• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا مستقبل میں کھالوں کی طرح اوجھڑیاں چھیننے کی بھی نوبت آ سکتی ہے ؟-اختر شہاب

کیا مستقبل میں کھالوں کی طرح اوجھڑیاں چھیننے کی بھی نوبت آ سکتی ہے ؟-اختر شہاب

جی ہاں!گر ان تجاویز پر عمل کیا جائے تو۔ ۔ قربانی کا مقصد اللہ کا تقرب، اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہے۔اس دن کسی آدمی کا کوئی عمل اللہ کو خون بہانے سے زیادہ پیارا نہیں ہوتا۔

پاکستان میں عید کے تینوں ایام مسلمان سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں جانوروں کی قربانی پیش کرتے ہیں۔ لیکن عید الاضحٰی جیسے عظیم اور بامقصد  تیوہار  کے دن کسی نظم و ضبط کے بغیر، اسلامی تعلیمات کو جس طرح پس پشت ڈال کر اس فریضہ کی ادائیگی کی جاتی ہے اس سے غیر مسلموں کو کوئی اچھا تاثر نہیں ملتا۔

عید الاضحٰی پر جہاں جانوروں کی قربانی ایک مذہبی اور دینی فریضہ ہے، وہیں صفائی کو بھی آدھا ایمان کہا گیا ہے اور اس کا اطلاق ہماری اپنی انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی دونوں پر ہوتا ہے لیکن لگتا ہے کہ ہمارا آدھا ایمان بہت کمزور ہو چکا ہے۔

ان ایام میں سڑکوں اور گلیوں میں خون کے نشانات چھوڑتی ہوئی ، خون کی دھاریں نالیوں اور گٹر کی طرف بہتی ہوئی نظر آتی ہیں،جانوروں کے چارے، ہر طرف بکھری ہوئی ان کی گندگی اور اطراف میں پھیلی ہوئی بدبو  انتہائی ناخوش گوار اور تکلیف دہ فضا پیدا کرتے  ہیں ۔

لوگ اس آلودگی کی فکر کرنے کی بجائے دوسرے اور تیسرے دن بھی اپنی اپنی قربانی کے فرائض کی ادائیگی میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اپنے گھروں،پارکنگ اور گھر کے اندرونی حصوں کی صفائی اور دھلائی تو ضرور کر لی جاتی ہے مگر سڑکیں، گلیاں، گٹر اور نالے اس بدنظمی اور بد انتظامی کی داستان رو رو کر سنا رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ گلی محلے میں ہر طرف پھیلا خون،آنتیں اور جانوروں کے دیگر اجزاء آلودگی تو پھیلاتے ہیں ساتھ ہی چوہے، چھچھوندر،کتے، بلیاں بھی ان  الائشوں پر پل پڑتے ہیں اور انسانوں میں بیماریاں پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔

عید قرباں پر عام گلی محلوں میں سرِ راہ جانوروں کی آلائشیں پھینکنا عام بات تصور ہوتی ہے۔ رہائشی علاقوں میں عید الاضحیٰ کے دوران ہونے والی قربانیاں طبی مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ سب سے زیادہ مسئلہ قربانی کے جانوروں کی آلائشوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بروقت تلف نہ کیے جانے کے باعث یہ آلائشیں محض راہ گیروں ہی کے لیے پریشانی کا باعث نہیں بنتیں بلکہ ان آلائشوں سے پیدا ہونے والی غلاظت اور اس اٹھتا تعفن مختلف بیماریوں بھی کا سبب بنتا ہے۔

قربانی سے پیدا ہونے والے ان مسائل سے ملک کے تمام شہری پریشان رہتے ہیں تو کیا اس صورتحال کو یوں ہی رہنے دیا جائے یا اس کا کوئی حل بھی ہے۔ ؟

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال تقریباً 70 لاکھ جانور عید الاضحیٰ کے موقع پر قربان کیے گئے۔اب آپ   خود اندازہ کریں کہ اتنی بڑی تعداد میں اوجھڑیاں اٹھانے اور انہیں تلف کرنے کے لیے ملک بھر کے میونسپل کارپوریشن والے ہر سال ایک اچھی خاصی بڑی رقم خرچ کرتے ہیں جو قومی خزانے پر ایک بڑا بوجھ ہے۔ پھر اس کے علاوہ شاید آپ نے کبھی غور نہیں کیا کہ ہم ہر سال ان اوجھڑیوں کو زمین میں دبا کر “اربوں روپے زمین بُرد کر دیتے ہیں۔” جبکہ ان اوجھڑیوں  سے ہم نہ صرف اچھی خاصی آمدنی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اپنی زراعت کا معیار بھی بڑھا سکتے ہی۔

اس سلسلے میں درج ذیل صرف دو تجاویز پر عمل کیا جائے تو اربوں روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔

1. سب سے پہلے سروے کرنے کے بعد ہر شہر میں مختلف مقامات پر گہرے کنویں کھدوائے جائیں اور اوجھڑیوں کو کاٹ کر کا فضلہ ان میں ڈال دیا جائے۔اس ٹنوں فضلے سے جو بایو گیس حاصل ہوگی وہ نزدیکی آبادیوں کو سپلائی کی جا سکتی ہے۔(مفت میں یا پیسوں سے) ۔ بایو گیس ختم ہونے پر ہمارے پاس بہترین ’’آرگینگ کھاد‘‘ موجود ہوگی جو کسان کے لئے سونا ہے اور وہ جسے اچھی قیمت پر خریدنے کو تیار ہوگا۔ یوں میونسپل کارپوریشن کو ایک معقول آمدنی ہوگی۔

2. اگر کنوؤں کے ساتھ ہی قیمہ بنانے والی مشینیں لگا دی جائیں تو اوجھڑیوں کا گوشت اور دوسری چیزیں وہیں مشین میں ڈال کر ان کا قیمہ بنایا جا سکتا ہے ۔مہنگی امپورٹڈ فیڈ کے بجائے اس سستے قیمے کو پولٹری فیڈ والے یا دوسرے استعمال کنندگان بہ خوشی خریدنے کو تیار ہوں گے اور یہ بھی میونسپل کارپوریشن کے لیے آمدنی کا ایک اور بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔

اس کام میں کنویں کھدوانے کی صرف ایک دفعہ کی انویسٹمنٹ ہے اور میونسپل کارپوریشن والے تو یوں بھی الائشیں اکٹھی اور تلف کرتے ہیں۔سو وہ انہیں کہیں اور دبانے کے بجائے ان کنوؤں کے پاس پہنچا دیں تو ان کا تلف کرنے کا خرچ بچے گا۔

عید قربان پرتقریباً ہر مدرسے میں سینکڑوں جانور ذبح ہوتے ہیں۔ اس لئےہرشہر میں مساجد / مدارس میں، جہاں سینکڑوں جانور ذبح ہوتے ہیں، (آزادنہ یا جائنٹ وینچر کے طور پر) بھی اگر اپنے پاس کنویں کھدوالیں تو اس کام کو شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس سے مدارس کو بھی اضافی آمدنی ہونا شروع ہو جائے گی۔

اگر میونسپل کارپوریشن اس کام میں حصہ نہیں لینا چاہتی تو کنویں کھدوانے کے بعد انہیں ٹھیکے پر بھی دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر میونسپل کارپوریشن اس میں دلچسپی لے تو بڑے پیمانے پر بھی یہ کام کیا جا سکتا ہے۔

اگر یہ کام صحیح اور بھرپور طریقے سے شروع ہو گیا تو پھر   الائشیں تلف کرنے پر خرچ ہونے والی رقم کے بچنے کے علاوہ بائیو گیس اور آرگینک کھاد بیچنے سے اربوں روپے کی آمدن متوقع ہے۔
جس سے میونسپل کارپوریشن نا  صرف مذبح خانے بنا سکتی ہے بلکہ شہریوں کو ان مذبح خانوں میں مفت قربانی کرنے اور گوشت گھروں تک پہنچانے کی سہولت بھی فراہم کر سکتی ہے۔

julia rana solicitors

یاد رکھیں! یہ اوجھڑیوں والا معاملہ، مفت کی کمائی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اور یہ بات اگر پرائیویٹ انویسٹرز کی سمجھ میں آگئی اور وہ اس میں شامل ہو گئے تو۔ ۔
اس کام میں اتنا منافع ہے اور اتنی کمائی ہے کہ نوبت اوجھڑیاں چھننے  تک پہنچ سکتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply