تعلق اور ترکِ تعلق/ڈاکٹر اظہر وحید

ہر تعلق کی ایک وجہ ہوتی ہے، اگر وہ وجہ ختم ہو جائے تو تعلق ختم ہو جاتا ہے۔ وہ تعلق جو اللہ نے بنائے ہیں، وہ ختم نہیں ہوتے، کیونکہ اللہ کی ذات ایک ایسی وجہ ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے۔ اس وجہ کو بااندازِ تکریم وجہہ اللہ بھی کہا جا سکتا ہے … وجہ اللہ الکریم !!
اللہ نے رحم کے رشتے بنائے ہیں اور کہا ہے کہ خبردار انہیں قطع نہ کیا جائے … اللہ کے بنائے ہوئے یہ رشتے کسی حال میں منقطع نہیں ہو سکتے۔ پس! رحم کے رشتے کسی حال میں ترک نہیں کیے جا سکتے۔ اسی طرح اللہ کے لیے بنائے گئے رشتے بھی ناقابلِ انقطاع ہیں۔ میاں بیوی کے رشتے بھی تقدس کے حامل ہیں کہ اس رشتے کو بنانے میں اللہ کا نام شامل ہے۔ یہاں اللہ کے نام پر ایک دوسرے کے لبادہِ حرمت میں داخل ہونے کا اِذن ملتا ہے۔ اب اللہ کے نام کا احترام یہ ہے کہ ایک دوسرے کی عزت کا احترام کیا جائے۔ ایسے تعلق کے کمزور ہونے کی بنیادی وجہ بالعموم عزتِ نفس کی پامالی ہوا کرتی ہے۔ انسان وہاں ٹھہرنا پسند نہیں کرتا، جہاں اس کی عزت نہ کی جائے۔ بناں بریں طلاق کو جائز کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔
رحم کے تعلقات کے علاوہ باقی سب تعلقات … خواہ معاشی ہوں، معاشرتی ہوں یا پھر دینی، روحانی اور نظریاتی … ہم خود قائم کرتے ہیں۔ ان سب تعلقات کی کچھ مخصوص وجوہات ہوتی ہیں، وہ وجوہات مضبوط ہوں تو تعلقات مضبوط رہتے ہیں، وہ کمزور پڑ جائیں تو تعلقات بھی کمزور پڑ جاتے ہیں۔ تعلق کی وجہ اگر یکسر ختم ہو جائے تو تعلق بھی یکبار ختم ہو جاتا ہے۔ اس میں کچھ عیب نہیں۔ کاروباری تعلقات کاروبار ختم ہونے سے ختم ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی تعلقات بھی کسی معاشرتی مفاد کے حصول کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ وہ مخصوص معاشرتی مفاد حاصل ہوتا ہوا نظر نہ آئے تو تعلق بتدریج ختم ہو جاتا ہے۔ وہ شخص جو مادّی وجوہات سے بلند ہونے لگتا ہے، اس کے لیے معاشرتی تعلقات بھی بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے تعلقات اب نظریاتی، دینی یا پھر روحانی سطح کے ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے غیر نظریاتی متعلقین کے ساتھ حسنِ سلوک سے بدستور پیش آتا ہے لیکن اُن کے ساتھ چل نہیں پاتا۔ دینی تعلقات بھی دراصل نظریاتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ دین سے بڑا نظریہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ یوں بھی قدیم فلسفے میں مذہب کو فلسفے کی ماں کہا جاتا ہے۔ یہاں دوستی کی وجہ ایک مشترک نظریہ ہے۔ اگر دو دوستوں میں سے کوئی ایک اس نظریے سے انحراف کرنے لگے تو تعلق کمزور ہونے لگتا ہے۔ منحرف
شخص سے تعلق برقرار رکھنا، اپنے نظریے سے غداری بھی ہے۔ ایسا شخص زبانِ حال سے گویا کہہ رہا ہوتا ہے کہ نظریہ میرے لیے غیر اہم ہے، معاشی اور معاشرتی مفاد کا حصول زیادہ اہم ہے۔
واصفؒ یار دلیلیں پَے گیا
توں وی پچھے ہٹ دا جا
حدیثِ پاک میں وارد ہے: ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، تم میں ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے‘‘۔ قرآن کریم میں یہ ارشاد کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے، یہ برحق بھی ہے اور برمحل بھی۔ دراصل یہاں ایک قانونِ فطرت بیان کیا گیا ہے۔ یہود و نصاریٰ کا نظریہ ظاہر ہے، اسلامی نظریے سے متصادم ہے اور متصادم رہے گا۔ نظریاتی محارب، مقارب نہیں ہو سکتے۔ قرآنِ کریم میں یہ بھی ارشاد ہے کہ یہود و نصاریٰ تم سے اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے نقشِ قدم پر ہو بہو چلنے نہ لگو۔ گویا غیر نظریاتی دوستی کا تصور قطعاً غیر فطری ہے۔ انگریزی کا محاورہ ہے: Those who pray together stay together یعنی جو دعا ایک ساتھ کرتے ہیں، وہ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ دعا کرنا خالصتاً ایک روحانی معاملہ ہے۔ جن کے روحانی معاملات یکساں ہیں، وہ یکجا ہیں۔ قرآن کریم میں ایک جگہ یہ بھی ارشاد ہے کہ قیامت کے دن کافر حسرت سے کہے گا، کاش میں فلاں کو دوست نہ بناتا، یعنی اپنے دوست کے کہنے پر کفر نہ کرتا۔ دوست کے کہنے پر دین اور نظریہ تبدیل کرنے سے بہتر ہے کہ دین کے کہنے پر دوست تبدیل کر لیا جائے … لکم دینکم ولی دین … تمہارے لیے تمہارا دین اور ہمارے لیے ہمارا دین!
دینی نظریے کی معراج روحانیت ہے۔ روحانیت سے مراد یہ ہے کہ ایک انسان اپنے دین کی کنہ، دین کے باطن تک پہنچ چکا ہے یا پہنچنے کی جستجو میں ہے۔ یہاں دین محض ایک نظریہ نہیں رہتا بلکہ ایک نظریاتی شخصیت کے ساتھ تمسک کی صورت کر لیتا ہے۔ یہاں تعلق نظریے سے نکل ایک تجربے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ جب نظریہ تجربہ بن جاتے تو پھر انسان کسی بیرونی دلیل کی حاجت سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ یعنی اس صورت میں انسان اپنے نظریے کی خود ایک دلیل بن جاتا ہے … ایک چلتی پھرتی دلیل! … روشن واضح دلیل … ایک برہان … دلیلِ مبین!!
روحانی تعلقات میں بے رخی روح کو زخمی کر دیتی ہے۔ اگر کوئی طالب علم یہ سمجھتا ہے کہ اس سے بے رخی اختیار کی جا رہی ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے خیال کو دیکھے … کہیں اس کے خیال میں غیرِ خیال یا خیالِ غیر تو شامل نہیں ہو رہا۔ درحقیقت روحانی تعلق میں انسان اس وقت آتا ہے، جب اس کا مدعا فقط معرفت الٰہی ہو، قربِ الٰہی ہو۔ اگر اس کا مدعا تبدیل ہو جائے، کوئی مادّی مفاد اِس میں دَر آئے تو ظاہر ہے تعلق کمزور ہو جائے گا۔ مادّی در اندازی روحانی تعلق کو بتدریج ختم کر دیتی ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ اپنی محفلِ گفتگو میں کشف المحجوب سے ایک واقعہ سنایا کرتے۔ واقعہ کچھ یوں ہے، صاحبِ کشف المحجوب سیّدِ ہجویر حضرت علی بن عثمان المعروف داتا گنج بخشؒ اپنا ایک ذاتی واقعہ بیان فرماتے ہیں، کہ ہم تین دوست ایک بزرگ سے ملاقات کی غرض سے دوسرے شہر جانے کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔ ہم نے آپس میں کہا کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے دل میں کوئی سوال سوچ لے، اور پھر دیکھے کہ وہ بزرگ ہمارے دل کا حال جان لیتے ہیں یا نہیں۔ میں نے دل میں سوچا کہ مجھے قصیدہ امام زین العابدینؒ چاہیے، دوسرے ساتھی نے کہا: مجھے سجدہ کرتے ہوئے تلی میں درد ہوتی ہے، میرا یہ سوال پورا ہونا چاہیے، تیسرا کہنے لگا: مجھے صابونی حلوہ کھانے کا شوق ہے، میں دیکھتا ہوں کہ مجھے وہاں حلوہ کھانے کو ملتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ جب ہم اس بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے کہ سامنے دیوار پر قصیدہ امام زین العابدینؒ لکھا ہوا ہے، تم اسے نقل کر لو، تمہار مسئلہ حل ہوا۔ دوسرے ساتھی کو انہوں نے اپنے قریب بلا کر دم کر دیا اور کہا: لو! اب سجدے میں تلی کا درد مانع نہیں ہو گا۔ تیسرے سے کہنے لگے: تمہارا سوال بازاری ہے، تم بازار میں جاؤ، صابونی حلوے کی طلب ہو تو بازار میں جاتے ہیں۔ حاصلِ کلام یہ کہ امام زین العابدینؒ کے قصیدے کی طلب اور سجدے میں آسانی کی تمنا، روحانی ابواب تھے، انہیں قابل توجہ اور قابلِ ایجاب سمجھا گیا۔ حلوے مانڈے کی طلب بازاری تھی، اس سے سرد مہری اختیار کی گئی، اسے بازار روانہ کر دیا گیا۔ طلب صادق ہو تو مطلوب تک رسائی ممکن ہوتی ہے۔ غیر صادق طلب راستے میں گم ہو جاتی ہے۔ صداقت سود و زیاں سے ماورا ہوتی ہے، غم اور خوشی سے ورا ہوتی ہے۔
دوستوں کے درمیان وجہِ دوستی کوئی ’’تو‘‘ ہوا کرتی ہے۔ اُس ’’تو‘‘ کی طلب جب تک باقی ہے، دوستانِ حق سے دوستی باقی ہے۔ مخلص کی دوستی مخلص سے ہو گی، دنیا پرست کی دنیا پرست سے! جنس باہم جنس پرواز، کبوتر با کبوتر باز با باز۔ مخلص انسان شہباز ہے … شاہ کا باز! دنیا پرست کرگس صفت ہے … مُردار پر پلنے والا، موقع پرست … کرگس شاہ کے باز کا ہم نشیں نہیں ہو سکتا! شاہ باز اور کرگس کا تعلق واقعاتی ہوتا ہے، حقیقی نہیں۔ اس تعلق کا منقطع ہونا فطری ہے، قائم رہنا غیر فطری۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply