جون کی 11 تاریخ ، سال 1981ء جب بلوچ اسٹوڈنٹس فیڈریشن- بی ایس او کے ممتاز طالب علم رہنماء کی پھانسی کا واقعہ ۔۔۔ جنرل ضیاع الحق کی آمریت کا دور۔۔۔۔۔ ملک میں ابھی “بحالی جمہوریت کا اتحاد “ایم آر ڈی ” وجود میں نہیں آیا تھا – لیکن ملک میں پاکستان پیپلزپارٹی، کمیونسٹ پارٹی پاکستان ، عوامی تحریک سندھ ، مزدور کسان پارٹی ، قومی محاذ آزادی ، کمیونسٹ پارٹی پاکستان کا طلباء فرنٹ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن – نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن – این ایس ایف ، پی ایس ایف، بلوچ اسٹوڈنٹس فیڈریشن ( متحدہ ) جنرل ضیاع الحق کی آمریت کے خلاف بھرپور مزاحمت کررہے تھے –
ملک بھر سے ان جماعتوں کے ہزاروں کارکن جیلوں میں بند تھے – فوجی عدالتیں قائم ہوچکی تھیں وہاں سے سیاسی کارکنوں کو قید ، کوڑوں اور سزائے موت سنائے جانے کے فیصلے صادر ہورہے تھے –
میر مرتضٰی بھٹو کو ان کی غیر موجودگی میں ایک فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی – 30 جولائی 1980ء کو فوج کے فیلڈ انٹیلی جنس یونٹ -ایف آئی یو نے کمیونسٹ پارٹی پاکستان کے رہنماوں کو اٹھاکر جبری گمشدہ بنایا اور انھیں خفیہ ٹارچ سیل میں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا – 9 اگست 1980ء کو ان گرفتار رہنماوں میں سے ایک نذیر عباسی پر اسقدر تشدد ہوا کہ وہ جان کی بازی ہار گئے –
دیکھا جائے تو وہ ملک میں آمریت کے دوسرے بڑے اور ممتاز شہید کارکن تھے – ان سے قبل 4 اپریل 1979ء کو پاکستان کے سابق وزیراعظم اور بانی پی پی پی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تھی جو اس دور کے پہلے “شہید ” قرار پائے تھے –
کامریڈ عبدالحمید عرف حمید بلوچ 1959ء کو کیچ بلوچستان کے ضلع تربت کی تحصیل کیچ کے علاقے کنچتی میں انگریز سامراج اور پھر پاکستان کے نوآبادیاتی سامراجی سرمایہ دار حکمران طبقے کے خلاف سیاسی جدوجہد میں نمایاں مقام رکھنے والے ایک غریب بلوچ گھرانے میں پیدا ہوئے – ان کے دادا کو انگریز سامراج نے پھانسی کی سزا سنائی تھی –
وہ گورنمنٹ ڈگری کالج تربت میں پڑھتے تھے اور اس دوران وہ بی ایس او سے منسلک ہوئے – اپنی جوشیلی اور انقلابی تقریروں کی وجہ سے شہرت حاصل کی – یہ آزاد سوشلسٹ ری پبلک بلوچستان کے قیام کے زبردست حامی تھے –
دسمبر 1979ء کو سلطنت اومان کی حکومت نے اپنے علاقے میں “ظفاریہ تحریک ” جو اومان کو سوشلسٹ ری پبلک ریاست بنانے کے لیے سیاسی اور عسکری میدان میں سرگرم تھی کے خلاف اومانی فوج میں بلوچ نوجوانوں کی بھرتی کے لیے “تربت ” میں ایک بھرتی کیمپ قائم کیا تو بی ایس او نے اس بھرتی کے خلاف تحریک شروع کردی –
تربت کے اس کیمپ میں 9دسمبر 1979 کو عمانی فوج کے ایک کیپٹن اور دیگر عملے بلوچ کارکنوں کا تصادم ہوا جس میں عمانی کیپٹن اور چند اہلکار مارے گئے – قتل یہ الزام کامریڈ حمید بلوچ پر لگایا گیا اور اس الزام کے تحت مقدمے میں انھیں 11 جون 1981ء میں مچھ جیل میں پھانسی دے دی گئی –
کامریڈ حمید بلوچ نے اس مقدمے کی سماعت کے ایام میں بلوچ قوم کی آزادی و خودمختاری کا مقدمہ پیش کیا – ایک سال اور 6 ماہ کی قید نے کامریڈ حمید بلوچ کو نہ صرف بلوچ نوجوانوں میں “ھیرو” کا سا درجہ دے دیا بلکہ وہ ملک بھر کے جمہوری سیاسی کارکنوں اور ملک کے دیگر حصوں میں سرگرم جمہوریت پسند ترقی پسند طالب علموں میں بھی مقبول رہنما بن گئے –
ان کی پھانسی کے یوم 11 جون کو ان کا یوم شہادت پورے ملک میں عزت و احترام سے منایا جاتا رہا – یہ بی ایس او کے پھانسی پانے والے پہلے رہنماء کا اعزاز حاصل کرگئے –
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی پرواہ نہیں
کامریڈ حمید بلوچ نے مچھ جیل میں کال کوٹھڑی سے اپنی شہادت سے کوئی 8 گھنٹے قبل واحد خط اپنی بیٹی کے نام لکھا – یہ خط بلوچ قومی تحریک مزاحمت کے کارکنوں کے لئے آج بھی نظریاتی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتا ہے :
شہید حمید بلوچ کا خط اپنی بیٹی کے نام
او بلوچ
تئی زہیروارتگ، زندگیں مرگاں کن اَنت
آ مرد کے ھون ءِ بیر کن اَنت
ماہیں جناں انگار کن اَنت
ملک ءُ ڈگار ءَ چون کن اَنت
[اے بلوچ!
تیری زہریلی خاموشی، زندگی کو موت بنا دیتی ہے
تو مردوں کے لباس میں غلامی کو ڈھانپتا ہے
ماہیں (ماہِ) جنوں کو انگاروں میں تبدیل کرتا ہے
وطن اور بھوک کو نظر انداز کرتا ہے]
مجھے اس بات کا کم یقین ہے کہ میرا یہ وصیت نامہ میرے عظیم بلوچستان کے عظیم فرزندوں تک پہنچ بھی جائے گا یا نہیں، اور جس وقت میں یہ لکھ رہا ہوں میرے ارد گرد مسلح افراد ہیں۔ جو میرے ایکشن کو بغور دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت مجھے مزید آٹھ گھنٹہ زندہ رہنے کی مہلت ہے۔ اور آٹھ گھنٹہ بعد میں تختہ دار پر ہونگا لیکن مجھے اس بات پر ذرا بھی نہ پشیمانی ہے اور نہ ہی اس بات کا خیال کہ مجھے مرنے سے زیادہ زندہ رہنا چاہیے تھا کیونکہ اگر زندگی بلا مقصد ہو اور غلامی میں بسر کی جائے تو وہ زندگی لعنت ہے۔ بلوچی میں مقولہ ہے کہ؛
مردے پہ نانءَ مرایت
مردے پہ نامءَ مرایت
بلوچستان کے لیے صرف میں نے قربانی نہیں دی ہے۔ سینکڑوں بلوچ وطن کی راہ میں اب تک شہید ہو چکے ہیں۔ خود میرے خاندان میں میں دوسرا فرد ہوں جو پھانسی کے اس زنجیر کو چھو کر گلے میں ڈالوں گا اور اپنا خون اس عظیم مقصد کے لیے دوں گا جسکی نقل میرا ایمان ہے بلوچ بچے کریں گے۔ میرے خاندان میں میرے دادا کو انگریزوں نے پھانسی دی تھی یہ واقعہ 1902ء میں ہوا۔
میرا ہمیشہ میرے دوستوں سے یہ کہنا رہا ہے کہ آزادی جیسی انمول دولت بغیر خون کی قربانی سے نہیں مل سکتی۔ کم از کم میں نے کسی جگہ تاریخ میں یہ نہیں پڑھا کہ قوموں کو آزادی بغیر قربانی کے ملا ہو۔ اور آزادی کی راہ دشوار ضرور ہے مگر منزل شاید اتنا نزدیک ہے کہ میں تو اس کا خیال کر کے انتہاء کی مسرت محسوس کرتا ہوں۔ گوکہ شائد ہماری آزادی شائد میری بیٹی بانڑی جو اس وقت تین سال کی ہے اسکے زمانے میں بھی ہمیں نصیب نہ ہو۔ لیکن اس کے بچے یا میرے بھائی بیبرگ کے بچے ضرور اس منزل تک پہنچ جائیں گے۔ اس وقت میری روح کو تسکین پہنچ جائے گی۔ یقیناً میری قربانی ان عظیم قربانیوں سے کم ہوگی جو بلوچ بچے اور بلوچ قوم اپنی آزادی کے لیے دے مگر کم از کم میں نے اپنی جان دے کر صرف اپنے ساتھیوں تک یہ بات پہنچا دی ہے کہ
تو پہ سرانی گڈگ ءَ زندءِ ھیالانءَ کُشے
پہ سندگ ءَ داشت کنے پلءَ چہ بوتالانیءَ
مگر زندہ دوستوں کو جوتوں کے پلوں پر لٹکاتا ہے۔]
مجھے یقین ہے کے میرے خاندان کے تمام افراد میری موت کو خندہ پیشانی سے قبول کریں گے بلکہ اس پر فخر محسوس کریں گے مگر میری ماں زندہ ہوتی جس نے مجھے بچپن میں یہ لوری یقیناً سنا دی ہوگی کہ
اگاں پہ مردی مرئے
گڑا کایاں تئی قبرءِ سرءَ
پیراں ، دو بر ورنا باں
تئی مٹ ءَ دوبر پیدا کناں
نوکیں سرء گواپے کناں
تئی موتک ءِ بدل ہالو کناں
تو پھر کیوں تمہاری قبر پر
بوڑھے، بچے اور نوجوان آتے ہیں؟
کیوں تمہارے مٹ جانے کے بعد
دوبارہ بغاوت جنم لیتی ہے؟
نئے سروں سے چیخیں اٹھتی ہیں؟
اور تمہاری موت کا بدلہ دینے کی باتیں ہونے لگتی ہیں؟]
مجھے یقین ہے کہ میری بہنیں ، عزیز یقیناً میرے مرنے پر نوحہ نہیں کریں گے۔ میں بڑی امّی سے کہوں گا کہ وہ لوریاں یاد رکھے جو اس نے ہم سب کو سنا دیئے تھے کہ
بچ منی پلگدیں ورنا بیت
زیریت ہر ششیں ہتھیاراں
بدواہاں شکون دیم کنت
جوریں دشمناں پرام ایت
سوالوں کی تپش ہی ہمارے ہاتھوں میں ہتھیار تھی۔
ہم نے اپنی معصومیت کو دکھوں کی ہوا کے سپرد کیا،
اور دشمنوں کے بیچ، بھائیوں کی طرح جوان ہوئے۔]
میں نے ایک بہت بڑے دشمن کو شکست دینے کی ٹھانی ہے میں اس میں ناکام نہیں ہوا ہوں۔ میرے بھائی ، دوست عزیز اور میرے قوم کے بچے میری مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
میں اپنے طالبعلم ساتھیوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تم آزادی کی نعمت سے بار آور ہونا چاہتے ہو تو قربانی دینے سے پس پیش نہ کرو۔ لیکن قربانی کے ساتھ آپس میں اتحاد و یکجہتی اور متحدہ عمل نہایت ضروری ہے۔ آپس کے اختلافات سے صرف دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے اور یہ یاد رکھو کہ تمہارا دشمن بڑا مکّار ہے۔ لہٰذا اگر بی ایس او واقعی بلوچ قوم کو اس کے منزل تک پہنچانے میں رہنمائی کرے گی تو اس کے لیے آپس میں اتحاد ضروری ہے۔ اتحاد کے بغیر ہم منتشر ہونگے اور ہماری منزل مزید دور ہوگی۔
بلوچستان کی سر زمین کو سبزہ زار بنانے کیلئے خون کی آبیاری کی ضرورت ہے اور خون ہی سے “سرمگیں بولان” سر سبز ہوتا ہے۔
کپ ایت بیر ءُ
سرپ انت دنباں
سبز ایت سُرمگیں بولان
سر پر کفن باندھے کھڑی ہے،
اور بولان کی سبز و نیلی وادیاں گواہ ہیں۔]
بلوچستان کے بلند و بالا پہاڑ اور حسین میدان اس بلوچ کے منتظر ہیں جسے وہ اپنا گھر اپنا قلعہ کہتا ہے۔
کوہ انت بلوچانی کلات
انبار اِش بے راہیں گر اَنت
آپ اِش بہوکیں چمگ اَنت
بور اِش سپیت ایں چبو اَنت
بچ اِش گچین ایں گونڈل اَنت
آریپ اِش مزن ٹاپیں لڑ اَنت
جن کی چوٹیاں راستوں سے بے نیاز کھڑی ہیں،
جن کے چشمے پیاسوں کو پانی دیتے ہیں،
جن کی مٹی سفید اور چبوترے جیسے بلند ہے،
جن کے بچے گچین (پتھر) اور گونڈل (بکریاں) کے ساتھ کھیلتے ہیں،
اور جن کی گھاٹیاں بڑی ٹاپوں (بازیگروں/جنگجوؤں) کی لڑائیوں کی گواہ ہیں۔]
بلوچستان زندہ باد !
سامراج مردہ باد !
ظفاری باغی زندہ باد !
انقلاب زندہ باد !
شہید حمید بلوچ
پھانسی گھاٹ سینٹرل جیل مچھ
مورخہ 10 جون 1981ء وقت 4 بجے شام

Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں