رسول بخش پلیجو کے نام۔۔ جن کی برسی منائی جاتی ہے 7 جون کو۔ میرے لئے بڑا مشکل ہے کہ میرا جو تعارف پلیجو صاحب سے ہوا۔،اس وقت میں خاصا کم عمر تھا، اور چیزوں کے بارے میں اتنی بلوغت بھی نہیں تھی ۔ اتنی پختگی نہیں تھی سوچ میں ،بلکہ میں ایک بات کہوں گا کہ ۔۔۔۔ نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن میں کام کرتا تھا۔ کالج کا زمانہ تھا ۔ میں آپکو وہ بتا رہا ہوں جو میری سندھی قیادت کے بارے میں رائے تھی۔ اور ایک موقع پر جب قائد اور رہنما معراج محمد خان ، پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہونے ۔ اور اس کے بعد، اسی دوران میں میر رسول بخش تالپور صاحب نے بھی پیپلز پارٹی چھوڑ دی ۔ اور تالپور صاحب نے ایک پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا اور ہم معراج محمد خان کے ساتھ تھے تو اسٹوڈنٹس کی طرف سے میں علی خاقان مرزا اور بہت سارے لوگ ہم کراچی سے میر ٹنڈو خان حیدر آباد گے ۔ جہاں پر میر رسول بخش پلیجو نے اپنی نئی پارٹی کا اعلان کر نا تھا۔ تو مجھے یاد ہے کہ پنڈال میں ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔ مہمان کی حیثیت سے ، نئے نئے طالب علم کہہ لیں یا کارکن، یا سیاسی ورکر ۔ وہاں پر بہت سے سندھی قوم پرستوں نے۔ اسٹوڈنٹس نے تقریریں کیں ۔ جن کا تعلق اسٹوڈنٹ ونگ سے تھا۔ ان کی تقریریں بڑی شعلہ بیانی پر مشتمل تھی ۔ بالکل کسی بات کا لحاظ کیے بغیر کے وہاں پر بہت سے لوگ ، نان سندھی ، بھی بیٹھے ہیں ۔ بلکہ آجکل ایک نئی ٹرم یوز ہو رہی ہے ، اُردو اسپیکنگ سندھی ۔ میں نے دیکھا کہ وہ بہت اشتعال انگیز تقاریر کر رہیں ہیں کہ ان کو نکالا جائے ، ان کو دریا میں ڈبو دیں گے ہم اور ان کو ہم یہ کر دیں گے مطلب بہت زیادہ شدت سے لگے ہوئے تھے ۔ تو یہ میرا زمانہ طالبعلمی کا امپریشن تھا۔ پھر خبریں بھی آتی تھی کہ اردو اسپیکنگ سندھی پر اٹیک ہو رہا ہے ، ان کا استحصال ہو رہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ پھر بعد میں جب پختگی آئی ، سمجھ آئی یہ معاملات کیا ہیں تب میرا کچھ اور امپریشن تھا کہ یاد یہ جو سندھ کے لوگ ہیں بہت نفرت کرتے ہیں ۔ ہم اپنے اندر اتنی نفرت کسی قوم، زبان علاقے کے لوگوں کے لیے پیدا نہیں کر سکے اور یہ اچھا ہی ہوا کہ ہمیں ان سے ہمدردی تھی اور ان کے مسائل سے جڑے ہوئے بھی تھے ، اور ان کے لیے آواز بھی اٹھاتے تھے ، اور ہم اس نفرت کا شکار نہیں ہوئے، جو نفرت اس حیدر آباد گے جلسے میں دیکھی۔ تو اس کے بعد یہ ہوا کہ جب 1978 میں غالباً جب صحافیوں پر گولی چلی۔ صحافیوں کی تحریک چلی ، تب صحافی اتنے زیادہ نہیں تھے، اور ان کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ ضیاء الحق کے خلاف یہ تحریک کتنے عرصے تک چلے گی۔ اس لیے لیڈروں نے فیصلہ کیا کہ صحافیوں کے ساتھ ایک صحافی ، ایک طالب علم ، ایک مزدور ، اور ایک کزن کو گرفتار کر لیا جائے ، تا کہ تحریک کو لمبا کیا جائے اور ہوا بھی ایسا ہی کو کچھ مہینے وہ تحریک چلی اور ضیاء الحق کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور صحافیوں کے مسائل جس حد تک ہو سکتے تھے حل ہوۓ۔ اس تحریک کے دوران میں دوسرا طالب علم تھا جس نے گرفتاری دی تھی ، اور ہمارے ساتھ مزدور بھی تھے ، کسان بھی تھے مطلب ہم گرفتار ہو کر آہستہ آہستہ جیل پہنچ گئے ۔ جب ہم جیل پہنچے تب تک وہاں کوفہ کسان گرفتار ہو کر جیل آ چکے تھے ۔ وہاں ہر آدمی کایہ خیال تھا کہ جس طرح کسی وڈیرے کے مزارعے ہوتے ہیں ، کام کرنے والے ، ان لوگوں کو کہا گرفتاری دو تا کہ تحریک کو آگے بڑھایا جا سکے، ہم یہ امپریشن لے کر دوستوں سے ملتے تھے ، لیکن میں حیران اس وقت تہ گیا۔ جب رات کو بیرکس بند ہونے کے بعد ہم بیٹھتے تھے اور بیٹھ کے مختلف موضوعات پر بات کرتے تھے۔ اپنے سینئیرز سے بات کرتے ان سے سیکھتے۔ سب سے زیادہ نظریاتی باتیں ، تجرباتی باتوں کو جاننے والے اگر کوئی تھے تو وہ کسان تھے ۔ ہم تو ان کو بہت جاہل سمجھتے تھے کہ پتہ نہیں کہاں سے اٹھا کر شامل کر دیا ہے ۔ میں حیران ہوا ، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ تب جیل کے اندر جیسے کھلبلی مچ گئی تھی تمام سیاسی کارکنوں میں کہ یار یہ جو دیہی سندھ سے آنے والے کسان ہیں ، جو گرفتاری دے رہے ہیں یہ تو ان پڑھ ہیں لیکن نظریاتی طور پر ہم سے کہیں زیادہ ہیں ۔ ان کو جتنا علم ملکی ، قومی سیاست کا ہے یا بین الاقوامی سیاست کا ہے تو کم میں کسی کے پاس نہیں ہے ۔ تو وہ یہ پہلا امپریشن تھا۔ پھر یہ تجسس ہوا کہ یہ کون لوگ ہیں ، کہاں سے آئے ہیں ، تو پتہ چلا کہ جناب یہ سندھی عوامی تحریک ، جو پلیجو صاحب کی قیادت میں قائم تھی یہ ان کے کارکن ہیں۔ آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پلیجو صاحب کی شخصیت کی بلندی اور عظمت کا اعتراف یہاں سے چلتا ہے کہ انہوں نے کس قدر کام کیا تھا اور یہ ہمارا جو اسٹڈی سرکل تھا یقین کریں اس نے ایسا زبردست امپریشن میرے زہن میں قائم کیا پلیجو صاحب کے بارے میں جو میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔ تو مجھے جستجو ہوئی کہ میں کسی طرح پلیجو صاحب سے ملوں، دیکھوں ، اٹھوں، بیٹھوں ان کے ساتھ ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اگر میں غلط نہیں ہوں تو شاید اس کے بعد آنے والی جیل میں میری پلیجو صاحب سے کئی ملاقاتیں ہوئیں ۔ کراچی جیل میں اور میں نے کئی سوالات پر بہت سارے ایشوز پر باتیں کیں اور جو میرا امپریشن تھا سندھ کے سیاستدانوں کے بارے میں وہ یکسر تبدیل ہو گیا۔ اور اس دوران میں مجھے یاد پڑتا ہے کہ ان کا ایک سوتیلا بیٹا بھی ہمارے ساتھ جیل میں تھا۔ پرویز نام تھا ان کا۔ اس کی اور میری بہت دوستی ہو گئی تھی ۔ وہ بہت زبردست سیاسی ورکر تھا مطلب معلومات اور علم کے اعتبار سے ۔ علم کے اعتبار سے میرا نہیں خیال کہ پاکستان میں یا کہیں بھی پلیجو صاحب کی پارٹی کے ورکرز ، عورتیں یا بچے ان سے زیادہ کوئی با علم نہیں تھا اور نہ آج تک ہے پاکستانی سیاست میں، میں سمجھتا ہوں ۔ اور پلیجو صاحب سے میں نے کئی سوالات پوچھے اور بہت کچھ سیکھا ، ان کی باتیں جب وہ بولتے تھے ایک سحر طاری ہو جاتا تھا ، ان کی آواز میں کہیں سے بھی کوئی نفرت نہیں جھلکتی تھی، مطلب بعض اوقات انسان سیاست میں ایسی باتیں کہہ دیتا ہے جو کہ شاید ان کے اپنے علاقے کے لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے ۔ جیسے سید صاحب کی سیاسیت قطعی قوم سے جڑی رہی، ان کے ساتھ جو ہوا اس کے بعد ان کی اپرووچ ہمیں نیگیٹو ہی رہی۔ جب کہ پلیجو صاحب نے شروع سے لے کر آخر تک بہت گہری تنقیدیں بھی کیں لیکن ان کی ہر تنقید میں ایک تعمیل نظر آتی تھی وہ کبھی بھی نہ ہی سندھ کو بانٹنا چاہتے تھے اور نہ ہی وہ قومیتوں کے سوال کے اوپر کسی سے نفرت کرتے تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ سندھ کی قومیت کا سوال ہمارے ملک کو تمام قوموں سے جڑا ہوا ہے اور اس سے بہتر کیا بات ہو سکتی ہے ۔ یہی تو فلسفہ ہے، جو ہمیں قریب کرتا ہے، آج دنیا بھی اس بات کی وضع ہے کہ یہ جو موقف تھا درست تھا کہ دنیا آنے والے وقت میں ایک ہو جائے گی ۔ آہستہ آہستہ قوم کا جو معاملہ ہے وہ بین الاقوامی رنگ اختیار کر لے گا اور آہستہ آہستہ یہ ہو رہا ہے ۔ تو سندھ میں جو لسانی، جو نفرت کی فضاء ، پراپیگنڈہ جو ہمارے پاکستان میں ہے اب۔ جو بنگالیوں کے خلاف ایک سازش ہوئی ، ہمیں بنگالیوں سے نفرت کروائی گئی ۔ ہمیں بتایا گیا کہ بنگالی چور ہوتا ہے۔ کسی قابل نہیں ہوتا ، چھوٹے قد کا ہوتا ہے ، یہ تو باورچی ہے۔ لیکن بنگلہ دیش آج بھی ان ممالک میں ہے جہاں ایک بڑی تعداد میں لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں ، خواندگی کی شرح بہت زیادہ اوپر ہے اور ان کی ترقی دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے ساتھ ایک عرصے تک بہت ظلم ہوا، جس کی وجہ سے وہ بہت پیچھے رہ گئے ورنہ وہ آج بھی بہت آگے جاتے۔ ہہی حال ملک کے اندر ہے جیسے ہمارے پلیجو صاحب کہتے ہیں کہ پنجابی اسٹبلشمنٹ اور مہاجر ایلیٹ نے سازش کی ان قوموں کے خلاف جو ذہین ہیں یا کچھ کر سکتی ہیں یا جن سے تواقع کی جا سکتی ہے انقلاب کی ۔ ان کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جائے اور یہ سازش اس وقت سے جاری تھی، جاری رہی جس کی بنیاد پر سندھ کے متعلق نیگیٹو پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا ۔ کہ سندھی یوں ہوتا ہے۔ بہت ہی کام چور ہوتا ہے ، فوج میں نہیں جانا چاہتا ، لڑ نا نہیں چاہتا ۔ جبکہ جتنا علم، سندھی کسانوں کو دیکھ کر کے، عورتوں کو دیکھ کر کے، آج بھی جو ان کی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آ رہی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک پراپیگنڈہ تھا اور پلیجو صاحب ان چند سندھی رہنماؤں میں سے ہیں جنھوں نے ملکی طور پر بھی ، بین الاقوامی طور پر بھی ، دوسری قوموں کے سامنے ، چاہے وہ پنجابی ہو، وہ اردو اسپیکنگ ہو، ان کے سامنے اپنا مقدمہ رکھا، اور میں سمجھتا ہوں کو بڑی حد تک وہ اس میں کامیاب رہے، اور انھوں نے باور کروا دیا کہ سندھی لوگ اگر اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو ان کی بات کسی بھی قوم، علاقے یا صوبے سے نفرت نہیں ہے ۔ بلکہ وہ واحد رہنما ہیں جنھوں نے عملی طور پر ثابت کیا کہ سندھ کے ساتھ ساتھ کون کون سی نا انصافیاں ہوئیں ہیں ، اور کب کب ہوئی ہیں ، کیسے کیسے اور کس طرح سے ہوئی ہیں ، انگریز اس سلسلے میں بہت شاطر تھا، اسے معلوم تھا کہ کون سی قومیں ذہین ہیں اور کون سی قومیں ایسی ہیں کہ جن میں پاٹینشل ہے۔ اگر آپ تاریخی طور پر دیکھیں تو انگریز نے ہمیشہ ان قوموں کو پسند کیا ہے ، تعریف کی ہے جو لوگ ان کے کام آ سکتے تھے ، جو یا سر بول سکتے تھے ، انکو انھوں نے آگے بڑھایا ، ان کو شاندار اور بہادر نسل قرار دیا۔ جو گروپ ذہین تھے ، جو بات کر سکتے تھے ، اس کی انگریز نے ہمیشہ حوصلہ شکنی کی، اور یہ بات باور کروانے میں پلیجو صاحب کامیاب رہے ۔ آپ نے پورے خطے میں قومی سیاست کی، میرے نزدیک پلیجو صاحب کی یہ legacy ہے جس کو ہائی لائٹ کیا جانا چاہیے ۔ صحیح معنوں میں سندھ کے مسائل کے حوالے سے اگر دیکھیں تو پلیجو صاحب کا بہت رول ہے، انھوں نے بتایا کہ سندھ کے ساتھ صدیوں سے کیا کیا ہو رہا ہے ، اور سندھ میں اصل ہیرو کون ہیں ۔ اور پراپیگنڈہ کر کے جو ہماری شناخت تھی اس کو بالکل تبدیل کر دیا گیا ۔ اس کا اگر کسی نے مقابلہ کیا ہے تو وہ رسول بخش پلیجو صاحب ہیں ، اور یہ بات ، کریڈٹ آنے والی نسلیں ان کو دیتی رہیں گی، اور میں سمجھتا ہوں کہ پلیجو صاحب کئی چیزوں میں یونیک حیثیت رکھتے تھے ، انھوں نے اردو ادب پڑھ رکھا تھا ، فارسی ، عربی اور انگریزی ، وہ مختلف زبانیں جانتے تھے ۔ پوری دنیا میں انھوں نے سندھ کیس کی وکالت کی، اگر تاریخ کو دیکھا جائے تو انڈس سویلاءزیشن ہماری بنیاد ہے، اور ہزاروں سال پہلے بھی ہم آرگنائزڈ اور با علم لوگ تھے ۔ رسول بخش پلیجو کو ایک سندھی قوم پرست لیڈر یا سندھی قومی حیثیت سے نہیں دیکھا جانا چاہیے ۔ وہ پاکستان کے انتہائی معتبر ، با علم، با کردار سیاسی رہنما تھے ۔ پاکستان میں مختلف قومیں بستی ہیں ، مختلف صوبوں میں رہتی ہیں ، ان سب کا اتحاد آنے والے وقتوں میں ایک قوم کی تخلیق کر سکتا ہے ، قومیں بنتی رہتی ہیں ۔ اس حیثیت سے ہمارے ملک کے ایک بڑے سیاستدان ایک معتبر سیاست دان کی حیثیت سے جانا اور پہچانا جائے گا ۔ میرا خراج عقیدت ہے ان کو اور میں سمجھتا ہوں کہ مجھ جیسے سیاسی کارکنوں کو انھوں نے اپنی آواز سے، اپنی تحریروں سے ، اپنی با توں سے تبدیل کیا ہے ، انھوں نے سندھ کے وڈیروں کے خلاف تحریک چلائی ۔ وہ نظریاتی آدمی تھے ۔ انھوں نے ثابت کیا کہ اپنے گھر سے اس کا آغاز کیا جائے ، اور بہت سی جگہوں پر یہ بات بار بار کہی جاتی ہے کہ انھوں نے اپنے گھر کی عورتوں سے اس کا آغاز کیا ، بچوں سے۔ ان کو میدان میں لے کر آئے ۔ اور ان کو بتایا کہ ہم یہ نہیں ہیں کہ سیاست ہم کیا کریں اور سارا گھر بند رہے وہ اپنے ایک ایک فرد کو سڑک پر لائے اور آپ آج دیکھیں سندھ عوامی تحریک ایک بڑی تحریک ہے۔ پھر اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا کہ آگ کسی کو تباہ کیا جائے تو وہ رسول بخش پلیجو صاحب کی تحریک ہے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی سے ان کو اتنا ڈر نہیں تھا ۔ ان کو لگتا تھا کہ ہم ان کو سنبھال سکتے ہیں کیونکہ ادھر وڈیرے اور جاگیردارنہ لوگ تھے ۔ لیکن ان کو جو ڈر لگتا تھا وہ ان سے لگتا تھا جو عوامی سطح پر کام کر رہے تھے ، ان کو ہر جگہ سے عزت مل رہی تھی ۔
آنے والی نسلیں رسول بخش پلیجو صاحب کو ہمیشہ یاد رکھیں گی ایک قومی ہیرو کے طور پر ، ایک قومی رہنما کے طور پر اور لاکھ اختلافات ہو سکتے ہیں ، چھوٹی موٹی باتیں ہوں ، لیکن ان کی عزت ، ان کا مقام ہمیشہ قائم رہے گا۔ یہ میرا خراج عقیدت ہے ان کو ۔
(لکھاری، اکرم قائم خانی لنڈن میں قیام پزیر ایک متحرک پاکستانی ہے جو برصغیر کے سماجی، سیاسی اور کلچرل سرگرمیوں کےلئے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے۔ یہ ریکارڈنگ سندھ کے عظیم رہنما رسول بخش پلیجو کی یاد میں ان کی برسی کے موقع پر کی۔)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں