مریم نواز ہیلتھ کلینک: مسائل، امیدیں اور خدشات/سیّد محمد زاہد

مشترکہ ہندوستان میں مغربی طریقہ علاج کی تاریخ 1600 کی ہے، جب پہلے ڈاکٹر ایسٹ انڈیا کمپنی کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ سرجن کے طور پر ہندوستان پہنچے۔ 1757 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنی حکمرانی قائم کی جس کی وجہ سے سول اور ملٹری سروسز کی ترقی ہوئی۔ بنگال میں 1764 میں کمپنی کے فوجیوں اور ملازمین کو طبی خدمات فراہم کرنے کے لیے ایک طبی شعبہ قائم کیا گیا۔
ہندوستان کا پہلا ہسپتال مدراس جنرل ہسپتال تھا جو کہ 1679 میں بنایا گیا۔
ہندوستان کا وہ علاقے جو پاکستان میں شامل ہوئے وہ اس وقت مغل اور پھر سکھ حکومت کے زیر اثر تھے۔ ان ادوار میں اس شعبہ میں کوئی کام نہ ہوا۔ یہاں میڈیکل سائنس کا پہلا جدید ادارہ لاہور میڈیکل سکول (کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج) 1867 میں بنایا گیا۔ اس کے بعد پورے ہندوستان میں ہسپتال اور ڈسپنسریز قائم کی گئیں۔
بیسویں صدی کے آغاز میں تین سو تیس مربع میل کے علاقے کے لیے ایک ہسپتال موجود تھا۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو ہر ضلع اور چند تحصیلوں میں ڈاکٹر اور ٹاؤن کی سطح پر ڈسپنسرز کی زیر نگرانی ہسپتال موجود تھے۔ اس کے بعد کئی سال تک یہی نظام چلتا رہا۔ میں ایک ایسی لیڈی ڈاکٹر کو بھی جانتا ہوں جس نے 1942 میں آگرہ سے ایم بی بی ایس کیا اور حافظ آباد جیسی دور دراز اور بیک ورڈ تحصیل میں کام کیا۔
بھٹو کے عہد میں نئی تعلیمی پالیسی لاگو کی گئی۔ کئی جامعات اور کالج بنائے گئے۔ اسی دور میں مری روڈ پر ایک بس حادثہ میں سندھ کے کسی میڈیکل کالج کے کچھ طالبعلم سہولیات کے فقدان کی وجہ سے وفات پا گئے۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب اس حادثہ سے انتہائی غمزدہ ہوئے اور نئے میڈیکل کالج بنانے کا اعلان کیا۔ پہلا کالج راولپنڈی میں بنایا گیا۔پورے ملک میں تقریباً 6 نئے میڈیکل کالج قائم کیے گئے۔
انگریز کے دور کے بعد میڈکل سہولیات کے سلسلے میں یہ ایک بڑا جمپ تھا۔
اس دور تک ضلع اور تحصیل کی سطح پر ایک سول ہسپتال ہوتا تھا۔ ہمارے شیخوپورہ کے ضلعی سول ہسپتال میں دو میڈیکل آفیسر، ایک سرجن اور ایک لیڈی ڈاکٹر کی سیٹیں تھیں۔ یاد رہے کہ یہ پنجاب کا ایک بڑا ضلع ہے۔ لاہور کا جڑواں ضلع ہونے کی وجہ سے یہاں آبادی بہت زیادہ ہے۔ پرکیپیٹا انکم، سیاسی شعور اور ایجوکیشن لیول بھی بہت بہتر ہے۔
میاں محمد خان جونیجو کی حکومت میں 1986 میں صحت کے نظام میں بہت بڑی تبدیلی آئی اور ضلع و تحصیل کی سطح پر ہیڈ کوارٹر ہسپتال بنائے گئے جن میں پہلی بارمختلف امراض کے ماہر ڈاکٹر تعینات کیے گئے۔ ان کے ساتھ ساتھ ہر یونین کونسل میں ایک ڈاکٹر کی زیر نگرانی بنیادی مرکز صحت اور ٹاؤن کمیٹی کی سطح پر چار ڈاکٹرز پر مشتمل دیہی مرکز صحت بنائے گئے۔ یہ صحت کے شعبہ میں ایک عظیم انقلاب تھا۔ ان مراکز میں بیماریوں کے علاج کے ساتھ ان سے بچاؤ کے اقدامات پر بھی بھرپور زور دیا جاتا رہا ہے۔
لیکن یہیں سے محکمہ صحت میں خرابیوں کا بھی آغاز ہوا۔
بنیادی مراکز صحت شہروں سے دور دیہات میں بنائے گئے تھے جہاں سترہ گریڈ کے آفیسر کی ضروریات کے مطابق ماحول موجود نہیں تھا۔ اس کے علاوہ دیہات کی سیاست اور وہاں کی مشکلات بھی ایک مسئلہ تھا۔ بجلی پانی اور سیکیورٹی کے بھی مسائل تھے۔ ڈاکٹرز کو وہاں رہائش رکھنے پر مجبور کیا گیا۔ شروع سے ہی ڈاکٹرز کے لیے وہاں کا ماحول سازگار بنانے کی بجائے ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ مقامی آفسران نے مالی مفادات کے عوض انہیں حاضری سے استثنیٰ کا راستہ دکھایا۔ حالات یہاں تک خراب ہو گئے کہ اکثر مراکز میں پتا ہی نہیں ہوتا تھا کہ کوئی ڈاکٹر تعینات ہے بھی یا نہیں۔
بنیادی مراکز صحت پر یہ حالات تھے اور دوسری طرف آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، سڑکوں کے جال اور موٹر سائیکل و کار کی فراہمی نے ضلع اور تحصیل لیول پر کام کا بوجھ بہت بڑھا دیاتھا۔ وہاں ڈاکٹرز کی انتہائی قلت تھی۔ پچاس سے سو مریضوں کے اکثر وارڈز میں سپیشلسٹ ڈاکٹر تو موجود ہوتا لیکن اس کے ساتھ میڈیکل آفیسر نہ ہوتے۔ شیخوپورہ کے ضلعی ہیڈکوارٹر میں 2007 میں دس سے زائد وارڈز اور پانچ سو سے زائد ان ڈور مریضوں کے لیے صرف سترہ میڈیکل آفیسر تھے۔اس قلت کو سامنے رکھتے ہوئے 2008 میں پورے پنجاب میں ہر مہینے واک ان انٹرویو کی بنیاد پر ایڈہاک ڈاکٹرز بھرتی کیے گئے اور ان کے لیے عمر کی حد بھی ختم کر دی گئی۔
اس ناانصافی اور ورک لوڈ نے ڈاکٹرز میں بے چینی کی لہر پیدا کردی۔ ان میں گروپ بندی اور سیاست بڑھتی گئی۔ کام کی مجبوری سے افسران اور حکومتیں بھی ان سے صرف نظر کرنے لگیں۔ یہاں ایک اور برائی کا آغاز ہوا۔ ڈاکٹرز نے دباؤ ڈال کر ہفتے کے چھ دنوں میں 36 گھنٹے کی ڈیوٹی کو ڈیڑھ دن کی حاضری میں منتقل کرلیا۔ انتظامیہ کی مجبوری تھی۔ شام اور رات کو کوئی ڈاکٹر ڈیوٹی کرنے کے لیے موجود ہی نہیں تھا۔ اب جو انسان چھتیس گھنٹے مسلسل کام کرے گا اس کے کام کی نوعیت کیا ہوگی؟ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
نئی صدی کے آغاز میں اس کمی کا اندازہ ہو گیا تھا اس لیے پرائیویٹ کالجز کھولے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر ممالک میں بھی داخلے کا رجحان بڑھا۔
حکومتی نااہلی، آبادی میں بے تحاشا اضافہ، غربت میں اضافہ، ادویات کی کمی، غیر معیاری میڈیکل کالجز، ڈاکٹر کی گروپ بندی اور افسران کی ملی بھگت کے ساتھ مراکز صحت کی بری کارکردگی نے اس شعبہ کا بیڑا غرق کردیا۔
حکومت پر آئی ایم ایف کا دباؤ اب اسے مجبور کر رہا ہے کہ وہ ان مسائل کا کوئی حل ڈھونڈے۔ صحت کارڈ کا اجرأ اس سلسلے کی ایک ایسی کڑی تھی جس نے لوگوں کا دھیان اصل مسائل سے ہٹا کر اس وقتی فائدہ کی طرف لگا دیا۔
اب اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے تمام ہسپتالوں کو ٹھیکے پر دینے (اوٹ سورس کرنا) کا آغاز ہوا ہے۔ پہلے پہل لاہور کے کچھ بڑے ہسپتالوں کو اوٹ سورس کر کے دیکھا گیا کہ ان کی کارکردگی بہتر ہوگئی ہے۔
پنجاب میں ’مریم نوازہیلتھ کلینک‘ کی ابتدائی شکل ہمیں دسمبر 2024 میں نظر آنا شروع ہوئی۔ فروری تک پنجاب کے 150 بنیادی مراکز آوٹ سورس کر دیے گئے۔یکم جون سے مزید 975 شامل ہو گئے ہیں۔ ان ہسپتالوں میں کام کا طریقہ کار یہ ہے کہ ایک ڈاکٹر کو ایک مرکز ٹھیکے پر دے دیا گیا۔ اس نے کم از کم دو ایل ایچ وی، ایک ڈسپنسر اور ایک نائب قاصد اپنے ساتھ ملازم رکھنا ہے۔ ان ملازمین کو بھرتی کرنے اور نکالنے کا 100 فیصد اختیار اسی ڈاکٹر کے پاس ہے۔ ڈاکٹر کو ماہانہ کارکردگی کی بنیاد پر
(pay for performance)
ایک مخصوص رقم دی جاتی ہے۔
کارکردگی جانچنے کا معیار یہ ہے:
ایک نارمل پیدائش پر چھ ہزار پانچ سو روپیہ اور مختلف قسم کے مریض دیکھنے پر ایک سو سے چھ سو روپے دیے جاتے ہیں۔ اس رقم سے ڈاکٹر نے ان مریضوں کو ادویات بھی دینی ہے۔
گاؤں کے ان بنیادی مراکز صحت کا ڈھانچہ کچھ اس قسم کا ہے
ڈریپ کی منظور شدہ اور وارنٹی والی ادویات ڈاکٹر ماہانہ ملنے والی رقم سے خریدے گا اور اس کا حساب رکھے گا۔
سارا سامان جس میں الٹر اساؤنڈ مشین بھی ہے حکومت مہیا کرے گی۔
24 گھنٹے ہسپتال کھلا رہے گا اور کم از کم عملہ موجود ہونا چاہیے حکومت نے ایک مرکز صحت کو مہینے میں 30 نارمل ڈلیوری کا ٹارگٹ دیا ہے اور کم از کم 1940 مریض دیکھنے ہیں۔ سختی اس قدر ہے کہ 10 سے کم ڈلیوریز پر انکوائری لگ جاتی ہے۔ پانچ سے کم پر معاہدہ منسوخ اور ڈاکٹر کو بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔ دوسری طرف اگر ڈاکٹر تیس سے زیادہ ڈلیوریز کر لیتا ہے یا اس سے زیادہ مریض دیکھتا ہے تو اس کا کوئی اضافی فائدہ نہیں دیا جائے گا۔ مرمت اور دیکھ بھال کے لیے صرف 25 ہزار ماہانہ دیا جائے گا اس 25 ہزار میں ڈاکٹر نے خاکروب، مالی اور چوکیدار بھی رکھنا ہے۔ ہسپتال میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ اور مشینوں کی خرابی کو بھی ٹھیک کروانا ہے۔
ڈاکٹر کی ڈیوٹی تو صبح اٹھ سے دو بجے تک رکھی گئی ہے لیکن ہسپتال 24 گھنٹے کھلا رہے گا اس دوران ہونے والی ادویات اور دیگر سامان کی چوری کا ذمہ دار ڈاکٹر ہوگا اور اس کا نقصان اسے بھرنا پڑے گا۔
یہ وہ ادارے ہیں جہاں پچھلے 40 سال میں صحیح طریقے سے کام نہیں ہوا۔ کبھی ادویات نہیں، کبھی ڈاکٹر غیر حاضر اور کبھی عملہ نہیں۔ اب یہ بدنامی بھی داکٹرز کی جھولی میں ڈال دی گئی ہے کہ یہ ہسپتال پرائیویٹ ہو گیا ہے۔ مریض ڈر کے مارے ادھر منہ نہیں کر رہے۔ ان حالات میں مریضوں کو ہسپتال تک لانا اور خصوصی طور پر انہیں بچے کی پیدائش کے لیے تیار کرنا بہت مشکل ہے۔ پرانا عملہ جس کا مقامی آبادی میں کچھ اعتماد بنا ہوا تھا وہاں سے نکال لیا گیا ہے۔ جبکہ نئی لیڈی ہیلتھ وزیٹرز جو ڈاکٹرز رکھ رہے ہیں وہ پوری طرح تربیت یافتہ نہیں۔ ’ مریم نواز کلینک‘ کا بڑا ٹارگٹ ماں اور بچے کی صحت ہے۔ اس کام کے لیے پورے کا پورا عملہ بالکل نیا ہے اورشرط یہ ہے کہ کام پہلے کریں پھر معاوضہ ملے گا۔
ان مراکز صحت میں سب سے بڑا مسئلہ سیکیورٹی کا ہے۔ ڈاکٹر اور عملہ زیادہ تر باہر سے آتا ہے۔ مقامی چودراہٹوں اور بدمعاشوں سے ان نئے لوگوں نے نمٹنا ہے۔ پہلے دور میں اگر عملے کی کسی سے ان بن ہو جاتی تو زیادہ سے زیادہ اس کی ٹرانسفر ہوتی تھی اب معاہدہ منسوخ ہو جائے گا اور ڈاکٹر بلیک لسٹ۔ اس لیے علاقے کے گندے لوگوں کی بلیک میلنگ زیادہ بڑھ گئی ہے۔ابھی چار ماہ ہوئے ہیں اور چھوٹی سی شکایت جیسے حفاظتی ٹیکہ لگنے والی جگہ پر سوجن اور پیپ پڑنے پر ڈاکٹرز کی انکوائری لگا دی گئی اور مہینے میں پانچ سے کم ڈیلیوری کرنے والے ڈاکٹرز کو معاہدہ منسوخ کرنے کی وارننگ دی گئی۔ ایل ایچ وی نے جعلی انٹری ڈال دی اور ڈاکٹر کو نکال کر رجسٹریشن کینسل کرنے کی سفارش بھی کر دی گئی۔ اب خود سوچیں دو تین ماہ میں ایک میل ڈاکٹر کہاں سے اتنی خواتین کو ڈھونڈ کر لائے کہ وہ پیدائش کروانے پر راضی ہو جائیں۔ (جو مراکز آوٹ سورس ہوئے ان میں تقریباً ستر سے اسی فی صد میں میل ڈاکٹرز کام کر رہے ہیں۔)
یہ ساری سزائیں ان غلطیوں پر ہو رہی ہیں جو کہ اس سے پہلے ان اداروں میں بہت عام تھیں۔
ایک اور اہم بات: پیدائش کے عمل کے دوران اگر ناکامی ہوئی ہے تو اس مریض پر آنے والے اخراجات کسی مد میں شامل نہیں ہوں گے اور ان تمام ادویات کا نقصان ڈاکٹر کو اپنی جیب سے دینا پڑے گا۔
سب سے مشکل کام ان تمام مریضوں اور ادویات کو روزانہ کی بنیاد پر آن لائن اپ ڈیٹ کرنا ہے۔ خود سوچیں ایک ڈاکٹر جس نے اپنی تعلیم کے دوران اس کام کے بارے میں پڑھا نہیں، اسے کوئی ایسی ٹریننگ بھی نہیں دی گئی وہ یہ سارے کام کیسے کرے گا؟
سب سے بڑا مسئلہ جس کا ڈاکٹرز کو سامنا کرنا پڑے گا وہ پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن سے اپنے ادارے کا لائسنس لینا ہے۔ ان کی شرائط پورا کرنا ایک عذاب ناآگاہ و ناآسودہ ہے اور ان اخراجات کی مد میں ڈاکٹر کو کچھ نہیں ملنا۔
ایک ڈاکٹر جو کہ تین ماہ کام کرنے کے بعد اس معاہدے سے دستبردار ہو گیا اس سے ہم نے وجہ پوچھی۔ جواب ملا ساری خَجِل خواری کے بعد شاید کسی ماہ تمام ٹارگٹ پورے ہو جائیں تو ڈیڑھ سے دو لاکھ بچ جائیں لیکن کام 24 گھنٹے کرنا پڑتا ہے۔ اگر نہ بھی کریں تو ذہن ہسپتال میں ہی لگا  رہتا ہے۔ ہم نے کہا ایک نئے گریجویٹ کے لیے بہت مناسب آمدن ہے اور آپ علاقے میں متعارف بھی ہو رہے ہیں۔جواب ملا تین ماہ میں اتنے زیادہ مسائل اور ٹینشن کا سامنا کرنا پڑا کہ میرا وزن سات کلو کم ہو گیا۔
ہاں! ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ ایف سی پی ایس کی انڈکشن میں بنیادی مرکز صحت میں کام کرنے کے نمبر سب سے زیادہ ہیں جو کہ پہلے ان سیٹوں پر مستقل ڈاکٹرز کی موجودگی میں بہت کم لوگ حاصل کر سکتے تھے۔ اب جو کام کرے گا وہ فائدہ اٹھا لے گا۔ یاد رہے کہ ڈاکٹرز میں بے روزگاری کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ ایک ’ مریم نواز ہیلتھ کلینک‘ کے حصول کے لیے چودہ سے زائد درخواست گذار موجود ہیں۔ متعلقہ حکام نے کسی ڈاکٹر کے چھوڑ کر جانے کی صورت میں دوسری اور تیسری آپشن بھی اپنے پاس محفوظ رکھی ہے۔
عملی طور پر یہ نظام بہت سی مشکلات ساتھ لایا ہے۔ دو سو سال پرانا نظام بدلنا آسان کام نہیں۔ اب یہ حکومت کے سوچنے کا کام ہے کہ اسے کیسے کامیاب کرنا ہے؟ حکومت کے پاس زیادہ سے زیادہ چار سال ہیں۔ اسے عوام کے پاس جانا ہے۔ اُن عوام کے پاس جن میں اس کی پذیرائی پہلے ہی کم ہے۔

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply