میں شاید یہ مختصر سی تحریر نہ لکھتا اگر کل صدف فاطمہ کے مدارس سے متعلق مضمون پر کمنٹ کرنے والے ایک محترم نے مجھے ٹیگ نہ کیا ہوتا اور انجمن ترقی اردو ( ہند) کے جنرل سکریٹری اطہر فاروقی کو عوام کے ٹیکس سے فائدہ اٹھانے والا اور اردو دشمن نہ قرار دیا ہوتا ، اور مجھے ان کا ہمنوا ۔ ساری بحث صدف فاطمہ کے اردو ادب میں شائع مضمون کے حوالے سے ہے ۔ محترمہ نے مدرسے کی زندگی کو دیکھا ہے لہذا ان کی باتوں کو ہوا میں نہیں اڑایا جا سکتا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مدارس کے فارغین میں سے بہتوں کو اردو کے خلقیے سے نسبت نہیں ہوتی ، اسی لیے جب وہ کسی یونیورسٹی یا کالج میں اردو ادب پڑھانے پر مامور ہوتے ہیں تو طالب علموں کو دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
یہ ایک مسئلہ تو ہے ، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اس مسئلے کے صدف فاطمہ نے اپنے طور پر کچھ حل پیش کیے ہیں ، ان پر کم از کم غور کیا جانا چاہیے ۔
میں بالکل نہیں چاہوں گا کہ مدارس کے طلبہ پر یونیورسٹی اور کالج کے دروازے بند کر دیے جائیں بلکہ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ یہ دروازے ان پر مزید وسیع کر دیے جائیں ، لیکن اس کے لیے انہیں تیار کرنے کی ضرورت ہے ، اور اس جانب قدم مدارس کو ہی اٹھانا ہوگا ، انہیں اپنے نصاب میں اردو ادب ، انگریزی ، سائنس اور کمپیوٹر کی جدید تعلیم کو شامل کرنا ہوگا ، یہ کہہ کر کام نہیں بنے گا کہ ہم دین اور شریعت کے ماہرین پیدا کر رہے ہیں جو انسانوں کو صراط مستقیم کی تعلیم دیں ؛ اگر ایسا ہے تو یونیورسٹی یا کسی کالج میں تعلیم لینا اور لیکچرار بننا چہ معنی دارد؟ ا
چھا تو یہی ہے کہ فارغین ماہرِ دین بھی ہوں اور ماہرِ جدید علوم بھی ، ان میں بلاشبہ یہ اہلیت ہے ۔ اب آتے ہیں اطہر فاروقی کی طرف ، مجھے نہیں لگتا کہ وہ مدرسوں کے مخالف ہیں ، انہوں نے اگر فارغین میں کوئی کمی دیکھی ہے تو اسے اجاگر کیا ہے اور اس کے اصلاح پر بات کی ہے ، ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو ان کی کچھ باتیں تلخ لگی ہوں پر سچ تلخ ہوتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ جہاں تک میں جانتا ہوں انجمن سرکاری خرچ پر نہیں چلتا اس لیے عوام کے ٹیکس پر گزارے والی بات بے تکی ہے ۔ اور رہی اردو زبان سے محبت تو یہ انجمن اور اس کے کارکنان کی گٹھی میں پڑی ہے ۔ مجھے خوب پتا ہے کہ اترپردیش سے لے کر دوسری ریاستوں تک میں انہوں نے انجمن کے پلیٹ فارم سے اردو کو اسکولوں میں دوسری یا تیسری زبان کے طور پر پڑھانے کی مہم چلا رکھی ہے، اسے اردو دشمنی کیسے کہا جا سکتا ہے ! ان سے لوگوں کے نظری اور فکری اختلافات ہوسکتے ہیں ، لیکن اردو زبان کے بارے میں ان کی فکر سے اختلاف شاید ہی کسی کو ہو ۔
میرا اطہر فاروقی سے رشتہ اردو زبان اور ادب سے محبت کے حوالے سے ہے ، بس ۔ اس تحریر کے ذریعے میں ان سے ایک استدعا کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح انہوں نے مدارس کے فارغین کے خلقیے کی بات کی ہے اردو اسکولوں پر بھی ایک نظر ڈال لیں ۔ بہت ہی بدتر تعلیم دی جا رہی ہے اور اگر میں یہ کہوں تو یقیناً غلط نہیں ہوگا کہ اسکولوں کی ایک بڑی تعداد سے اردو زبان اور ادب کو فارغِ نصاب کردیا گیا ہے ، اور طلبا اردو کے خلقیے سے کاٹ دیے گیے ہیں ۔ اس تعلق سے مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ مزید یہ کہ ہندی بیلٹ میں عجب عالم ہے اردو صرف ذریعہ تعلیم کے طور پر مدرسوں میں ہی رہ گئی ہے ، جو اردو والے کہلاتے ہیں ان کے یہاں اب فضائل اعمال بھی ہندی میں پڑھایا جانے لگا ہے ۔
بشکریہ فیس بک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں