سسکتا ہندوستان، دم توڑتی جمہوریت۔۔نازش ہما قاسمی

 ملک کا 69واں یوم جمہوریہ گزر گیا، ہم نے مدرسوں پر ترنگا لہرا کر حب الوطنی بھی ثابت کردی۔ ۔۔آزادی کے نغمات گاکر ملک سے بے پناہ محبت کا اظہار بھی کردیا۔ ۔۔اور یہ سب کرنا بھی تھا، کیونکہ ہم سچے محب وطن ہیں، ہم نے آزادی کیلئے بیش بہاقربانیاں پیش کی ہیں، ہمارے دلوں میں آج بھی ہندوستان دھڑکتا ہے۔ ۔۔لیکن آزادی کے بعد سے آج دوہزار اٹھارہ تک صرف مسلمانوں سے ہی حب الوطنی کا ثبوت مانگا گیا، مسلمانوں سےہی یہ بے ہودہ مطالبہ کیاگیا کہ اپنی حب الوطنی ثابت کریں ۔۔۔۔

وہ جو آزادی ہند کے سرخیل رہے ہیں، جنہوں نے انگریزوں کو ملک چھو ڑنے پر مجبور کیا تھا، جنہوں نے اپنا سب کچھ اس دیش کیلئے قربان کیا تھا،ان کی اولادوں کو ہی ملک کے تئیں وفاداری کا ثبوت پیش کرنا پڑ رہا ہے، اور جنہوں نے انگریزوں کے تلوے چاٹے،انگریزوں کو گارڈ آف آنر پیش کیا۔ انگریزوں کی فوج میں شامل ہوکر آزادی ہند کے سربراہان سے لڑے وہ ملک کے وفادار کہلائے جارہے ہیں، جس نے آزادی ہند کی خاطر اپنی جانیں تیاگ دیں، جنہوں نے پھانسی کے پھندوں کو دیوانہ وار چوما۔ ۔۔جن کی لاشیں مسجدوں میں بے گوروکفن پڑی رہیں ۔ ۔۔انہیں غداروطن قراردیا جارہا ہے،ان کی تاریخیں مسخ کردی گئی، ان کا مذاق بنایا جارہا ہے، ان پر الزامات کی بارش کی جارہی ہے۔۔۔

آج ملک میں سب سے زیادہ مسلمان پریشان   ہے، آزادی کے بعد سے مسلسل مسلمان ہی آزاد ی کی سزا بھگت رہا ہے،ہر طرف سے مسلمانوں کیلئے دائرہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔۔۔۔کیا اسی لیے انہوں نے انگریزوں سے لوہا لیا تھا ؟ کیا اسی لیے انہوں نے گاندھی جی کی حمایت کی تھی ؟ کیا اسی لئے انہوں نے جیلوں کو آباد کیا تھا ؟ کیا اسی لیے انہوں نے تختہ دار کو چوما تھا ؟ گاندھی جی کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر ملک کے چپہ چپہ میں انگریزوں کو للکارا تھا،کیا اسی دن کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا،نہیں ہرگز نہیں ! انہوں نے سپنے سجائے تھے، انہوں نے خواب دیکھا تھا کہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب بحال رہے، کثرت میں وحدت قائم رہے۔ ۔۔شام اودھ کی رنگینی بحال رہے۔ ۔۔صبح بنارس کی تاب رہے۔ لال قلعہ پرشکوہ رہے۔۔۔تاج محل حسین یادگار رہے۔۔۔قطب مینار اپنی عظمت بیان کرتا رہے۔۔۔لیکن وہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا، تقسیم ہند کے ذمہ داروں نے الٹے چور کوتوال کو ڈانٹنے کے مصداق مسلمانوں پر ہی تقسیم کا الزام لگایا۔۔۔۔انہیں دوسرے درجے کا شہری بنادیا۔تمام مراعات ان سے چھین لی گئیں ۔

ان کی املاک تباہ وبرباد کردی گئی،فسادات کے ذریعہ مسلمانوں کی کمر توڑ دی گئی۔۔۔اگر انہیں اس بات کا علم ہوجاتا کہ ہماری نسلوں کے لیے ہندوستان محفوظ نہیں رہے گا، اگر انہیں جنونی فرقہ پرستوں کی چیرہ دستیوں کا ادراک ہوجاتا تو کبھی جنگ آزادی میں اپنی جان دے کرملک کواپنے خون سے گلزار نہ کرتے۔۔۔ایسے وقت میں اب جب کہ جمہوریت کا جنازہ اٹھ رہا ہے۔۔۔ قومیں ایک دوسرے سے بھڑچکی ہیں ۔ ۔۔ایک دوسرے کی جان کی پیاسی ہوگئی ہیں ۔ ۔۔لوجہاد، گئو کشاکی آڑ لے کر منظم بھیڑ مسلمانوں کو مار رہی ہے۔۔۔مسلمانوں کی شریعت پر حملہ کیا جارہا ہے، فرقہ وارانہ فسادات کراکر معیشت برباد اور نسلوں کو ختم کیا جارہا ہے تو ہمیں کیاکرنا چاہیے ؟ کیا اب بھی ہم گئو رکشک کے شکار ہوتے رہیں گے؟ کیا اب بھی لوجہاد کے شکار ہوکر کسی شنبھو لال کے ذریعے جلائے جانے کا انتظار کریں گے؟۔

نہیں اب ہمیں سوچنا ہوگا۔۔۔بلکہ جلد ہی سوچنا ہوگا۔ ۔۔اور اس سوچ کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ ۔۔۔مسلکی اتحاد کوفروغ دینا ہوگا اور امن کے دشمن کو سبق سکھانے کے لیےکمر بستہ ہونا ہوگا۔ ۔۔ملک میں بہت بڑی آبادی برادران وطن کی ایسی بھی ہے جو ملک کی گنگا جمنی تہذیب پر یقین رکھتے ہیں وہ ہمارا ساتھ ضرور دیں گے، امن کے مندر کو بچانے میں ہماری حمایت ضرور کریں گے، اب جبکہ فرقہ پرستوں کے عزائم ۲۰۱۹ قریب ہیں اور فرقہ پرست بھگوا ٹولہ پرامید ہے کہ ہم اسے آسانی سے اس ہدف کو پار کرکے ہندوستان کو ہندوراشٹر میں تبدیل کردیں گے۔ اگر وہ کامیاب ہوگئے تو شام اودھ صبح بنارس کا نظارہ کھوجائے گا۔ ۔۔ہر طرف فرقہ پرستوں کا راج ہوگا اور ہم دبے کچلے پچھڑے ہوئے رہ جائیں گے، پھر ہماری آواز میں وہ طاقت نہیں ہوگی۔۔۔ وہ جذبہ نہیں ہوگا۔۔۔۔ اسی لیے ہمیں ان کے عزائم کو خاک میں ملانا ہوگا۔ ہمیں تمام تر سیکولر طاقتوں کے ساتھ اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ہے، ابھی بہت دیر نہیں ہوئی ہے، ملک کے دانشوران آج بھی اس حالت سے کبیدہ خاطر ہیں، انہیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ ہمارا وہ ہندوستان جس کی شناخت تنوع تھی، کہیں کھوگئی ہے۔۔۔ہمارے ملک کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔۔۔ کل تو جو ایک دوسرے کے سکھ دکھ کے ساتھی تھے، آج دشمن بنتے جارہے ہیں، کمزور طبقات کو ہر سمت سے کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے، حقائق کو چھپانے اور انہیں مٹا نے کیلئے گھٹیا سیاست کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ الیکشن جیتنے کے لیے ’اللہ اور رام ‘ کا سہارا لیاجارہا ہے۔ ایک جانب اپنے حق کی خاطر بولنے والوں پراور سچائی بیان کرنے والوں پر قدغن لگایا جارہا ہے تو دوسری جانب چند سر پھرے مارنے کاٹنے کی بات کررہے ہیں، اور انہیں کوئی بولنے والا نہیں ہے، ان کے خلاف قانون،عدلیہ حکومت سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، ایسے وقت میں ہم سب کیلئے ضروری ہے کہ ہم پھر سے اس ہندوستان کی تلاش کریں جسے گاندھی، نہرو اور ابولکلام آزاد نے بسایا تھا، جسے علامہ اقبال نے سارے جہاں سے اچھا قرار دیا تھا، جو کبھی سونے کی چڑیا تھی، ہمیں وہ ہندوستان تلاش کرنا ہے، جہاں شہید اشفاق اللہ خان اور شہید بھگت سنگھ کے گیت گائے جائیں، جہاں امن کا مندر ہو، جہاں کی ہر صبح پرسکون ہواور جہاں کی ہرشب، شب بخیر ہو۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply