ہائی پروفائل کیس اور طاقت کی سیاست/سائرہ رباب

آخر ایسا کیا ہے کہ ثنایوسف کی موت پر مشہور شخصیات کے فوری بیانات آ جاتے ہیں، آئی جی پولیس تک ٹویٹ کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ مگر ہزاروں مظلوم کسانوں، پسماندہ عورتوں، جبری گمشدگیوں، ، مہنگائی، ڈرون حملوں اور مذہبی اقلیتوں پر حملوں، یا بلوچ ماؤں کے احتجاج پر کوئی نامور آواز بلند نہیں ہوتی؟ آخر کون طے کرتا ہے کہ کس درد کو وائرل ہونا ہے، اور کس کو خاموشی میں دفن؟

وہ اروندھتی راۓ کہتی ہیں نا کہ

“The corporate media doesn’t just shape the news. It shapes the news that matters.”
(کارپوریٹ میڈیا صرف خبریں نہیں بناتا، بلکہ یہ طے کرتا ہے کہ کون سی خبر “اہم” ہے۔)

اس قول کی روشنی میں، ثنا یوسف کا معاملہ جس تیزی سے وائرل ہوا اور جس طرح علی ظفر، ماہرہ خان، سجل علی، صبا قمر اور تمام بری سیلیبریٹیز یہاں تک کہ پولیس کے اعلیٰ افسران نے بھی بیانات دیے یہ سب دراصل کسی سانحہ یا واقعہ کو ’acceptable spectacle‘ بنانا ہے جہاں سچائی کو تماشہ میں بدل کر اصل سماجی بحرانوں سے توجہ ہٹائی جاتی ہے۔ اور مخصوص آئیڈیالوجیز کو نارملایز کیا جاتا ہے جو طاقتوں کے حق میں ہوتے ہیں جیسا کہ Slavoj žizek کہتے ہیں

“کبھی کبھار سچائی کے لیے سب سے خطرناک بات یہ ہوتی ہے کہ وہ تماشہ بن جائے”

2020 میں سوشانت سنگھ راجپوت کی موت کو بھی کنگنا رناوت اور “گودی میڈیا” نے ایک ایسا ہی high-profile شو بنایا، جب درحقیقت اُسی دوران بھارت کی تاریخ کی سب سے بڑی کسان تحریک جنم لے رہی تھی ۔۔۔ خاص طور پر 2020 ستمبر میں نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کا آغاز ہوا تھا، جو نومبر 2020 تک زور پکڑ چکا تھا۔سوشانت کا کیس جذباتی مواد، سازشی بیانیوں، اور بولی وڈ دشمنی سے بھر دیا گیا تاکہ عوام اصل سیاسی و سماجی بحرانوں پر سوال نہ اٹھائیں۔ طاقتوں نے توجہ بھٹکا دی، اور بیانیہ اپنے ہاتھ میں لے لیا گیا ۔

سوشانت کا کیس انصاف سے زیادہ attention economy اور نظریاتی دھاروں (مثلاً: anti-Bollywood, nationalist, pro-establishment narratives) کے فروغ کے لیے استعمال ہوا۔ بالکل اسی طرح، آج مخصوص feminist یا morality-based narratives کو normalize کر کے طاقتور طبقات اپنے بیانیے کو “acceptable” بناتے ہیں۔

اصل سوال یہ نہیں کہ ثنا کی سچائی کیا ہے .. اصل سوال یہ ہے کہ کیوں ہم صرف انہی کیسز میں جذباتی ہو جاتے ہیں جنہیں طاقت خود “acceptable” بنا کر پیش کرتی ہے؟ اور دوسرے مظالم اور اہم ایشوز کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا ۔

بلکل ایسے ہی ثنا یوسف کا معاملہ بھی محض ایک فرد کا مسئلہ نہیں رہا ۔۔۔ یہ اب ایک narrative battlefield ہے، جہاں مخصوص feminist یا morality-based ایجنڈے طاقت کی سرپرستی میں normalize کیے جاتے ہیں، اور عوام کا جذباتی ردعمل دراصل طاقت کے مفادات کو مضبوط کرتا ہے۔ عوام کی توجہ حقیقی ایشوز سے ہٹوا دی جاتی ہے ۔

طاقتور طبقات جب عوامی غصے یا بیداری سے خائف ہوتے ہیں، تو وہ ایک ایسا جذباتی معاملہ اچھال دیتے ہیں جس سے سب کی توجہ ہٹ جائے۔ آج بھی جب سوشل میڈیا پر صرف وہی کیس وائرل ہوتے ہیں جو ریاستی بیانیے کو نقصان نہیں پہنچاتے، اور جب حقیقی مظلوم جیسے عام عورتیں، کسان، اقلیتیں، یا پسماندہ طبقات نظرانداز ہوتے ہیں، تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہم صرف “غلط بحث” میں الجھائے جا رہے ہیں.

جب صرف وہی کیسز ابھارے جائیں جنہیں طاقت خود “acceptable” قرار دے، اور جب ہزاروں بے آواز مظلوم خبروں سے باہر رہیں تو سمجھ لیجیے کہ انصاف کے نام پر صرف نظریاتی تماشہ رچایا جا رہا ہے۔ اس تماشے کو سمجھنا اور بے نقاب کرنا ہی اصل شعور ہے۔

julia rana solicitors

ایسے “ہائی پروفائل” کیسز کا انجام اکثر انصاف پر نہیں، طاقت کے سودوں پر ہوتا ہے جیسے نور مقدم کا کیس ہو یا سوشانت سنگھ راجپوت کا ۔۔۔ ۔ان واقعات کا اختتام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب کیس طاقتوروں کی خواہش کے مطابق “ہائی پروفائل” بنے، تو انصاف پسِ پردہ چلا جاتا ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply