اسکا نام کرن تھا اور اندھیر نگری میں کرنیں نہیں ہوتیں ، قدرت کے جبر سے نمود پا ہی جائیں تو بجھا دی جاتی ہیں۔ اندھیر نگری میں ان کرنوں کے بجھانے کا آغاز انکے وجود کی اطلاع ملتے ہی ہو جاتا ہے۔ اسے دنیا میں لانے والوں کے چہرے بجھ جاتے ہیں۔ اس کے نصیب برے کرنے کا عزم اور “خدا نصیب اچھے کرے” کی دعا ایک ہی وقت میں کیے جاتے ہیں۔ اندھیر نگری منافقت سے لتھڑی پڑی ہے۔
کرن کی ننھی آنکھوں میں کرنیں ٹمٹمائیں تو اپنے وجود کا سوگ دیکھا۔ اس سوگ کو ماں باپ کی علیحدگی نے روگ بنا دیا۔ باپ کی شفقت سے محروم ماں کے آسرے پر ننھی پلکوں پر زندگی کی کرنیں سجائے آگے بڑھنے لگی۔
آٹھ سال کی ہوئی تو لفظِ ماں کی توہین اور ممتا کے چہرے پر کالک ملتی اس کی ماں نے اپنے مکروہ پیروں تلے موجود پاک جنت کو اسے وقت سے پہلے دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے دوبارہ کسی سے نکاح کرنا تھا اور اس نکاح کی شرط اس پتھر دل نے یہ رکھی کہ پہلے اس کرن کو بجھا دے۔ اس سے چھٹکارہ پائے کیونکہ “بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں “۔ اندھیر نگری کو نہ کرنیں مطلوب ہیں نہ رحمت۔۔۔
اس اندھیر نگری میں رہتا ایک بیٹی کا باپ ہوں۔ سوچ مفلوج ہے فکر سکتے کے عالم میں۔ وہ بیٹی کہ جسکی آنکھوں کی کرنیں عین اندھیرے میں زندگی کو آگے کا راستہ دکھاتی ہیں۔ وہ کیا عورت ہے عورت تو چھوڑیے کہ شفقت و محبت اور نرم دلی کی تخلیق کا شاہکار ہے۔ وہ کیا ماں ہے ، ماں بھی رہنے دیجیے کہ انسانیت کو فطرت کی دھوپ میں ممتا کی چھاؤں دیتی ہے۔ قبر کی اندھیری رات جیسا باطن لیے وہ کیا انسان ہے کہ جس نے خود اپنے وجود سے پیداہونے والی کرن کو یوں گہنا کر اس سماج سے انسانیت کا رہا سہا اعتبار بھی اٹھا دیا۔
یہ سانحہ وہاں ہوا جہاں زندگی ماں کی گود سے اتر کر پہلی بار اٹھلائی تھی۔ جیون نے باپ کی انگلی پکڑ کر پہلی بار چلنا سیکھا تھا۔ حیات نے بچپن کے ساتھ مل کر پہلی بار کھیل کھیلے تھے۔ زند گانی نے اس سفر کی اڑان بھری تھی جہاں آج دور بیٹھے اس سانحے کی خبر نے دل چیر دیا۔ تحصیل ملکوال۔۔۔
“سماجی معمار” حاشر صاحب نے ٹھیک لکھا یہ بیٹیوں کا دیس نہیں۔ سوچتا ہوں جب اسکی ماں بلکہ ماں کی گالی نے وہ ڈنڈا اٹھا کر اسے اس کھیت کی جانب رواں کیا ہو گا تو شاید اس کے ننھے ذہن نے یہ سوچا ہو کہ میری زندگی کے واحد اس سہارے نے میری حفاظت کے لیے یہ ڈنڈا اٹھایا۔ شاید اس بات پر پگڈنڈی پر چلتی وہ اٹھلائی ہو ، کھکھلائی ہو۔ اپنی ماں کو چوما ہو۔ اس تتلی نے اپنے ننھے پر ہوا میں لہرا کر رقص کیا ہو۔ اسکے گلے میں بانہیں ڈالی ہوں۔ کرن کی انکھوں میں زندگی کی تمام کرنیں جھلملائی ہوں گی ۔ مگر درندہ صفت عورت کو ایک پل کے لیے بھی رحم نہ آیا۔
اسکے سر پر جب پہلا ڈنڈا لگا ہو گا تو کتنا درد ہوا ہو گا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ہو گا تو کرن کی آنکھوں کی ساری کرنیں بے یقینی کے اندھیروں میں ڈوب گئی ہونگی۔ آٹھ سالہ اس جیون میں حاصل کردہ واحد اعتبار ننھے سر سے زیادہ زور سے ایک چھناکے کے ساتھ ٹوٹا ہو گا۔ دوسری ضرب سے پہلے شاید بہت تڑپی اور کسمسائی ہو ۔ کسی نبی کی قربانی کی یاد کی توہین کرتے اس وحشی معاشرے میں عید کے نام کی لگی مہندی والے ہاتھ اپنی ماں کے سامنے جوڑ دیے ہوں۔ مجھے مت مار ماں۔۔۔ میں جینا چاہتی ہوں۔ شاید نزع کی ہچکیوں میں اس ڈائن سے یہ بھی التجا کی ہو کہ مجھے کرنوں سے محروم کسی در پہ چھوڑ کر خود چلی جا اپنی کوکھ سے کوئی اور کرن پیدا کرنے۔۔۔ روح کے درد سے نڈھال شاید اس عورت کے نام پر کلنک کے ٹیکے کے پیروں میں گر گئی ہو۔ اے میری جنت ، اے میری ماں تجھے واسطہ اپنی ممتا کا مجھے مت مار۔۔۔میں کرن ہوں ، مجھے یہ نام تو نے دیا ، میں اندھیر نگری میں جینے کی کرنیں سجائے جینا چاہتی ہوں۔
دوسری ضرب لگنے پر اس ٹوٹے ہوئے سر سےخدا کی یہاں رکھی آدم کی بچھڑی ہوئی جنت میں پہلی بار شاید وہ سجدہ ریز ہوئی ہو گڑگڑائی ہو۔۔اے میرے خدا ، اس اندھیر نگری میں کرنیں پیدا کرنے والے مجھے بچا لے۔۔۔ اگر یہ وحشی منافق سماج ہمیں تیری رحمت سمجھتا ہے تو اپنی رحمت کو بچا لے۔۔۔۔مگر خدا ان کرنوں کو اندھیر نگری کے حوالے کر کے خاموش ہے۔۔۔
کرن کے عید کے جوڑے میں سرخ رنگ شاید اتنا گہرا نہیں تھا سو اسکا لہو ضروری تھا۔۔۔عید کا جوڑا اب صحیح لال ہوا۔ اپنے ٹوٹے ہوئے سر کو تھامتے ننھے ہاتھوں میں چوڑیوں کی کھنک نزع کی ہچکیوں اور سسکیوں کے بنا ادھوری تھی۔ ہاتھوں پر لگی مہندی نے قسمت کی لکیروں کو ابھی اتنا نہیں چھپایا تھا سو انہیں مٹانا ضروری تھا۔۔۔
نزع کی ہچکیاں بھرتے شاید کرن کے ننھے ذہن کو آخر یہ ادراک ہو گیا ہو کہ یہاں اور اسکے ننھے جسم نے روح کے نکلنے کی مزاحمت ترک کر دی ہو کہ وہ اپنی جنت کے راستے کی رکاوٹ ہے یہاں کرنوں کو اپنی روشنی تج دینا خدا کا حکم بتایا جاتا ہے۔۔۔۔وہ ایک کرن ہے اور اندھیر نگری میں کرنیں نہیں ہوتیں۔
پسِ تحریر :
نظم : ” جنت ”
میں تیری راہ کی کب ہوں دیوار ماں
تیری ممتا کی میں ہوں طلبگار ماں
تیری چاہت میں ہوں میں تو سرشار ماں
مجھکو اپنی خوشی پر تو مت وار ماں
مجھکو مت مار ماں
باپ نے دے کے پہلے ہی تجھکو طلاق
میرے دامانِ ہستی کو یوں کر کے چاک
میرے سر میں یہ جیون کی ڈالی ہے خاک
تو بھی قاتل کی اک روپ مت دھار ماں
مجھکو مت مار ماں
میری آنکھوں میں انجم و ماہتاب ہیں
کچھ ستارے چمکنے کو بے تاب ہیں
دیکھ ان میں یہ جیون کے سب خواب ہیں
اپنا جیون ہوں جینے کو تیار ماں
مجھکو مت مار ماں
تجھکو اس رب کی رحمت کا ہے واسطہ
تیرے پیروں کی جنت کا ہے واسطہ
ماں کی ازلی محبت کا ہے واسطہ
کر نہ ہر واسطے کو تو بے کار ماں
مجھکو مت مار ماں
کون دنیا میں ہے میرا تیرے سوا
باپ کا سایہ مجھکو یہاں کب ملا
دوش کیا ہے میرا مجھکو یہ تو بتا
قتل سے پہلے بتلا دے اک بار ماں
مجھکو مت مار ماں
مجھکو دے دے کسی کو جو محروم ہو
جس کے گھر میں نہیں کوئی معصوم ہو
ایسی محرومی جس کا کہ مقسوم ہو
اس ستم سے نہ کر مجھکو دوچار ماں
مجھکو مت مار ماں
مجھکو مت مار ماں
آہ ہ ہ ! اگر فیصلہ کر ہی بیٹھی ہے تو
ہے میری جان لینا تیری آرزو
تیری خوشیوں میں گر اک رکاوٹ ہوں میں
تیری خاطر اگر اک مصیبت ہوں میں
غم نہ کر پھر میری ماں مجھے مار دے
اپنی وحشت پہ آ اب مجھے وار دے
بس تُو قدموں میں اپنے بکھر جانے دے
تیرے قدموں کے نیچے ہے جنت میری

سر کو جنت میں رکھ کر تُو مر جانے دے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں