• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • پروفیسر ڈاکٹر خورشید الحسن رضوی- نفیس شخصیت، با کمال استاد، ممتاز شاعر/ڈاکٹر محمد عمران اعوان

پروفیسر ڈاکٹر خورشید الحسن رضوی- نفیس شخصیت، با کمال استاد، ممتاز شاعر/ڈاکٹر محمد عمران اعوان

استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر خورشید الحسن رضوی صاحب جن سے ہم نے عربی ادب پڑھا۔ آپ نے بارہا میری تحاریر میں ان کا تذکرہ سنا ہو گا۔ آج استاد محترم کا تعارف پیش خدمت ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر خورشید الحسن رضوی، جن کا نام علمی و ادبی دنیا میں ایک درخشندہ ستارے کی مانند جگمگاتا ہے، ایک ایسی کثیر الجہت شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی فکر و فن کی بدولت نہ صرف پاکستان بلکہ عالم عرب تک اپنی دھاک بٹھائی۔
19 مئی 1942ء کو بھارت کے تاریخی شہر امروہہ میں پیدا ہونے والے خورشید رضوی صاحب نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی اور منٹگمری (اب ساہیوال) میں اپنے خاندان کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کیا۔ ان کی والدہ نے کم سنی میں والد کے انتقال کے بعد ان کی پرورش کی، اور یہی عزم و ہمت ان کی شخصیت کا حصہ بن گئی۔
تعلیمی سفر میں انہوں نے اسلامیہ ہائی اسکول اور گورنمنٹ ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، پھر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے وابستہ ہوئے، جہاں 1961ء میں عربی میں ایم اے کیا اور طلائی تمغہ حاصل کرکے اپنی علمی برتری کا لوہا منوایا۔ بعدازاں پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری نے ان کے علمی قد کو مزید بلند کیا۔
ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب عربی، فارسی، اردو، پنجابی اور انگریزی زبانوں کے ایک جامع اسکالر ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج سرگودھا میں شعبہ عربی کے استاد کی حیثیت سے طویل عرصہ خدمات انجام دیں اور آج کل گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور میں پروفیسر ایمرٹس ہیں۔ ان کی علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے 2008ء میں انہیں “ستارہ امتیاز” سے نوازا، جبکہ ادبی دنیا میں احمد ندیم قاسمی ایوارڈ، احمد فراز لٹریری ایوارڈ، یوبی ایل ادبی ایوارڈ اور عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ (دوحہ، قطر) جیسے معتبر اعزازات ان کے حصے میں آئے۔
شاعری کے میدان میں ان کے مجموعے “رائگاں”، “شاخ تنہا”، “سرابوں کے صدف”، “امکان” اور “یکجا” ان کے شعری جمال کی گواہی دیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں فکر کی گہرائی، لفظوں کی نزاکت اور جذبے کی سچائی جھلکتی ہے۔ ان کا شعر:
سب کہے دیتی ہے اشکوں کی روانی افسوس
راز دل میں ہے کہ چھلنی میں ہے پانی افسوس
ان کے دل کی گہرائیوں کو عیاں کرتا ہے۔ نثر میں بھی ان کی تحریریں، خصوصاً “قلائد الجمان” کی تدوین اور “عربی ادب قبل از اسلام” کی دو جلدوں پر مشتمل شاہکار تحقیق، علمی حلقوں میں ایک عظیم کارنامہ سمجھی جاتی ہیں۔ یہ کتابیں عربی ادب کی تاریخ کو اردو زبان میں سمجھنے کا ایک منفرد ذریعہ ہیں، جن کی وسعت اور گہرائی عرب اہل علم کو بھی مبہوت کرتی ہے۔
ڈاکٹر رضوی صاحب کی شخصیت میں خلوص، سادگی اور رواداری کا جوہر نمایاں ہے۔ وہ نہ صرف ایک شاعر، محقق اور استاد ہیں، بلکہ ایک ایسی عالمانہ روح ہیں جو اپنے شاگردوں اور ہم عصروں کے دلوں میں محبت اور احترام کا مقام رکھتی ہے۔ ان کی گفتگو میں عربی، فارسی اور اردو ادب کی باریکیوں کا گہرا ادراک جھلکتا ہے، اور وہ مولانا روم، حافظ شیرازی، غالب اور اقبال کے کلام سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب “بازدید” میں شامل خاکوں سے ان کی شگفتہ طبیعت اور عالمانہ وقار کا اندازہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب ایک ایسی علمی و ادبی شخصیت ہیں جو اپنی تحریروں، تدریس اور شاعری کے ذریعے آنے والی نسلوں کو اپنے تہذیبی و ادبی ورثے سے جوڑنے کا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ ان کی زندگی ایک ایسی مسافت ہے جو سردیوں کی رات کی تنہائی اور لطف دونوں کی آمیزش سے مزین ہے، جیسا کہ ان کا شعر ہے:
زندگی گزری بہت پر لطف بھی، سنسان بھی
سردیوں کی رات کی تنہا مسافت کی طرح
ان کی ذات علم و ادب کا ایک روشن مینار ہے، جو ہر دور میں راہ دکھاتا رہے گا۔
پروفیسر ڈاکٹر خورشید الحسن رضوی صاحب کی شاعری اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے، جو اپنی فکری گہرائی، جذباتی نزاکت، اور لفظی چاشنی کے باعث قاری کے دل و دماغ کو مسحور کرتی ہے۔ ان کے شعری مجموعوں—”رائگاں”، “شاخ تنہا”، “سرابوں کے صدف”، “امکان”، اور “یکجا”—میں ایک ایسی شاعرانہ کیفیت پائی جاتی ہے جو روایت و جدت کا امتزاج پیش کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں غزل، نظم، اور آزاد نظم کے مختلف رنگ دکھائی دیتے ہیں، مگر غزل ان کا خاص میدان ہے، جہاں وہ روایتی سانچوں میں جدید احساسات کو ڈھالتے ہیں۔ ذیل میں ان کی شاعری کا مزید تجزیہ پیش کیا جاتا ہے، جس میں ان کے موضوعات، اسلوب، اور شعری خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
موضوعات:
خورشید رضوی صاحب کی شاعری کے موضوعات زندگی کے متنوع رنگوں سے ہم آہنگ ہیں۔ ان کی شاعری میں عشق و محبت، وجودی کرب، سماجی شعور، تصوف، اور فطرت کے حوالے سے گہری فکر جھلکتی ہے۔ ان کے ہاں محبت صرف جسمانی یا رومانی سطح تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی اور فلسفیانہ تجربہ ہے جو انسان کو کائنات سے جوڑتا ہے۔ مثال کے طور پر:
سب کہے دیتی ہے اشکوں کی روانی افسوس
راز دل میں ہے کہ چھلنی میں ہے پانی افسوس
اس شعر میں محبت کا درد ایک عالمگیر کیفیت کے طور پر ابھرتا ہے، جہاں دل کا راز چھپانے کی کوشش ناکام ہوتی ہے، اور آنسوؤں کی روانی اس کی گواہی دیتی ہے۔ یہاں “چھلنی میں پانی” کا استعارہ نہایت خوبصورتی سے جذبات کی ناپائیداری اور بے بسی کو عیاں کرتا ہے۔
ان کی شاعری میں وجودی تنہائی اور خودشناسی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔ وہ انسانی وجود کے کرب، اس کی تلاش، اور اس کے مابعد الطبیعیاتی سوالات کو اپنی شاعری میں جگہ دیتے ہیں۔ ان کا یہ شعر:
زندگی گزری بہت پر لطف بھی، سنسان بھی
سردیوں کی رات کی تنہا مسافت کی طرح
زندگی کے دو متضاد پہلوؤں—لذت اور تنہائی—کو ایک ایسی مسافت سے تشبیہ دیتا ہے جو سردیوں کی رات کی طرح پُراسرار اور خاموش ہوتی ہے۔ یہ شعر ان کی شاعری کی فلسفیانہ گہرائی کی عکاسی کرتا ہے۔
تصوف بھی ان کی شاعری کا اہم حصہ ہے، جہاں وہ مولانا روم، حافظ شیرازی، اور علامہ اقبال کی روایت کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ان کے ہاں خدا، خودی، اور کائنات کے ساتھ انسان کے رشتے کی بات ایک عمیق روحانی انداز میں ہوتی ہے۔
اسلوب اور زبان:
خورشید رضوی صاحب کی شاعری کا اسلوب نہایت شگفتہ، پرتکلف، اور ثقیل ہے، مگر اس کی ثقالت قاری پر بوجھ نہیں بنتی، بلکہ اسے ایک ادبی لذت سے ہمکنار کرتی ہے۔ ان کی زبان میں عربی، فارسی، اور اردو کے الفاظ کا ایک خوبصورت امتزاج ملتا ہے، جو ان کی شاعری کو ایک عالمانہ رنگ دیتا ہے۔ وہ روایتی بحور اور ردیف و قافیہ کے استعمال میں مہارت رکھتے ہیں، لیکن ان کی غزلوں میں جدید حسیت اور عصری مسائل بھی جھلکتے ہیں۔
ان کے ہاں استعاروں، تشبیہات، اور علامتوں کا استعمال نہایت فنکارانہ ہے۔ مثال کے طور پر، “سرابوں کے صدف” ان کے ایک مجموعہ کا عنوان ہے، جو خود ایک علامتی بیان ہے۔ “سراب” عدم کی علامت ہے، جبکہ “صدف” جواہر کی تخلیق کا استعارہ۔ یہ عنوان ان کی شاعری کی اس دوگانگی کو ظاہر کرتا ہے جو حقیقت اور خواب، امید اور یأس کے درمیان جھولتی ہے۔
ان کی شاعری میں موسیقیاتی آہنگ بھی نمایاں ہے، جو غزل کی روایت کا خاصہ ہے۔ ان کے اشعار پڑھنے اور سننے میں ایک خاص لے اور تال پیدا کرتے ہیں، جو قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔
شعری خصوصیات کو دیکھیں تو ان میں فکری گہرائی نظر آتی ہے۔ خورشید رضوی صاحب کی شاعری سطحی نہیں، بلکہ اس میں فلسفیانہ، وجودی، اور روحانی سوالات کی گونج سنائی دیتی ہے۔ وہ زندگی، موت، عشق، اور خدا کے بارے میں سوچتے ہیں اور اپنے قاری کو بھی سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
جذباتی صداقت: ان کی شاعری میں جذبات کی ایسی صداقت ہے جو قاری کے دل کو چھو لیتی ہے۔ ان کے اشعار میں درد، محبت، اور تنہائی کے رنگ اس طرح بکھرتے ہیں کہ وہ ہر حساس دل سے رابطہ قائم کر لیتے ہیں۔
روایت و جدت کا امتزاج: وہ غالب، میر، اور اقبال کی روایت سے وابستہ ہیں، مگر ان کی شاعری میں عصری حسیت اور جدید موضوعات بھی شامل ہیں۔ یہ امتزاج ان کی شاعری کو ہمہ گیر بناتا ہے۔
تہذیبی شعور: ان کی شاعری میں اسلامی تہذیب، مشرقی اقدار، اور پاکستانی معاشرے کا شعور جھلکتا ہے۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے اپنے تہذیبی ورثے کو زندہ رکھتے ہیں۔
ان کا ایک اور شعر ملاحظہ کریں:
ہر ایک موج سمندر کی چیختی ہے کہ بس
یہ ایک قطرہ ہے جو دل میں ہے چھپا ہوا
یہ شعر انسانی جذبات کی شدت اور ان کی چھپی ہوئی گہرائی کو سمندر کی موجوں سے تشبیہ دیتا ہے۔ “قطرہ” یہاں دل کے راز یا جذبے کی علامت ہے، جو بظاہر چھوٹا مگر باطن میں عظیم ہے۔ یہ شعر ان کی شاعری کی علامتی گہرائی اور جذباتی شدت کا مظہر ہے۔
ایک اور شعر:
وہ جو خوابوں میں ملے، رات سحر ہو گئی
نیند کی شاخ سے پھر چاندنی گر گئی
اس شعر میں خواب، محبت، اور حقیقت کے درمیان ایک نازک رشتہ دکھائی دیتا ہے۔ “نیند کی شاخ” اور “چاندنی” جیسے الفاظ شاعری کو ایک خوابناک اور رومانی فضا عطا کرتے ہیں، جبکہ “سحر ہو گئی” سے ایک عارضی ملاقات کا خاتمہ اور اس کا دکھ جھلکتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر خورشید الحسن رضوی صاحب کی شاعری اردو ادب کا ایک انمول جوہر ہے، جو اپنی فکری بلندی، جذباتی گہرائی، اور لفظی چاشنی کے باعث ہر دور میں زندہ رہے گی۔ ان کی شاعری ایک ایسی آئینہ ہے جس میں انسان اپنی تنہائی، محبت، اور روحانی جستجو کے رنگ دیکھتا ہے۔ وہ نہ صرف ایک شاعر ہیں، بلکہ ایک مفکر اور عالم ہیں، جن کی شاعری روایت کی خوشبو اور جدت کی تازگی کا سنگم ہے۔ ان کے اشعار پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے وہ قاری کو ایک ایسی مسافت پر لے جا رہے ہیں جہاں دل و دماغ ایک ساتھ سفر کرتے ہیں۔ ان کی شاعری ہر اس شخص کے لیے ایک دعوتِ فکر ہے جو زندگی کے گہرے سوالات سے ہم کلام ہونا چاہتاہے۔
پروفیسر ڈاکٹر خورشید الحسن رضوی صاحبب کی حیثیت ایک استاد کے طور پر نہ صرف غیر معمولی ہے، بلکہ ان کی تدریسی زندگی ایک ایسی روشن مثال ہے جو علم، اخلاق، اور انسانیت کے اعلیٰ معیارات کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ ایک ایسی عالمانہ شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی تدریس کے ذریعے نہ صرف طلبہ کے ذہنوں کو منور کیا، بلکہ ان کے دلوں میں علم کی لگن اور تہذیبی شعور بھی بیدار کیا۔ ان کی تدریسی خدمات، خاص طور پر عربی ادب اور زبان کے میدان میں، پاکستان کے علمی منظرنامے پر ایک انمٹ نقوش چھوڑ گئی ہیں۔ ذیل میں ان کے بطور استاد کردار کا تفصیلی جائزہ خوبصورت اور ثقیل اردو میں پیش کیا جاتا ہے۔
تدریسی سفر کا آغاز و ارتقا:
ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب نے اپنے تدریسی سفر کا آغاز گورنمنٹ کالج سرگودھا سے کیا، جہاں انہوں نے شعبہ عربی کے استاد کی حیثیت سے طلبہ کو عربی زبان و ادب کی گہرائیوں سے روشناس کرایا۔ ان کی تدریس کا انداز اس قدر سحر انگیز تھا کہ پیچیدہ سے پیچیدہ موضوعات بھی ان کی زبان سے نکل کر سہل اور دلکش ہو جاتے۔ بعدازاں، وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے وابستہ ہوئے، جہاں وہ شعبہ عربی کے سربراہ رہے اور آج کل پروفیسر ایمرٹس کے طور پر اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا تدریسی دور کئی دہائیوں پر محیط ہے، جس دوران انہوں نے ہزاروں طلبہ کو علم کی روشنی سے منور کیا۔
شیخ زید اسلامک سنٹر میں دس سال بطور وزیٹنگ پروفیسر طلبہ کو علم کی روشنی عطا کرتے رہے۔
تدریسی اسلوب:
ڈاکٹر رضوی کا تدریسی اسلوب ان کی شخصیت کی طرح شگفتہ، گہرا، اور اثر انگیز ہے۔ وہ صرف کتابی علم تک محدود نہیں رہتے، بلکہ اپنے لیکچرز میں عربی، فارسی، اردو، اور اسلامی تہذیب کے وسیع حوالوں کو شامل کرتے ہیں۔ ان کی کلاسز ایک علمی سفر کی مانند ہوتی ہیں، جہاں طلبہ نہ صرف نصابی مواد سے آگاہ ہوتے ہیں، بلکہ زندگی کے فلسفے، اخلاقی اقدار، اور تہذیبی شعور سے بھی مالا مال ہوتے ہیں۔
ان کی تدریس میں ایک خاص بات ان کا طلبہ سے گہرا رابطہ ہے۔ وہ ہر طالب علم کی صلاحیتوں کو سمجھ کر ان کی انفرادی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ استاد کا فرض صرف علم کی ترسیل نہیں، بلکہ شاگردوں کے کردار کی تعمیر اور ان کی فکری نشوونما بھی ہے۔ ان کی کلاسز میں طلبہ کو سوال کرنے، بحث کرنے، اور اپنی رائے پیش کرنے کی مکمل آزادی ہوتی تھی، جس سے ان کی تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھتی تھیں۔
وہ اپنے لیکچرز میں مولانا روم، حافظ شیرازی، غالب، اقبال، اور دیگر عظیم شعرا و مفکرین کے اقوال و اشعار سے استفادہ کرتے، جس سے عربی ادب کے موضوعات کو ایک عالمگیر تناظر ملتا۔ مثال کے طور پر، جب وہ عربی شاعری کے عہد جاہلی یا عہد اسلامی کی بات کرتے، تو وہ اسے مشرقی ادبیات سے جوڑ کر تہذیبی تسلسل کی ایک خوبصورت تصویر پیش کرتے۔
عربی ادب کے سفیر:
ڈاکٹر رضوی نے عربی زبان و ادب کو پاکستان میں فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کے دور میں عربی کو صرف ایک دینی یا نصابی مضمون کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک ادبی اور تہذیبی ورثے کے طور پر پڑھا۔ ان کی کتاب “عربی ادب قبل از اسلام” (دو جلدوں پر مشتمل) نہ صرف طلبہ کے لیے ایک عظیم تحقیقی سرمایہ ہے، بلکہ اس سے ان کی تدریسی گہرائی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے عربی ادب کے مشکل موضوعات، جیسے کہ معلقات، خطابت، اور نثر جاسانیہ کو اس قدر سہل انداز میں پڑھایا کہ طلبہ اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتے۔
ان کی تدریس میں ایک خاص بات ان کا عربی زبان کے ساتھ محبت اور اس کی نزاکتوں کا گہرا ادراک تھا۔ وہ طلبہ کو نہ صرف گرامر اور لغت سکھاتے، بلکہ عربی کے شعری اور نثری حسن کو بھی اجاگر کرتے۔ ان کے لیکچرز میں عربی کے الفاظ کی آتاشناسی، اس کے محاورات، اور اس کی شاعرانہ صلاحیتوں پر ایسی گفتگو ہوتی کہ طلبہ اس زبان سے ایک گہرا رشتہ جوڑ لیتے۔
شاگردوں پر اثرات:
ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کے شاگرد آج علمی، ادبی، اور دینی حلقوں میں نمایاں مقامات پر ہیں۔ ان کے طلبہ انہیں ایک ایے استاد مانتے ہیں، جو صرف علم کا درس نہیں دیتا، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے۔ ان کے شاگردوں کے بقول، ڈاکٹر رضوی کی کلاسز ایک ایسی درس گاہ تھیں جہاں علم کے ساتھ حکمت، ادب کے ساتھ اخلاق، اور شاعری کے ساتھ انسانیت کے سبق ملتے تھے۔
ان کے شاگرد ان کو “چلتا پھرتا دائرہ معارف” قرار دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ “ان کی تدریس ایک ایسی روشنی تھی جو دل و دماغ کے تاریک گوشوں کو منور کر دیتی تھی۔” ان کے طلبہ میں ان کے لیے گہری عزت اور محبت پائی جاتی ہے، جو ان کے خلوص اور تدریسی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اخلاقی و روحانی تربیت:
ڈاکٹر رضوی صاحب کی تدریس کا ایک منفرد پہلو ان کا طلبہ کی اخلاقی و روحانی تربیت پر زور تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ علم کے بغیر اخلاق نامکمل ہے۔ اپنے لیکچرز میں وہ اکثر اسلامی اقدار، رواداری، اور انسانیت کی بات کرتے۔ اپنے شاگردوں سے کہتے ہیں کہ اپنا جعلی علم کا رعب جھاڑنے کے بجاۓ جس چیز کا علم نہ ہو اس پر معذرت کر لیں۔
جب کہ ان کا کہا کہنا ہے کہ لوگ کہتے ہیں علم ایک سمندر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جہالت ایک سمندر ہے۔
وہ اپنی زندگی کو خود ایک مثال بنا کر پیش کرتے، ان کی سادگی، خلوص، اور عاجزی سے طلبہ متاثر ہوتے۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ ایک استاد کا سب سے بڑا فرض اپنے شاگردوں کو ایک اچھا انسان بنانا ہے۔
ان کے شاگردوں اور ہم عصروں کی طرف سے ان کی تدریس کی ہمیشہ قدر کی گئی۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور میں ان کی خدمات کو آج بھی ایک سنہری باب کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔۔
رب کریم ڈاکٹر صاحب کو صحت و عافیت کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائیں۔ ان کے شاگرد ہمیشہ ان کے لیے یہی دعا کرتے ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد عمران ملک
ڈاکٹر محمد عمران ملک وزیٹنگ فیکلٹی ممبر پنجاب یونیورسٹی لاہور ٹی وی اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply