٹھیک ہو یا پھر کہیں کھو گئے ہو۔”
میں نے پہلی بار کچھ طویل لکھنے کی کوشش کی:
“زندگی واقعی کسی فصل کی مانند ہے۔ کچھ لمحے بو دیتے ہیں، کچھ کاٹتے ہیں، اور کچھ یادیں صرف پرانے کھیتوں کی مٹی میں دفن رہ جاتی ہیں۔”
اک روز سیما نے آخری پیغام لکھا:
“تو پھر، آؤ کسی دن آن لائن نہ آئیں۔ بلکہ اسکرین سے نکل کر زمین پر کہیں ملیں۔”
میں نے کئی راتیں اس خیال میں جاگ کر گزار دیں کہ سیما سے ملوں گا تو کیا کہوں گا؟ وہ مجھے دیکھ کر کیا سوچے گی… اسی انتظار میں ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدل گئے مگر پھر کبھی سیما چیٹ ونڈو سے نہ جھانکی-

میں آج بھی سائن اِن ہوتا ہوں۔ اس لیے نہیں کہ جواب دینا ہے،
بلکہ صرف یہ دیکھنے کو کہ شاید وہ اب بھی “online” ہو۔
اور اگر ہو،
تو شاید ہم دوبارہ کسی فصل پر بات کریں…
نہ لفظوں میں،
نہ نوٹیفیکیشنز میں۔۔۔
بلکہ کسی ایسے لمحے میں جو کبھی delete نہ ہو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں