فرانسیسی ادیب اور سامراجی جنگ و قبضہ/عامر حسینی

فرانس میں جب جرمن نازی افواج نے قبضہ کرلیا تب فرانس کے بورژوازی/سرمایہ دار اور پیٹی بورژوازی/درمیانے سرمایہ دار طبقات سے تعلق رکھنے والے پریس نے “سنسر شپ” کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ ان دونوں طبقات سے تعلق رکھنے والے اکثر ادیبوں نے “نازی ازم” کے خلاف عوامی مزاحمت کا ذکر اپنے “ادب” سے خارج کردیا اور وہ ادب تخلیق کرنا جاری رکھا جو نازی قبضہ گیر قوتوں کے نزدیک “بے ضرر” تھا۔

اس دوران فرانسیسی ادب میں ایک اور رجحان تیزی سے ابھرا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ فرانسیسی ادبی منظر نامے پر چھا گیا۔ یہ رجحان “ایبسرڈ ادب اور تھیڑ” کا تھا جس کے سب سے بڑے علمبردار البیغ کامیو اور سامیول بیکٹ تھے۔ انھوں نے دوسری عالمی جنگ سے انسانیت پسندی سے جڑی سب اقدار کو بے معنی قرار دے دیا۔ ادب میں یاسیت، قنوطیت اور لایعنیت کو ہی سب سے بڑی اقدار قرار دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اب تبدیلی کی کوئی بھی راہ باقی نہیں بچی۔ بے عملی اور لاتعلقی ہی واحد راستا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ بھی “نازی ازم” کے آگے ہتھیار ڈال دینے کا راستا تھا۔

ایسے میں یہ ژاں پال سارتر جیسے ادیب تھے جنھوں نے اولین دونوں ادبی رجحانات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور نازی ازم کے خلاف فرانس میں جو مزاحتمی قوتیں سرگرم تھیں ان کی کھل کر حمایت کی۔ سخت سنسر شپ کے زمانے میں ژاں پال سارتر سمیت کئی ایک ادیبوں نے “سیاسی عوامی مزاحتمی تھیڑ ڈرامے” کی روایت کو زندہ کیا اور اسٹیج پر ایسے ڈرامے سامنے آئے جو نازی ازم کی سخت سنسر شپ سے بھی بچ نکلتے تھے۔ اس زمانے میں فرانسیسی ادیبوں نے خفیہ عوامی مزاحتمی تھیڑ بھی تشکیل دیے۔ سارتر جیسے ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں نے عوام کے اندر نازی ازم کے خلاف لڑائی لڑنے کا حوصلہ پیدا کیا اور ایک نئی روح مزاحمت ان میں پھونک دی۔ صرف چار سالوں میں فرانس سے نازی قبضے کا خاتمہ ہوگیا۔

پچاس کی دہائی میں عوامی ادب و تھیڑ کو پھر ایک اور طرح کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ فرانس میں سامراجی بورژوازی اقتدار کی بحالی کے ساتھ ہی فرانس کے زیر قبضہ ممالک میں فرانسیسی نوآبادیاتی قبضے کے خلاف قومی آزادی کی تحریکوں نے سر اٹھایا اور خاص طور پر الجزائر میں نیشنل لبریشن فرنٹ کے جھنڈے تلے فرانسیسی نوآبادیاتی سامراج کے خلاف بھرپور سیاسی اور مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا۔

اس مرحلے پر جہاں فرانسیسی سامراجی سرمایہ دار حکومت کا سرکاری پریس اور اس کے سرمایہ دار حامی نجی پریس نے الجزائر کی عوام کی قومی آزادی کی تحریک کو “دہشت گرد، تخریب کار، وحشی و بربریت” کے مترادف ٹھہرایا اور فرانس میں رہنے والے افریقی عرب نژاد باشندوں کے خلاف زبردست نسل پرستی کا ظہور ہوا تو ساتھ ہی کمیونسٹ پارٹی آف فرانس نے بھی نیشنل لبریشن فرنٹ کی طرف سے جاری مسلح جدوجہد اور اس دوران سفید فام سویلین باشندوں کے خلاف تشدد کے واقعات سامنے آنے کو آڑ بناتے ہوئے اس تحریک کی اعلانیہ حمایت سے گریز کرنے لگی اور ایسے بائیں بازو کے فرانسیسی حلقے سامنے آئے جو الجزائر کی قومی تحریک آزادی کو “رجعت پسند” اور قبیل داری دور میں واپس لیجانے والی تحریک بتا رہے تھے۔

اس زمانے میں بھی یہ سارتر تھا جس نے الجزائر کی قومی آزادی کی تحریک کے حق میں زبردست آواز اٹھائی۔ فرانس میں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد کو الجزائر کی قومی آزادی کی تحریک کا حامی بنا دیا۔ سارتر اور ان جیسے دیگر ادیبوں اور دانشوروں پر دائیں بازو نے زبردست دباو ڈالا۔ ان کی کردار کشی کی گئی۔ لیکن فرانسیسی سماج میں الجزائر کی قومی آزادی کی تحریک کے لیے عوامی حمایت بڑھتی چلی گئی۔ سرکاری نسل پرست بیانیہ بری طرح سے غیر مقبول ہوتا چلا گیا۔ دوسری جانب خود الجزائر میں نیشنل لبریشن فرنٹ کی جدوجہد کو عوام کی زبردست حمایت ملتی چلی گئی۔ فرانسیسی فوج اور اس کے بنائے گئے نسل پرست ڈیتھ اسکواڈ مزاحمت کے سامنے کھڑے نہ رہ سکے تو فرانس میں جنرل ڈیگال نے جنگ بندی کرکے الجزائر کی آزادی کو تسلیم کرلیا۔

ساٹھ کی دہائی میں سارتر اور ان کے ہم خیال ادیبوں اور دانشوروں کو پوسٹ الجزائر جنگ کے ماحول میں ایک نئے چیلنج کا سامنا ہوا۔ ایک طرف تو الجزائر میں شکست خوردہ فرانسیسی افواج اور اس کے ڈیتھ اسکواڈ گروپوں نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیا۔ الجزائری عورتوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر ریپ کے واقعات رونما ہوئے۔ دوسری طرف خود فرانس میں دائیں بازو کے نسل پرست مسلح جتھوں اور ہجوم نے فرانس میں رہنے والے افریقی عرب سیاہ فام باشندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کاروائیاں شروع کردیں۔ نسلی فسادات پھوٹ پڑے اور ان میں افریقی عرب سیاہ فام باشندوں کی آبادیوں پر mob attack ہوئے۔ بڑے پیمانے پر قتل اور ریپ کے واقعات رونما ہوئے۔ اس زمانے میں فرانسیسی پریس کا رویہ بھی سخت متعصبانہ، نسل پرستانہ اور اشتعال انگیز تھا۔ کئی ادیب، دانشور، شاعر “فرانس پرستی اور حب الوطنی ” کی جعلی لہر میں بہت گئے۔ جبکہ عام ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے لیے اس بارے میں بولنا دشوار تر ہوتا چلا گیا۔

اس سخت معاندانہ فضا میں سارتر نے نسل پرستی اور اس کے ساتھ ابھرنے والے تشدد اور قتل عام پر زور دار آواز بلند کی۔ انھوں نے ایک بار پھر 60ء کی دہائی میں تھیڑ ڈراموں میں بورژوازی کمرشل تھیڑ ڈراموں کی بھرمار اور فرانس میں جاری نسل پرستانہ فسطائیت پر عمومی خاموشی کو توڑا۔ انھوں نے 1965ء میں یورپیڈیز کے عظیم المیہ ڈرامے “ٹروجن ویمن” کی نئی تشکیل نو کی اور اسے “ٹرائے کی عورتیں” کے نام سے اسٹیج پر پیش کیا۔ سارتر پردے کے پیچھے اس ڈرامے کی نمائش کے دوران سارا وقت تھیڑ ٹیم کے ساتھ موجود رہتے اور ان کا بھرپور ساتھ دیتے۔ سارتر نے عظیم یونانی المیہ ڈرامے کو اس وقت کی فرانس کی سماجی صورت حال سے جوڑا، الجزائر کی آزادی اور افریقی عرب سیاہ فام باشندوں کی جدوجہد کو سراہا اور اس دوران الجزائری عورتوں کے ساتھ جو ہوا اس کو بھی تمثیل میں پیش کیا۔ مکالمات میں ایشیائی، افریقی باشندوں کی صورت حال کو نمایاں کیا اور یوں ایک یونانی کلاسیکل المیہ ڈرامے کی انقلابی باز آفرینی کرکے دکھائی۔ اس ڈرامے کی فرانس کے تھیٹروں میں نمائش نے عوام کے خیالات میں زبردست بدلاو لایا۔

سارتر کے ڈرامے نہ صرف فرانسیسی تھیڑوں میں ہی مقبولیت کی انتہاؤں کو چھو گئے بلکہ ان کے ڈراموں کی لاکھوں کی تعداد میں جیبی کتابی ایڈیشن /Pocket Size Book Edition بھی شایع ہوئے جو فرانسیسی نوجوان اپنی جیبوں میں لیے پھرتے اور چلتے پھرتے، سفر کرتے، چائے خانوں اور کافی ہاؤسز میں بیٹھ کر انھیں پڑھتے۔

ایسا نہیں تھا کہ سارتر اور ان کے ہم خیال ادیب اور دانشوروں کا عوامی سیاسی ادب و تھیڑ کے حق میں فضا ہموار کرنے اور فرانسیسی سماج میں پھیل جانے والی افریقی عرب سیاہ فام مخالف نسل پرستانہ فسطائی متشدد رجحان کے خلاف ادب اور غیر ادبی تحریر و تقریر کے راستے سے مزاحمت آسانی سے ہورہی تھی۔ سارتر ان کے نزدیک فرانس کا سب سے بڑا غدار، ملک دشمن تھا، اس زمانے میں سارتر کے گھر کو بم سے اڑا دیا گیا۔ سارتر خوش قسمت تھے کہ گھر میں نہیں تھے بچ گئے۔ لیکن بہت سارے ادیب، شاعر، دانشور، سیاسی کارکن اتنے خوش قسمت نہیں تھے۔ سارتر پر بورژوازی پریس کے دروازے بند تھے۔ ان کا نام نفرت اور دشنام ترازی میں تو اخباری سرخیوں اورکالموں میں پڑھنے کو ملتا تھا، ان کا اپنا نکتہ نظر چھاپنے کی کسی بورژوازی اخبار کو جرات نہیں تھی۔

ستر کی دہائی کے آتے آتے فرانس میں بائیں بازو کی بہت بڑی طلباء، مزدور تحریک کا جنم ہوا جس نے نسل پرستانہ لہر کو اٹھاکر پھینک دیا۔ اس نے دریدا، میشل فوکو جیسے پوسٹ ماڈرنسٹ فلسفیوں کو ہی نہیں بلکہ ادب میں پوسٹ ماڈرن ازم رجحان کے علمبرداروں کی پیشن گوئیوں کو فرانسیسی سماج میں غیرمقبول بنادیا۔ عوام ایک بار پھر مزاحمت کے راستے پر نکلے۔ یہاں تک کہ پہلی بار فرانس میں کمیونسٹ پارٹی اور اس کا اتحادی انقلابی بایاں بازو بھاری اکثریت سے انتخابات جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوا۔

آج پاکستان میں ادبی منظرنامے پر عالمی سامراجیت، نئی نوآبادیات neo. colonialism، ریاستی سطح پر جاری قومی جبر و استبداد، اسلامی بنیاد پرستی، نسل پرستانہ قوم پرست رجحانات، نیولبرل معشیت کے غلبے کو اٹل، حتمی اور نہ تبدیل ہونے والی حقیقت بتاکر اس کے سامنے ہتھیار ڈالنے، یاسیت، قنوطیت، مایوسی اور ایبسرڈٹی کو واحد حقیقت بناکر پیش کرنے والے رجحانات غالب ہیں۔ وہ ادیب کو کسی بھی قسم کی سماجی ذمہ داری سے بری الذمہ کرتے ہیں۔ جدوجہد، مزاحمت اور کھڑے ہونے والوں کو عالمی سامراجیت اور اس کے مقامی گماشتہ حکمران طبقے کی ریاستی طاقت سے ڈراتے ہیں۔

julia rana solicitors london

ایسے میں وہ گنے چنے ادیب، شاعر، دانشور غنیمت ہیں جو عوامی مزاحمت اور جدوجہد کو سراہتے ہیں، قومی جبر و استبداد، عالمی سامراجیت اور نئے نو آبادیاتی نظام کے خلاف اپنے ادب اور فکر کو استعمال کرتے ہیں۔ وہ نہ خود مایوس ہیں نہ مایوسی پھیلاتے ہیں۔ ہمیں عوامی سیاسی ادب و تھیڑ ڈرامے و شاعری کی اشد ضرورت ہے جو عوام کی ترجمانی کرے ناکہ وہ حکمران طبقات کی ترجمانی کرتا ہو۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply