• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سلسلہء خطوط/دو طبیب،دو ادیب،دو حبیب(ڈاکٹر خالد سہیل/ڈاکٹر عابد نواز)-خط نمبر 9،10

سلسلہء خطوط/دو طبیب،دو ادیب،دو حبیب(ڈاکٹر خالد سہیل/ڈاکٹر عابد نواز)-خط نمبر 9،10

 

ڈاکٹر خالد سہیل کا ڈاکٹر عابد نواز کو خط نمبر ۹

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت ذرہ نواز و بندہ نواز و عابد نواز !

آپ کے ذہانت و ظرافت سے بھرپور ادبی محبت نامے پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ اردو ادب اور شاعری کے انسائیکلوپیڈیا ہوں۔ آپ کو مشہور شاعروں کے معروف اشعار کے ساتھ ساتھ گمنام شاعروں کے غیر معروف اشعار بھی یاد ہیں۔

آپ کا غالب کی زمین میں مزاحیہ شعر پڑھ کر مجھے کینیڈا کے مذاحیہ شاعر جمال زبیری کا یہ شعر یاد آ گیا

میری بیوی کہہ رہی ہے کہ طلاق مجھ سے لے گی

میں خوش سے مر نہ جاتا اگر اعتبار ہوتا

آپ بخوبی جانتے ہیں کہ غیر روایتی لوگوں کے لیے محبت شادی سے زیادہ اہم ہوتی ہے اور وہ اس سلسلے میں احمد فراز کے بھی ہم خیال نہیں ہوتے۔

ہم محبت میں بھی توحید کے قائل ہیں فراز

آپ نے اپنے نانا دادا بننے کا ذکر تو کیا ہے لیکن تفصیل نہیں بتائی۔

آج میں آپ کو اپنی بیٹیوں کے بارے میں کچھ سناتا ہوں عین ممکن ہے اسے پڑھ کر آپ بھی اپنے بچوں اور خاندانی زندگی کے بارے میں کچھ تفصیل سے لکھیں

میری دو منہ بولی بیٹیاں ہیں

کینیڈین بیٹی کا نام ایڈرئینا ڈیوس ہے

پاکستانی بیٹی کا نام وردہ میر ہے

بے ٹی ڈیوس میری نیوفن لینڈ کی دوست تھیں۔

مدتوں بعد جب ہمارا دوبارہ رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے رومینیا جا کر ایک بارہ دن کی بچی کو گود لیا تھا جس کا نام ایڈرئینا تھا۔ جب میری ایڈرئینا سے ملاقات ہوئی اس وقت ان کی عمر بارہ برس تھی۔

جب بے ٹی ڈیوس نیوفن لینڈ سے اونٹاریو آئیں تو ایڈرئینا بھی ان کے ساتھ آ گئیں۔

پھر بے ٹی ایڈرئینا میں اور میری بھانجی وردہ (میری پاکستانی بیٹی) چودہ سال ایک گھر میں اکٹھے رہے۔

جب دو ہزار سولہ میں میری اور بے ٹی کی جدائی ہوئی تو ایک شام ڈنر کے دوران میں نے ایڈرئینا سے کہا

آپ کی ماما اور میں جدا ہو رہے ہیں۔ اب ہم علیحدہ علیحدہ رہیں گے۔آپ کس کے ساتھ رہنا پسند کریں گی

ایڈرئینا نے میری طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔آپ کے ساتھ

میں نے بے ٹی کی طرف دیکھا تو بے ٹی نے کہا۔۔۔مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ آپ بھی اس سے ایک باپ کی طرح محبت کرتے ہیں۔

چنانچہ میں نے تین بیڈ روم کا ایک کونڈومینیم لیا۔

ایک کمرہ ایڈرئینا کا تھا

ایک کمرہ میرا تھا

ایک کمرہ مہمانوں کے لیے تھا۔

چند سال ہم اکٹھے رہے پھر کووڈ کے دوران ایڈرئینا ٹورانٹو اپنے بوائے فرینڈ گیورگی کے ساتھ رہنے چلی گئیں۔

جب ایڈرئینا اور گیورگی کا سات سال کا محبت کا رشتہ ختم ہوا تو ایڈرئینا دوبارہ میرے پاس آ گئیں اور چند ماہ میرے ساتھ رہیں۔

پھر وہ سوشل ورکر بن گئیں انہیں جاب مل گیا اور وہ ٹورانٹو چلی گئیں۔

ٹورانٹو میں انہیں ایک نیا دوست مل گیا جو آئرلینڈ کا ہے اس کا نام کونر ہے۔

پچھلے ہفتے ایڈرئینا نے مجھے اور عظمیٰ کو ڈنر پر بلایا۔

میں نے ایڈرئینا سے کہا

آج تمہارے محبوب کونر اور میری محبوبہ عظمیٰ کی پہلی بار ملاقات ہوگی۔

ایڈرئینا ہمیں جرارڈ سٹریٹ کے ایک انڈین ریسٹورانٹ میں لے گئیں۔ ہم چاروں نے مل کر نان کباب بریانی بٹر چکن کھایا’ لیمنیڈ اور لسی پی اور خوب گپ لگائی۔

میں نے رسٹورانٹ کی کھڑکی سے باہر دیکھا تو مجھے اسلامک بک سٹور

کا بورڈ دکھائی دیا۔

میں نے ایڈرئینا ،کونر اور عظمیٰ کو بتایا کہ کئی سال پیشتر جب میں نے گے اور لیسبین لوگوں کے مسائل کے بارے میں اپنی کتاب

“ہر دور میں مصلوب”لکھنے کا فیصلہ کیا تو میں ایک باب مذہب اور جنس کے حوالے سے بھی لکھنا چاہتا تھا۔ اس سلسلے میں میں اسلامک بک سٹور گیا۔ وہاں ایک بزرگ کتابیں بیچ رہے تھے۔ مجھے دیکھا تو کہنے لگے

آپ کیا خریدنا چاہتے ہیں؟

میں نے کہا میں ایک ماہر نفسیات ہوں اور گے اور لیسبین لوگوں کے بارے میں کتاب لکھ رہا ہوں۔

ان صاحب نے جب میری داڑھی اور دراز زلفیں دیکھیں تو دھوکہ کھا گئے اور سمجھے کہ میں ایک مذہبی انسان ہوں۔ انہوں نے مجھے تین کتابیں لا کر دیں اور کہا

یہ آپ کے لیے تحفہ ہیں۔ کینیڈا میں ڈیٹنگ اور ہم جنس پسندی بہت پھیل رہی ہے۔ آپ اس گمرہی کے خلاف لکھیں اور زور شور سے لکھیں تا کہ لوگ راہ راست پر آ سکیں۔

میں نے دل میں سوچا یہ صاحب کتنے سادہ لوح ہیں۔

اگر وہ صاحب کہیں میری کتاب پڑھ لیتے تو مجھے سنگسار کر دیتے۔

ایڈرئینا، کونر اور عظمیٰ میری کہانی سن کر بہت محظوظ ہوئے۔

اسلامک بک سٹور کے ساتھ لاہور تکہ ہاؤس ریسٹورانٹ بھی ہے جو ایک مشہور حلال ریسٹورانٹ ہے۔

میں نے اپنے دوستوں کو اس ریسٹورانٹ کا قصہ بھی سنایا۔آپ بھی سن لیں

جب میرے کزن نوروز عارف کی شادی ہوئی اور وہ اپنی دلہن چندا کو لاہور سے نیویارک لائے تو کئی مہینوں کے بعد میں نے انہیں کینیڈا آنے کی دعوت دی۔

نوروز اور چندا کئی گھنٹے کا سفر کر کے میرے گھر رات کو دیر سے پہنچے تو میں نے ان کے سامنےچکن اور بیف کی کئی ڈشز اور نان کباب رکھے۔میں ان کی خاطر مدارات کرنا چاہتا تھا لیکن جب چندا نے پوچھا

سہیل بھائی کیا یہ گوشت حلال ہے؟

تو پہلے تو میں نے سوچا جھوٹ بول دوں انہیں کیا پتہ چلے گا لیکن پھر میرے دہریہ ضمیر نے کہا

خالد سہیل دوستی کی جھوٹ پر بنیاد رکھنا اچھی بات نہیں

چنانچہ میں نے سچ بولتے ہوئے کہا نہیں یہ گوشت حلال نہیں ہے۔ میں آپ کے لیے آملیٹ بناتا ہوں اور کل میں آپ کو جرارڈ سٹریٹ کے لاہور تکہ ہائوس لے جاؤں گا جہاں آپ کو حلال کھانا مل جائے گا۔

جب ہم لاہور تکہ ہاؤس میں کھانا کھا رہے تھے تو چندا نے کہا

سہیل بھائی میں آپ کو ایک خوش خبری سنانا چاہتی ہوں

وہ کیا؟ میں متجسس تھا

میں حاملہ ہوں

مبارک ہو

لیکن دعا کریں کہ ہمارے ہاں بیٹی پیدا ہو

وہ کیوں؟ میں حیران ہوا

سہیل بھائی آپ کے کزن روزی ایک دہریہ ہیں ۔ وہ ختنوں پر ایمان نہیں رکھتے۔ اگر بیٹا پیدا ہوا تو گھر میں جھگڑا ہوگا۔ میں بیٹے کے ختنے کروانا چاہوں اور یہ اس پر اعتراض کریں گے۔ لیکن اگر لڑکی پیدا ہوئی تو یہ مسئلہ نہیں ہوگا

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اگلے چند سالوں میں ان کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے اور وہ تینوں بیٹے ہیں۔

آپ کا درویش دوست

خالد سہیل

پندرہ جنوری دو ہزار پچیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر عابد نواز کا ڈاکٹر خالد سہیل کو خط نمبر ۱۰

جناب ماہر نفسیات و مخالف نفسا نفسیات مکرمی خالد سہیل صاحب

آپ کا نامہ حسب معمول بصورت محبت نامہ دیکھا آپ کی منہ بولی بیٹیوں کے بارے میں جان کر خوشی ہوئی۔ آپ نے میری عائلی زندگی کے متعلق پوچھا ہے تو وہ ایک سیدھی سادی داستان ہے۔ کینیڈا آنے سے پہلے تین سال ایران میں گذارے اس دوران والدین نے تو شادی کا ذکر کیا لیکن مجھے محسوس ہوتا تھا کہ اس میں جلدی کی کیا ضرورت ہے اگرچہ اس احساس کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ ایران سے کینیڈا آیا جہاں میں اور آپ ایک سال اکٹھے رہے اس دوران شادی کا موضوع ہی بیچ میں نہیں آیا، وہاں سے برطانیہ آیا وہاں بھی تین سال سے زائد عرصہ یوں ہی گذرا حیرت انگیز طور پر یہی سوچتا تھا کہ

دل مضطر وفا کے باب میں یہ جلد بازی کیا

ذرا رک جائیں اور دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے

آفتاب حسین

یہ بھی میں جانتا تھا کہ اگر معاملہ مجھ پر چھوڑا جاتا کہ کسی کو پسند کرلوں تو اس کی کوئی توقع نہیں تھی اپنی کیفیت یہ تھی کہ احمد فراز سے معذرت کے ساتھ

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز

دوست ہوتی نہیں ہر ہاتھ ملانے والی

جبکہ یہاں تو ہاتھ ملانے کی نوبت یا کوشش بھی ناپید بلکہ ناپسند تھی یہ بات والدین کو بھی معلوم تھی اور انہیں علم تھا کہ اسکام کا بیڑا انہوں نے ہی اٹھانا ہے لہذا شریک حیات کے بارے میں میری ترجیح کا پوچھا کہ آیا ڈاکٹر ہو؟اب میں سوچنے لگا کہ بلا وجہ تاخیر کرتے کرتے یوں نہ ہو کہ بقول عبدالحمید عدم

عُمر گھٹتی رہی خبر نہ ہُوئی

وقت کی بات وقت پر نہ ہوئی

اور اس کا کیا فائدہ کہ ایسی عمر میں شادی کی تقریب منعقد کی جائے جب اپنی حالت کے بارے میں یہی کہا جا سکے کہ  آزار دیدہ، الفت گزیدہ، کلفت کشیدہ، آفت رسیدہ، خاطر کبیدہ، صحبت نہ دیدہ، قامت خمیدہ، زبان بریدہ ، فہم خوابیدہ، طعن شنیدہ، بَخْت رَمِیدَہ، مغز شوریدہ، سدا رنجیدہ، مدام سنجیدہ ، دائم ترسیدہ، برخویش چیدہ، ناپسندیدہِ شدیدہِ فریدہ، فہمیدہ، حمیدہ، نویدہ، وحیدہ، روحیدہ اور کیا کیا کشیدہ

بس پھر کیا تھا اب یکایک صورت حال نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ

زمانہ تیز ہے جلدی سے شادی ہو تو بہتر ہے

مگر ہے یہ بھی خواہش بیوی سادی ہو تو بہتر ہے

اگرچہ یہ بھی خواہش ہے کہ خود بھی حور جیسی ہو

مگر وہ گھر کو جنت سا بناتی ہو تو بہتر ہے

ذیشان لاشاری

لہذا والدین کو بتایا کہ میری صرف ایک ہی ترجیح ہے کہ شریک حیات نہ تو ڈاکٹر ہو نہ ہی ملازمت پیشہ البتہ پڑھی لکھی ہو بہ یک وقت گھر کو سنبھالنا اور پیشہ نبھانا انتہائی دشوار ہیں

بالآخر والدین نے میری ترجیح کو مدنظر رکھتے ہوئے رشتے کا انتخاب کیا ۔میں ایک مہینے کی چھٹی پر پاکستان آ یا اور 22 اپریل 1983 کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گیا۔میں نے یہ بھی طے کر لیا تھا کہ والدین نے چونکہ میری ترجیح کو ترجیح دی ہے لہذا اب شریک حیات کے بارے میں یہ رویہ ہونا چاہیے کہ

پتھر ہے تیرے ہاتھ میں یا کوئی پھول ہے

جب تو قبول ہے، تیرا سب کچھ قبول ہے

عدیم ہاشمی

یہ میری خوش نصیبی تھی کہ شریک حیات میرے تصور سے زیادہ عالی ظرف نکلیں۔  بچوں کے بارے میں میری ہمیشہ خواہش رہی تھی کہ ہر ایک کو بہن اور بھائی کا رشتہ ملے۔ ریاضی کے سادہ حساب کی رو سے کم از کم دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کے ساتھ ایسا ممکن تھا اور ایسا ہی ہوا ۔دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کے ساتھ حساب کا توازن مکمل ہوا ۔بیٹیاں بڑی ہیں ،سب بچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں ہم شادی سے پہلے عرصے تک بلا جواز نہ نہ کر کے اب نانا اور دادا بن چکے ہیں۔

سب بچے اور اُن کے بچے محبت اور اپنائیت کا پیکر ہیں۔ سوچتا ہوں کہ تمام عمر شُکر کے ان گنت مواقع میسر آئے ہیں یعنی زمانہ طالب علمی پر شکر ،پیشہ ورانہ زندگی پر شکر، خاندانی زندگی پر شکر ،صحت کی بے بہا نعمت اور عافیت پر شکر غرضیکہ زندگی شکر سے ہی عبارت رہی ہے۔

سہیل آج کا خط یک طرفہ ہو گیا ہے اس میں اپنی شادی خانہ آبادی اور اہل و عیال کا طویل ذکر آگیا ہے سوچتا ہوں کہ شادی کے ساتھ خانہ آبادی لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی بنتی ہے کہ اس سے آبادی میں اضافہ ہو گا اور آپ نے اپنے پچھلے ایک خط میں جو بوڑھے جوڑے کا ازدواجی واقعہ بیان کیا ہے پھر اسے آؤ دیکھا نہ تاؤ حل کر کے رکھ دیا اور دوسرے خط میں وہٹبی کی آبادی ہر دس سال میں دگنی ہونے کا ذکر کیا ہے ان دونوں واقعات کو ملا کر دیکھا جائے تو آپ کے اعجاز مسیحائی کا کمال واضح ہو جاتا ہے ۔بوڑھے جوڑے کو آپ نے شاید مفت میں یہ اضافی مشورہ دیا ہوگا تاکہ وہ وہٹبی کی تاریخ رقم کر سکیں اب اس سلسلے میں ایک شعر بنتا ہے

تاریخ کے حروف کو الٹا کے دیکھئیے

خیرات پر خیرات پھر اُڑا کے دیکھئیے

خیرات یقیناً مفت ہوتی ہے

اب اجازت

دوستِ درویش

julia rana solicitors

عابد نواز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply