پس و پیش لفظ/ناصر خان ناصر

یوں تو انٹرنٹ پر روشن ستاروں کی طرح کئی فورمز نمایاں ہیں ۔۔۔ مگر ہم اگر یہ کہیں کہ بزم یاران اردو ادب ان سب کا سرخیل، معتبر، گرم و سرد چشیدہ اور نمایاں گروپ ہے تو یہ دعوی کسی بھی طور “اپنے منہ آپ دھنا بائی” یا “اپنے منہ آپ میاں مٹھو” کے مترادف نہیں بلکہ حق بجانب ہے۔۔
بزم یاران اردو ادب ۔۔۔ جس کے بنیادی مقاصد میں اردو ادب کی ترویح و ترقی کے ساتھ ساتھ نئی نسل میں اردو ادب سے محبت اور اردو زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنا بھی شامل ہے۔ اس گروپ میں نہ صرف پرانے لکھنے والوں کی در افشانیوں کو جگر پارے سمجھ کر پیش کیا جاتا ہے ۔۔ بلکہ نئے لکھنے والوں کی تربیت، راہ نمائی ، حوصلہ افزائی اور دلجوئی کرنے کی بھی سعی سدید کی جاتی ہے۔ بالیقیں یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے اعلی ادبی و علمی، شیوہ بیاں، اہل قلم خواتین و روشن فکر حضرات اس مقصد کی تکمیل کے لیے یہاں اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں اور اپنی بوقلموں رنگا رنگ نگارشات پیش کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ اردو ادب کی تمام اصناف مثلا ” افسانہ، افسانچہ، فکاہیہ، انشائیہ، مکالمہ، خاکہ نگاری کے مقابلے، محافل، مذاکرے اور متعدد ایونٹز کا انعقاد کر کے مقبولیت دوام حاصل کر چکے ہیں ۔
اس بزم دلبراں، رونق جہاں کے روح رواں ہیں روشن ادا، ژرف نگاہ، دلبر مخلع محترم جناب امجد علی شاہ صاحب ۔۔۔
مجلس کے والا مقام و سر بلند اراکین میں فاطمہ عمران صاحبہ، فرحیں جمال صاحبہ، فوزیہ قریشی صاحبہ، معافیہ شیخ صاحبہ، ہما فلک صاحبہ، خرم بقا صاحب، رضا شاہ گیلانی صاحب جیسے ضیا گستر، ادب پرور، جادو بیاں و مہرباں شامل ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ مجلس شوری نے اس بزم کے برگزیدہ نورتنوں میں راقم الحروف کو شامل کر کے بہت عزت افزائی کی ہے۔۔
اس انجمن خوش مقصد و ادب پرور کے زیر اہتمام حال ہی میں ایک عظیم الشان فکاہیہ ایونٹ بعنوان “خاکہ نگاری بنام عہد یوسفی” منعقد کیا گیا، جس میں دنیا بھر سے لاتعداد مشاہیر و شائقین ادب نے اپنی جودت طبع ،وسعت مطالعہ و زور بیان کے ساتھ شرکت فرمائی۔ ان میں سے سینتیس چیدہ چیدہ، چنیدہ منتخب تحریروں کو فورم پر پیش کیا گیا۔۔۔ مزید بر بنائے فنی محاسن ان میں سے بیس اعلی تحریروں کا انتخاب اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے ۔
محترم مشتاق احمد یوسفی صاحب کی چاہ میں ڈوبے ان کے دنیا بھر میں پھیلے ارادت مند قلم کاروں نے گویا چاہ یوسفی سے “آب گم” یعنی حیات بخش کے دھارے دریافت کرنے کی سعی ناتمام کی ہے جو در حقیت ان کے روشن “چراغ تلے” اندھیرا کی حیثیت رکھتی ہے۔۔؟۔ مگر ہم اپنی اس حقیر سی کاوش کو عالی مقام و صاحب “شام شعر یاراں” و “زرگزشت” کے حضور میں بطور ہدیہ عقیدت اور پیام تہنیت پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں ۔۔۔۔ آفریں باد، بر اے ہمت مردانہ تو!
آپ بیتی دراصل داستان گوئی  ہی کی ایک ارفع شکل ہے۔ اس آئینے میں ہر کسی کو اپنی پاکھنڈیاں بھی پاکیزگی کا سولہ سنگھار، بارہ ابھرن کئے، ایک سو اکاسی زیورات سے بنی ٹھنی، خوبیوں کی رنگ برنگی چولیاں پہنے، دلہنیں نظر آتی ہیں۔ انسان خوش بیان ( اپنی تخلیقات )پر مفروضات و تجربات کا “رنگ”، محسوسات اور مشاہدات کا ” غازہ “، نظریات اور اخلاقیات کی” پالش”، حالات اور واقعات کا ” آمیزہ ” ملا کر خود کو اور دوسروں کو صاف”چٹا سفید” دھوکہ دے سکتا ہے، وہ اپنی جادوبیانی سے روتوں کو ہنسا دیتا ہے اور ہنستوں کو رلا ۔۔ اسی قسم کی چنیدہ اور “کشیدہ” آپ بیتیوں کا یہی کسب کمال سمجھ کر انہیں “حلال” فرمائیے گا۔
محترم مشتاق احمد یوسفی کی ذات یا ان کی گراں قدر تخلیقات پر گفتگو کرنا ہمارے لیے “چھوٹا منہ اور بڑی بات ” ہے ۔
اطناب شرار جستہ کو “إطناب و ایجاز” دے کر اصابت خوش کن ، اصالت ان کی تحریروں سے عیاں ہے۔یہ انشا پردازی کا نقیب، افتخار شگفتگی کا طبیب، جودت لطیف کا افراسیاب، شگفتگی و انبساط میں جہاں افروز، شوخی طبع میں دلاور ہو کر ایسی خوش بیانیاں، روح افشانیاں، خندہ گمانیاں اور معجزاتی ضو فشانیاں کرے ہے کہ پرانے مردوں کی سماعتیں بھی کلمہ ء تحسین پڑھتے ہوئے جاگ اٹھتی ہیں ۔۔ ان کی طبع سلیم، ایسے حروف شگفتہ کے کشتہء زعفرانی اور سودائے خوش بیانی کو بغیر ماپے تولے ، نکھ قیمت ادا کرکے خریدنے کے لئے تیار اور اکوتا کرنے پر مصر ۔۔
یاس و حرماں میں ڈوبے ہوئے چہروں کو ہنسی کی روشنی سے جگمگا دینا بھلا کوئی قبلہ یوسفی صاحب سے سیکھے۔۔۔ ان جیسا اکتساب خوش طبع، اکتشاف مزاح، کرنے والا اگواکار اور تخلیق کار سچ کہوں تو اکناف و اطراف میں الشاذ کالمعدوم ہے۔ قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید۔۔۔ کحلء البصر، کل الجواہر بنی،عزوبت شریں سے معمور، ممتنع الجواب، شگفتہ، شستہ اور برجستہ تحریروں کے بقول شخصے عالم رویا تک چاروں کھونٹ نقارے دمامے باج گئے۔ دریائے نربدا سے نکلنے والے سنگ شجری سے زیادہ خوش نما الفاظ سے مزیں، فصیح البیان، آب کوثر سے دھلی، کوثر و تسنیم سے نتھاری، آب گنگ و جمن سے گزاری شوخ و شنگ زبان خوش بیاں جو آپ کے قلم سے سرزد ہوتی ہے، زمانے بھر ہے ہے کوئی  مائی  کا لال جو ویسا لکھ سکے؟۔ جسے پڑھ کر ہنستے ہنستے آنکھ میں آنسو بھر آئیں، پیٹ میں بل پڑ جائیں اور انسان دہرا تہرا ہو کر فرش پر لوٹنے لگے۔ قبول خاطر و لطف سخن خدا داد است۔۔۔
چشم نارسا کے لیے بینائے ترنم اور کان کج ادا کے لئے شنوائے تبسم بنی، ہنگامہ حب خوش طبع سے چو شعلہ ہائے شوخ و شنگ منور کرتی ان پارس انشا، عدیم النظر تحریروں کا حسن الم نشرح ہے اور چھوئے سے طشت از بام ہوتا ہے۔ ایسی سلاست بیاں شگفتگی، فقرہ برجستہ تازگی، منہ سے ابلق موتی اور پھول جھڑتی پاستان طرازی، داستان آمیز شوخی و شنگی بھلا اور کسی قلم میں ہے؟۔ جوہر جودت طبع کی لمعانی، فکر و نظر کی فراوانی، تفریح طبع کی درخشانی، بافندگان حرف و حکایت کی روانی، فکر سلیم انسباط جولانی، مجسم شعلہ بیانی اور آخرت ۔۔۔صناعت تبسم بنی کہانی جو نکتہ چیں اے غم ،دل کی بات پر ایسی بات بنائے کہ شاید وباید۔۔۔ یکے یوسف ہزار خریدار کی ضرب المثل کو نئے معنی و آہنگ عطا کرتی ہے۔
زندگی بھلے مصور غم علامہ راشد الخیری کی لکھی کوئ کہانی ہو یا شانتا رام کی غم و الم میں پور پور ڈوبی فلم۔۔۔محترم یوسفی صاحب کے موقلم سے بنائی  تصویریں اس اداسی بھرے رنگ میں بھنگ ڈالنے پر مکمل قادر ہیں۔۔۔۔ اور کچھ ایسے ویسے۔۔۔؟۔ بات دبی دبی مسکراہٹ سے شروع ہو کر چٹکی بجاتے میں فرش پر لوٹیاں لگانے تک کے مراحل طے کرتی ہے اور منٹوں سیکنڈوں میں ساری کلفت، رنج و الم اداسی نچوڑ کر پرے پھینکتی، روح کو بالیدگی اور چہرے کو شگفتگی عطا کرتی ہے۔ شنیدن ہے کہ ایمکس کریم رنگ گورا کرنے اور شادیاں کروانے کا ” مخرب ” نسخہ تھی، محترم یوسفی صاحب کی کتابیں بھی گالوں پہ گلابی اور باتوں سے چاند چڑھانے کے لئے مجرب ہیں۔ ماتھے سے آسمان تلک چڑھی تیوریاں ہونٹوں پر بنا نقطے “پ” بنا کر لا بٹھانے کا شاید اس سے آسان نسخہ کوئی نہیں ہے۔
دور کیوں جائیے، چند برس قبل بزرگوارم قبلہ و کعبہ صاحب فراش اور مبتلائے مرض قضا تھے۔۔۔ غصہ، بلڈ پریشر اور شوگر ہمالیہ کی چوٹی تک چڑھے تھے۔ ننگی تلوار اور مجسم اداسی بنے بزرگوارم کا اضمحلال پژمردگی دور کرنے کی کوئ ترکیب کارگر نہ ہوتی تھی، فکر فردا میں غلطاں و پیچاں آخر ہمیں ایک تدبیر سوجھ گئی۔۔ سوت کی انٹی اور یوسف کی خریداری۔۔۔ ہم نے انھیں محترم یوسفی صاحب کی آب گم میں سے “آخری مشاعرہ” نسیم جانفزا، شمیم دلکشا با آواز بلند کیا سنایا۔۔۔۔ وہ تو بستر مرگ سے ہی ترنت اٹھ بیٹھے اور ہنستے ہنستے پیٹ پکڑ لیا۔۔۔۔
حکومت “ابن الوقت” کو چاہیے کہ اطال اللہ عمرہ’ محترم یوسفی صاحب کی تمام تحریروں پر قبرستان لے کر جانے پر مکمل پابندی لگا دے۔۔۔ مبادہ ان کی تحریر خوش تدبیر سن کر مردے ہنستے ہنستے زندہ اٹھ کھڑے ہونا نہ شروع ہو جائیں۔۔۔
عزت ماب محترم غنی غیور صاحب کی کرشمہ ساز استادی فن کا اعتراف اور بے تہاشا محبتوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے الفاظ کہاں سے لائیں؟ کہ کٹھل روڑوں کو تراش کر ہیرہ خیز بنانا ان کی صفت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply