نہ کا مطلب نہ ہے/عامر کاکازئی

امیتابھ نے فلم پنک میں ایک شاندار جملہ کہا تھا کہ “ عورت اگر ایک بار  نہ  کر دے تو پھر اس کامطلب نہ  ہی ہوتا ہے۔ چاہے وہ عورت بیوی ہی کیوں نا ہو یا پھر ایک پیشہ کرنے والی ۔ اس لیے مرد کو کوئی حق نہیں پہنچتاکہ وہ زبردستی کرے۔

اسی “نہ  “ کو ٹیکسالی گیٹ میں مصنف ابو علیحہ نے کچھ اس طرح  بیان کیا ہے۔

“اگر کوئی لڑکی اپنی مرضی سے اپنا ہاتھ پکڑنے یا گال پر چمی دینے کی اجازت دے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آگے کی حدیں بھی آپ لوگ ہی décide کرو گے۔ ہاتھ پکڑانا ، گال یا ہونٹ پر چمی کرانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ریپ کرنے کی کھلی چھٹی مل جائے۔ “

بدقسمتی سے ساؤتھ ایشین  مرد نے عورت کے ساتھ صرف سونا سیکھا ہے  ۔ اگر آپ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں تو اس ساؤتھ ایسٹ ریجن کے مردوں کی گالیو ں کے الفاظ بھی عورت کے ساتھ جُڑے مقدس رشتوں اور جسم سے ہی ملتے ہیں۔ ساری گالیاں ماں اور بہن سے منسلک ہیں، کوئی بھی گالی بھائی یا باپ والی نہیں ملے گی۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ جس بہن کو اپنی مرضی کی شادی کی اجازت نہیں کہ غیرت کا معاملہ ہے مگر اسی بہن کی گالی دیتے ہوئے ذرا سی  بھی شرم نہیں آتی۔ اس گالی کےوقت غیرت کہاں جا کر سو جاتی ہے۔ وہ ہر عورت کو ویشیا ہی کیوں سمجھتا ہے؟ اس دوغلے پن کی کیا وجہ ہے؟  ا

اس ریجن کے قبائلی مرد کے ذہن کو سائیکالوجیکلی درست طریقے سے پڑھنا ہے تو ہمیں مشہور شاعر شعیب کیانی کی نظم “بے حیا “ پڑھنا ہو گی ۔

ہم ہی  تو ہیں وہ

جو طے کریں گے

کہ ان کے جسموں پہ کس کا حق ہے

ہم ہی تو ہیں وہ

جو طے کریں گے

کہ کس سے ان کے نکاح ہوں گے

یہ کس کے بستر کی زینتیں ہیں

وہ کون ہو گا جو اپنے ہونٹوں کو

ان کے جسموں کی آب دے گا

بھلے محبت کسی کے کہنے پہ

آج تک ہو سکی، نہ ہو گی

مگر یہ ہم طے کریں گے

ان کو کسے بسانا ہے اپنے دل میں

ہم ان کے مالک ہیں

جب بھی چاہیں

انہیں لحافوں میں کھینچ لائیں

اور ان کی روحوں میں دانت گاڑیں

یہ ماں بنیں گی

تو ہم بتائیں گے

ان کے جسموں نے کتنے بچوں کو ڈھالنا ہے

ہمارے بچوں کے پیٹ بھرنے

اگر یہ کوٹھے پہ جا کے اپنا بدن بھی بیچیں

تو ہم بتائیں گے

کس کو کتنے میں کتنا بیچیں

ہمیں کو حق ہے

کہ ان کے گاہک (جو خود ہم ہی ہیں) سے

ساری قیمت وصول کر لیں

ہم ہی کو حق ہے کہ ان کی آنکھیں،

حسین چہرے، شفاف پاؤں،

سفید رانیں، دراز زلفیں

اور آتشیں لب دکھا دکھا کر

کریم، صابن، سفید کپڑے، اور آم بیچیں

دکاں چلائیں، نفع کمائیں

ہم ہی تو ہیں جو یہ طے کریں گے

یہ کس صحیفے کی کون سی آیتیں پڑھیں گی

یہ کون ہوتی ہیں

اپنی مرضی کا رنگ پہنیں

سکول جائیں، ہمیں پڑھائیں

ہمیں بتائیں

کہ ان کا رب بھی وہی ہے جس نے ہمیں بنایا

برابری کے سبق سکھائیں

یہ لونڈیاں ہیں یہ جوتیاں ہیں

یہ کون ہوتی ہیں اپنی مرضی سےجینے والی؟

بتانے والے ہمیں یہی تو بتا گئے ہیں

جو حکمرانوں کی بات ٹالیں

جو اپنے بھائی سے حصہ مانگیں

جو شوہروں کو خدا نہ سمجھیں

جو قدرے مشکل سوال پوچھیں

جو اپنی محنت کا بدلہ مانگیں

جو آجروں سے زباں لڑائیں

جو اپنے جسموں پہ حق جتائیں

وہ بے حیا ہیں

وہ بے حیا ہیں

ریاست کو بہت سنجیدگی سے  سکول لیول سے ہی ہر بچے کےذہن میں ہر عورت کی عزت کروانا ہو گا اور یہ سمجھانا ہوگا کہ نہ  کامطلب نہ  ہی ہوتا ہے ، چاہے اپنی بیوی ہو یا کوئی ویشیا۔ ریاست کو میڈیا کے ذریعے “عورت کی نہ ” کی سوچ کو متحرک کرنا ہو گا، منظم طریقے سے چاہے ڈرامہ کے ذریعے ہو یا فلم یا سوشل میڈیا کے ذریعے یا ٹاک شوز کے ذریعے اس میسج کو پھیلانا ہو گا۔

پنک اور ٹکسالی گیٹ جیسی فلموں کو بہت کم ٹکٹ کے ساتھ نمائش کے لیے پیش کرنا ہو گا کہ اس ریجن یعنی جنوبی ایشیا کےقبائلی مرد کو ماڈرن زمانہ میں لا سکیں۔

انڈیا کی مقبول شاعر امریتا پریتم نے ایک بار لکھا تھا کہ ’میں نے اپنی ساری زندگی جو کچھ بھی سوچا اور لکھا وہ دیوتاؤں کوجگانے کی کوشش تھی، وہ دیوتا جو انسان کے اندر سوئے ہوئے ہیں۔‘

ہمیں بھی تمام دستیاب ذرائع سے اپنے ملک کے مردوں کے اندر سوئے ہوئے ان دیوتاؤں کو جگانا ہو گا۔

امریتا پریتم نے عورت کے درد کو ایک ڈائلاگ کے ذریعے بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ

امریتا : ”بچے پیدا کرنا کون سا مشکل ہے ، ایک چیخ مارو تو بیٹا اور دو چیخیں مارو تو بیٹی۔۔۔۔“

‏کیرت : ”بیٹی کی دفعہ دو چیخیں کیوں؟“

‏امریتا : ”ایک چیخ درد کی اور دوسری غم کی۔“

آخر میں ایک سوال ہے اپنے پڑھنے والوں سے:

julia rana solicitors

کیا کبھی ہم ایشین مرد ، عورت کو ایک آبجیکٹ کی حیثیت دینے کی بجائے ایک انسان کے طور پر تسلیم کریں گے ؟

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply