اس وقت پاکستان میں اکثر والز پر گریٹا تھنبرگ نامی اس لڑکی کو بہت سراہا جارہا ہے، میرے خیال میں بھی بالکل سراہا جانا چاہیے، کیونکہ یہ دنیا میں ہمت کی علامت بن کر سامنے آئی ہے۔ کئی لوگ اس کی تعریف کررہے ہیں۔ یہ ایک یورپین ہیومن ایکٹوسٹ ہے۔ مگر جب میں اس کو سراہے جانے کے ساتھ ساتھ ان کی والز پر یہ پڑھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جن کے جذبات انہیں کن کن لایعنی معجزات کی یقین دہانی کرواتے ہیں، جیسے یہ ایک چھوٹی سی کشتی یا چھوٹے سے سمندری جہاز میں کھانے پینے کا سامان اور ادویات لے کر غزہ جارہی ہے تو کئی لوگ اس کے مقابل مولویوں کو، یا حکمرانوں کو یا عام پاکستانیوں کو بزدلی کے کوسنے دے رہے ہیں، ایک بے وقوف تو یہاں تک لکھ بیٹھا کہ پاکستانی نوبل انعام یافتہ لڑکی غزہ کیوں نہیں گئی وغیرہ وغیرہ ۔
کیا واقعی آپ کو لگتا ہے کہ گریٹا کے یوں سمندری راستے میں ایک چھوٹے سے سمندری جہاز پر نکلنے جیسے واقعات سے غزہ میں مجبور فلسطینی بھوکے، پیاسے، سسکتے لوگوں کی عملی طور پر کھانے پینے و ادویات کی مدد پہنچ سکتی تھی؟ دراصل ایسا ہونا ممکن نہیں تھا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گریٹا کا یہ عمل کوئی بہت عام عمل ہے۔ حقیقتاً اس صدی کی جو سب سے بڑی نسل کشی اس وقت غزہ میں ہورہی ہے ، اور دو ظالمین کی وجہ سے وہاں پر جو ظلم ہورہا ہے، اس پر طاقت کے استعارے ان فلسطینیوں کی مدد میں معاونت میں حائل ہیں۔ گریٹا کا یہ اقدام صرف ایک علامتی عمل ہے، کیونکہ ایسا اقدام دنیا میں بہت کم لوگ کرتے ہیں، ورنہ وہاں کشتی لے جانا ممکن بھی نہیں اور کوئی بھی ریاست بغیر ویزا بغیر کسی اقوام متحدہ کے پروٹوکول کے تحت وہاں مدد پہنچانے میں معاونت بھی نہیں کرسکتی، یہ بات گریٹا اور اس کے ساتھ جانے والے تمام رضاکار جانتے ہیں لیکن وہ ایسا اس لیے کر رہے ہیں، کہ وہ پوری دنیا کو یہ احساس دلا رہے ہیں، اور ایسے احساس دلانے کی قیمت اکثر ایسے انسانی ایکٹوسٹ کو اپنی جان کی ادائیگی سے کرنی پڑتی ہے۔
مذہب، نسل، وطن ان سب سے بالاتر دنیا میں ہزاروں لاکھوں لوگ اس وقت دنیا میں غزہ میں ہونے والے اس غیر انسانی عمل کی مذمت کر رہے ہیں، حتی کہ پیرس میں ایگل ٹاور کے سامنے وہاں کی مقامی عورتوں کی ایک تنظیم میں عورتوں نے چھاتیاں برہنہ کرکے بھی فلسطین کے حق میں احتجاج کیا ہے، یعنی یہ انہیں ایک احتجاج کا طریقہ لگتا ہے، یورپ و کئی ممالک میں۔ مختلف طریقوں سے غزہ میں ہونے والی نسل کشی کی مذمت مختلف طریقوں سے کی گئی ہے۔ آج کے موجودہ دنیا میں لوگ اپنا احتجاج اسی طرح ریکارڈ کرواتے ہیں، اور گریٹا جیسے کئی انسانی حقوق کے رضاکار اس سے قدم آگے بڑھ کر اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ایسے اقدامات کرتے ہیں جس میں ان کی اپنی جان کو بھی خطرہ ہوتا ہے، گریٹا کسی بھی صورت میں غزہ نہیں پہنچ سکتی تھی، اس کا یہ اقدام علامتی تھا اور بلا شبہ بہت اعلیٰ اور بھرپور تھا، اس کو سراہا بھی جانا چاہیے لیکن اس سے وہ مطلب اور مفاہیم نہیں نکالے جا سکتے، جو بدقسمتی سے ہمارے پاکستانی نکالتے ہیں، ممکن ہے یہی گریٹا کل افغانستان میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے ریاستی جبر کے خلاف کھڑی ہوگی، تو وہی لوگ جو آج اسے سراہ رہے ہیں وہ اسے کل برا بھلا ہی بولیں گے۔
گریٹا نے جو کچھ کیا، یہ نہ ہی دنیا میں پہلی بار ہے، اور نہ ہی فلسطین کے لیے ایسا پہلی بار ہوا ہے، پچھلی تین سے چار دہائیوں میں کئی صحافی اور انسانی حقوق کے رضاکار فلسطین کے لئے ایسے ہی آواز اٹھاتے رہے ہیں، اور ایسے اقدامات کرتے رہے ہیں، جو ریاستی قوانین سے متصادم ہوتے ہیں لیکن اس کی بنیاد انسانی حقوق کے ساتھ کھڑا ہونا ہوتا ہے اور اس میں ان کی جانیں بھی گئی ہیں، بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ظالم صرف اسرائیلی ریاست نہیں ہے، ایسے کئی انسانی حقوق کے رضاکاروں کو فلسطین میں نام نہاد اسلامی عسکری گروہوں اور حماس نے بھی مارا ہے، اگر امریکی انسانی رضاکار ریچل کوری کو اسرائیلی ریاست نے اس وقت مارا ہے، جب اسرائیل فلسطینی آبادی کو بلڈوز کررہا تھا، ریچل کوری ان بلڈوزر کے سامنے احتجاجا کھڑی ہوئی، لیکن اسے مار دیا گیا، اسی طرح جرمن گلوکارہ شانی لاک کو 7 اکتوبر 2024 میں مارنے والے حماس کے مذہبی یرکارے تھے، جو وہاں پر ان دنوں یروشلم میں ایک کنسرٹ میں اس خطے کے لئے اپنے امن کے تھیم کے نغمے گانے آئی تھی۔ اطالوی صحافی Vittorio Arrigoni کو بھی سنہء 2011 میں فلسطینی عسکریت پسندوں نے ہی قتل کیا تھا، جبکہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کی نمائندگی کررہا تھا۔ اکتوبر 7 کو ہی کینڈین نژاد یہودی خاتون Vivian Silver جو فلسطین میں کینسر کے مریضوں کے لئے انسانی بنیادوں پر علاج اور امداد کرتی تھی، انہیں بھی حماس کے گروہ نے ہی مارا تھا۔
بالکل اسی طرح اس وقت انسانی حقوق کا ایک قافلہ “قافلہ صمود” جو بذریعہ الجزائر ، لیبیا تیونس سے مصر سے گزر کر غزہ جانا چاہتا ہے ، جس کی موجودہ تعداد 165 گاڑیاں اور بسیں اور قریب 2000 افراد پر مشتمل ہے، جس میں سے صرف 1500 افراد لیبیا و الجزائر کے ہی ہیں۔ انہیں مصر میں بغیر ویزہ داخل ہونے پر مشکلات کا سامنا ہے، بطور فلسطینی حمایت یہ انسانی حقوق کے رضاکاروں کا قابل تحسین اقدام تو ہے، مگر بغیر ویزہ مصر میں ان کو داخلے کے مسائل کا سامنا ہے, جیسے کہ پاکستانی صاحب غیرت کا معاملہ قرار دے رہے ہیں یہاں تک کہ بغیر ویزے کے صرف غیرت دکھا کر کوئی کسی ملک میں کیسے داخل ہو سکتا ہے، ایک معروف لکھاری تو اس بنیاد پر مصری صدر کو یہودی النسل لکھ رہا ہے، حیرت ہوتی ہے ان کیایسی اپروچ پر جہاں خود قافلہ صمود کے منتظمین یہ بات قبول کر رہے ہیں کہ ان کے پاس ویزے نہیں ہیں اور وہ مصر میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔
وہیں پر کل رات غزہ میں تقریباًرات 10:00 بجے، غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کی ٹیم کے 20 سے زائد ارکان کو لے جانے والی بس پر حماس نے وحشیانہ حملہ کیا ہے۔ جس میں غزہ میں مدد کرنے کے لئے جانے والے پانچ افراد کی جان چلی گئی اور کئی زخمی ہوئے ہیں اور اس ٹیم کے کچھ ارکان کو حماس کی جانب سے اغوا بھی کرلیا گیا ہے ، حمبس کی جانب سے حملے میں جن لوگوں کی جان گئی، جو زخمی ہوئے اور جو یرغمال بنے یہ سب مقامی مسلمان اور زیادہ تر کا تعلق فلسطین سے ہی ہے۔ یہ بس انہیں خان یونس کے مغرب میں فاؤنڈیشن کے امدادی تقسیم کے مرکز تک لے جا رہی تھی۔ حالانکہ یہ امدادی کارکنان خود فلسطینی ہیں اور اپنے ہی لوگوں کی مدد کرنے کہہ رہی ہے ہر روز اپنی جان خطرے میں ڈال دیں ہیں، ان کو حماس کی جانب سے اغوا کرنا اور مار دینے کا مطلب کوئی سمجھا سکتا ہے؟
سمجھنے کی بات یہی ہے کہ اسرائیل حقیقتاً ظلم کررہا ہے، اور ایسے چند لوگ حقوق کے رضا کار بغیر دنیا کے کسی ضابطے قاعدے یا قوانین کی اجازت یا قبولیت کے بغیر اپنی جان جوکھوں ڈالتے ہیں جو صرف انسانی خدمت کی بنیاد پر علامتی طور پر ہوتا ہے۔ اکثر ان کی جانب ہی چلی جاتی ہیں، ان کے اس عمل سے حقیقتاً کوئی فائدہ بھی نہیں ہوپاتا ، لیکن یہ لوگ پھر بھی ایسا کرتے ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ مذہبی افراد اس عمل سے اپنے ہی دوسرے لوگوں کا تقابل کرکے ان کو بزدلی کا طعنہ بھی خود سوشل میڈیا پر بیٹھ کر دیتے ہیں، اور بدقسمتی سے ایسے بے وقوف بھی دیکھے، جو لبرلزم کے نام پر گریٹا کے اقدام کی مذمت یا اس کی گرفتاری پر خوشیاں منا رہے تھے۔ گریٹا یاریچل کوری جیسے لوگ صرف انسانیت کی بنیاد پر ایسا سب کرتے ہیں، اسرائیل جیسی غاصب ریاستیں ظلم و ستم کررہی ہیں امریکہ جیسی طاقتیں انہیں سپورٹ کررہی ہیں، اور حماس جیسے گروہ بظاہر انہیں جواز فراہم کرکے اپنے ہی لوگوں پر ظلم کرنے کا موقع بہم پہنچاتے ہیں ۔

ایک تصویر گریٹا کی ہے، جو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سمندری راستے سے علامتی طور پر غزہ میں امدادی سامان لے جانا چاہتی تھی۔ اور دوسری تصویر کینڈین نژاد یہودی خاتون Vivian Silver جو فلسطین میں کینسر کے مریضوں کی خدمت کرتی تھی اور حماس کے ہاتھوں ماری گئی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں