گزشتہ چند ماہ کے دوران برطانیہ کے مختلف شہروں کو قریب سے دیکھنے اور ان کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ ان مشاہدات میں ایک بات جو دل کو چھو گئی، وہ یہاں کی تاریخی عمارتوں اور تہذیبی آثار کی حفاظت اور تزئین کا غیر معمولی ذوق اور شعور تھا۔ دو سو، چار سو، بلکہ پانچ سو سال پرانی عمارتیں آج بھی پورے جاہ و جلال کے ساتھ نہ صرف موجود ہیں بلکہ جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اپنے ماضی کی گواہی دیتی نظر آتی ہیں۔
یہ صرف قریب کی تاریخ کی بات نہیں۔ برطانیہ نے ایک ہزار سال یا اس سے بھی زیادہ قدیم آثار کو بھی نہایت ذمہ داری کے ساتھ محفوظ رکھا ہے۔ اور صرف یہیں کی نہیں، بلکہ دنیا بھر سے قدیم نوادرات، مجسمے، مخطوطے اور تہذیبی نشانات کو جمع کر کے میوزیمز میں سلیقے سے رکھا گیا ہے، تاکہ آنے والی نسلیں اپنے ماضی سے رشتہ جوڑے رکھ سکیں۔ یہ سب دیکھ کر ایک حساس دل اور تاریخ شناس ذہن خودبخود موازنہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
میں خود چونکہ تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم رہا ہوں اور مجھے ہندوستان کے کئی تاریخی شہروں کا دورہ کرنے کا موقع ملا ہے، اس لیے یہ فرق اور بھی شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کے دور کی باقیات کو دیکھ کر ایک گہری تشویش لاحق ہو جاتی ہے۔ جہاں کہیں مسلم عہد کی عمارتیں، مساجد، مدارس، مقبرے اور دیگر آثار موجود ہیں، وہاں اُنہیں یا تو مکمل نظرانداز کر دیا گیا ہے، یا پھر جان بوجھ کر کھرچ کھرچ کر مٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔
آزادی کے بعد سے آج تک ایک منظم کوشش کے تحت مسلم ورثے کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ حکومتوں کا یہ تعصب پر مبنی رویہ نہ صرف تہذیبی ورثے کی توہین ہے بلکہ یہ تاریخ کے ساتھ بددیانتی بھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کسی قوم یا مذہب کی ناکامی نہیں، بلکہ خود ریاست کی ناکامی ہے۔ جب ایک ملک اپنی سرزمین پر موجود تمام تاریخی آثار کو برابر کا احترام نہ دے، اور اپنی ہی تاریخ کو مسخ کرنے لگے، تو اس سے نہ صرف تعصبات کو ہوا ملتی ہے، بلکہ اقلیتوں کے احساسِ محرومی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
ان تجربات اور مشاہدات نے میرے ذہن میں ایک بنیادی سوال پیدا کیا ہے: کیا تہذیب صرف عمارتوں میں زندہ رہتی ہے، یا ان کو محفوظ رکھنے والے شعور میں؟
برطانیہ نے ثابت کیا ہے کہ ایک باشعور قوم اپنی تاریخ کو چھپاتی نہیں، بلکہ اس پر فخر کرتی ہے، خواہ وہ تاریخ کیسی ہی کیوں نہ ہو۔ جبکہ ہمارے یہاں المیہ یہ ہے کہ کچھ اپنے ہی ماضی سے شرمندہ ہیں، اور تعصب کی عینک لگا کر تاریخ کو مٹانے میں لگے ہوئے ہیں۔

یہ فرق ہے ہمارے معاشرے اور اُن معاشروں میں جہاں ماضی کو سنبھال کر مستقبل کی تعمیر کی جاتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں