لینن منتخب تصانیف جلد سوم : ایک جائزہ/عامر حسینی

موضوعات : کسان تحریک ، زرعی سوال ، قومی سوال 
آج پاکستان کے سماج میں جہاں طبقاتی استحصال ، قومی اور مذہبی جبر پوری شدت کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ وہیں اس کے خلاف مزاحمت کرنے والے عوام کے خلاف ریاستی جبر بھی پوری طاقت سے جاری و ساری ہے۔ ربڑاسٹمپ پارلیمنٹ، ربڑ اسٹمپ عدلیہ ، کنٹرولڈ پریس اور انٹرنیٹ تک رسائی پر لگائی گئی پابندیاں اور سوشل میڈیا پر برھتا ہوا کنٹرول سامنے کی حقیقت ہے۔
پاکستان کی اس وقت سیاسی اسٹبلشمنٹ پر انہی طبقات کا قبضہ ہے جن کا تعلق اسی حکمران طبقے سے ہے جو یہ سب کچھ کررہا ہے اور وہ ملک کے مختلف علاقوں میں عوامی تحریکوں کا ساتھ دینے کی بجائے ریاستی جبر و اسبتداد کا یا تو ساتھ دے رہی ہیں یا ان معاملات پر مصلحت پسندانہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے عوام کے باشعور سیاسی حلقوں کو “کس طرح کی سیاست اور کس طرح کے مطالبات ” کو آگے لانے کی ضرورت ہے، یہ سوال آج ہر عوام دوست شہری کی زبان پر ہے۔
ایسے وقت میں اسکرا پبلیکشنز کراچی کی جانب سے روس کے عظیم انقلابی دانشور اور دنیا کی پہلی محنت کش طبقے کی ریاست کی تشکیل میں رہنماء کردار ادا کرنے والے انقلابی سیاست دان ولادیمیر الیچ لینن کی منتخب تصانیف کی جلد سوم کا اردو ایڈیشن سامنے آیا ہے۔ جس میں ان بنیادی مسائل پر انتہائی آسان الفاظ میں آگے کا راستا متعین کیا گیا ہے جو آج پاکستان کے سلگتے مسائل بن چکے ہیں اور اسے ہر اس پاکستانی شہری کو پڑھنے کی ضرورت ہے جو موجودہ صورت حال میں حکمران طبقات کے خلاف فیصلہ کن لڑائی لڑنے کا خواہش مند ہے۔
یہ جلد پاکستان کے اندر طبقاتی جدوجہد کی بنیاد پر سیاست کرنے والے ان تمام گروہوں کے دانشوروں کو بھی تفصیل کے ساتھ اور انتہائی توجہ سے پڑھنے کی ضرورت ہے جو اس ملک میں سنجیدگی سے چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ورکنگ کلاس / محنت کش طبقات کی سب سے ترقی یافتہ شکل جو پاکستان کے صنعتی، سروسز سیکٹرز میں کام کرتی ہے کو دیہاتوں میں رہنے والی غریب کسان اور بے زمین مزدوروں کے ساتھ متحد کرکے اور مظلوم اقوام کی قومی جبر کے خلاف مزاحمت طبقاتی لڑائی کے ساتھ جوڑے تاکہ استحصال اور ہر قسم کے جبر و استبداد کے خلاف انقلابی جدوجہد کو آگے بڑھایا جاسکے۔
لینن کی منتخب تصانیف کی یہ تیسری جلد “کسان سوال”، “زرعی سوال ” اور “قومی سوال” پر ایسے رہنماء اصول متعین کرتی ہے جن کی روشنی میں ان تین اہم سوالات پر پاکستان میں جدوجہد کا ایک انقلابی جمہوری تناظر اور پروگرام مرتب کیا جاسکتا ہے۔ لینن “کسان سوال ” پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ روس میں زمیندار اشرافیہ (بڑے زمینداروں) کے خلاف کسانوں کی موجودہ جدوجہد اپنے معروضی معنوں میں کسان غلامی کی باقیات کے خلاف جنگ ہے۔ موجودہ زمیندارانہ معشیت میں “سرمایہ داری اور کسان غلامی کی حصوصیات ملی جلی ہیں۔ اس لیے سوشل ڈیموکریٹک جماعت کو اپنے پروگرام میں سرمایہ داری کے خلاف خالص پرولتاری / انقلابی شہری محنت کش طبقے کی سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کو کسان غلامی کے خلاف عام جمہوری اور عام کسان جدوجہد کے ساتھ مشترک کرلینا چاہئیے اور اس کا سب سے پہلا اور مرکزی مطالبہ بڑی مالکان کی اراضی کی ضبطی ہونی چاہئیے۔ “کسان سوال” کا ایک حصّہ ” دیہات کے غریبوں سے خطاب” ہے جس میں وہ انہیں بتاتے ہیں کہ روس کے شہروں میں “مزدوروں کی جدوجہد” کیا ہے؟
“مزدور کہتے ہیں، ہم لاکھوں محنت کش بس اب کافی لمبے عرصے تک اپنی کمر دوہری کرچکے، مالداروں کے لیے ہم نے بہت کام کرلیا، اور بھیک منگوں کی طرح بہت رہ لیا، ان کو بہت ڈاکہ ڈالنے دیا، ہم یونیوں میں متحد ہونا چاہتے ہین، اور تمام محنت کشوں کو ایک بڑی مرکزی یونین میں اکٹھا کرنا چاہتے ہین۔ بہتر زندگی کے لیے اجتماعی کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا سماج جس میں سب کام کریں، نہ کوئی مالدار ہو نہ غریب، اس کام/ محنت کا پھل سب کو ملنا جاہئیے ناکہ مٹھی بھر مالداروں۔ مشینوں اور دیگر اصلاحات کو سب کا کام آسان بنانے کی حدمت کرنی چاہئیے ناکہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کی قیممت پر چند لوگوں کو مالدار بنادیا جائے۔ ایسا نیا سماج ہی مساوی نظام ہوتا ہے اور پارٹی اس نظام کے قام کی بات کرے اسے “سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی” کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔”
لینن لکھتے ہیں ، [سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کی جدوجہد کا پہلا مطالبہ اور نعرہ “سیاسی آزادی ” ہے۔ سماج میں سیاسی آزادی ہوگی تو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کو کھلے عام محنت کش طبقات کو باہم متحد اور مضبوط کرنے کا موقعہ ملے گا۔] لینن پھر دیہات کے غریبوں کو بہت تفصیل سے بتاتے ہیں کہ کیسے روس میں ان کو آج جو آزادی حاصل ہے وہ روس میں “زر خرید کسانوں کے نظام ” کے وقت میں ان کی غلامی کی بدترین شکل سے کسقدر بہتر ہے۔ آج کسان کو قانونی طور پر حق حاصل ہے کہ وہ کسی قسم کی جائیداد حاصل کرلے، اگرچہ آج بھی اسے اپنی برادری سے الگ ہونے کی پوری اجازت نہين ہے۔ آج زمیندار انہیں کوڑے لگانے کا قانونی حق نہیں رکھتا لیکن جسمانی سزا ان کو اب بھی دی جاسکتی ہے۔ کنبے کے معاملات، جائیداد کے معاملات میں قانونی ازادی کسان اور شہری مزدوروں دونوں کو حاصل ہے۔ لیکن اپنے عام معاملات کا انتظام خود کرنے کی آزادی نہ روسی محنت کش طبقے کو حاصل ہے نہ عام روسی عوام کو حاصل ہے۔ بحثیت مجموعی عوام حکومتی عہدے داروں کے زر خرید ہیں۔ وہ اخبار، کتاب تک چھاپنے کی ازخود آزادی نہیں رکھتے انہیں اس کے لیے حکومتی عہدے داروں کی اجازت کی ضرورت ہے۔ ریاستی معاملات پر انہیں کوئی اختیار حاصل نہین ہے بلکہ اس مسئلے پر کوئی جلسہ، جلوس یا عوام سے رابطے کے لیے بھی وہ حکومتی عہدے داروں کی اجازت کے محتاج ہیں۔ جس طرح دیہات کے غریب کسان اور کھیت مزدرو بڑے زمیندار اشرافیہ کے غلام ہیں، ایسے ہی شہروں اور قصبوں کے روسی عوام حکومتی عہدے داروں کے غلام ہیں۔ الغرض لینن اس موقعہ پر روس کے سیاسی نظام ، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کا جو نفشہ کھنیچتے ہیں وہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے آج کے پاکستان کی ریاست کے قانونی، انتظامی اور عدالتی نظام کا نقشہ کھینچ رہے ہوں۔
“کون سے قوانین کے مسودے تیار ہورہے ہیں، کونسی جنگوں کی تیاریاں ہورہی ہیں، کون سے ٹیکسز لگائے جارہے ہیں، کن کو برخاست کیا جارہا ہے، عوام و نہ پتا ہوتا ہے نہ ان سے مشاورت کی جاتی ہے۔ اس ملک میں ان گنت عہدے دار ہیں / حکومتی/ ریاستی اداروں کی بھرمار ہین جن کے اخراجات پورے کرنے کے لیے عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار اور ملکی وغیرملکی قرضوں کا انبار جمع ہے جو پھر اس ملک کی عوام نے ادا کرنے ہیں۔ ریاستی عہدے دار بے آواز لوگوں پر اندھیرے جنگل کی طرح چھائے ہوئے ہیں۔ بے چارہ محنت کش اس جنگل مین اپنا راستا تلاش ہی نہین کرپاتا- کبھی انصاف کی ایک درخواست بھی دن کے اجالے مین نہیں آتی۔ رشوت خوری،لوٹ مار، تشدد اور جبر واستبداد کے خلاف شکایت دن کی روشنی دیکھ نہیں پاتی بلکہ دفتری گھس گھس میں تنہا ہوکر رہ جاتی ہے۔ ۔۔۔۔ عہدے داروں کی فوج، پولیس، خفیہ اہلکار مزاحمت کرنے والزن کو ایذا خانوں میں گھونٹ کر رکھ دے جاتے ہیں۔ جبر واستبداد کا ایک گھنا جالا ہے جس مین غریب مرد و عورتیں پھنس کر مکھیوں کی طرح پھڑاپھڑا رہے ہیں”
“زار شاہی مطلق العنانیت عہدے داروں کی مطلق العنانیت ہے۔ زار شاہی مطلق العنانیت کے معنی عہدے داروں پر اور خاص طور پر پولیس پر لوگوں کا جاگیردارانہ انحصار ہے۔ زار شاہی پولیس کی مطلق العنانیت ” ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس کے مزدور وہ پرجم لیکر سڑکوں پر نکلتے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے “مطلق الغنانت مردہ باد!، “سیاسی آزادی ،مردہ باد” ۔۔۔ دیہات کے کروڑوں غریبوں کو بھی شہر کے مزدوروں کے اسی نعرہ جنگ کی تائید کرنی چاہئیے اور اس کو اپنا لینا چاہئیے۔”
لینن نے “دیہات کے غریبوں سے خطاب” نامی کتابچہ 1903ء میں لکھا تھا جسے روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی نے بڑے پیمانے پر روسی دیہاتوں مین تقسیم کیا تھا ۔ آج اس کتابچے کو لکھے ایک سو بائیس سال ہوچکے ہیں ۔ اس کتابچے میں روس کے شہری محنت کش طبقے اور دیہاتوں کے غریبوں کا جو مقدمہ لینن پیش کیا اس ک بنیادی مقدمات آج کے پاکستان کے شہری محنت کش طبقے اور دیہات کے غریبوں کے بارے اتنے ہی متعلقہ اور ناقابل تردید “سچ ” ہے جتنا یہ 1903ء میں روسی شہری مزدور اور غریب دیہاتیوں کے بارے میں متعلقہ اور سچ تھا۔
پاکستان میں کہنے کو ایک وفاقی پارلیمانی جمہوری آئین ہے جو اس ملک کی عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ان کی شہری آزادیوں کا تحفظ کرتا ہے۔ انہیں ریاستی معاملات، ملکی معشیت ، قانون سازی، طلباء یونین، ٹرید یونین ، کسان سبھا بنانے کی آوادی دیتا ہے۔ انہیں آزاد، شفاف انتخابات کے زریعے اپنے نمائندگان چننے کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ انہیں مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے۔ ان کی زبان، ثقافت اور شناخت کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس ملک کے آئین میں ایسی بہت سی شقیں اور قوانین شامل ہیں جو ان سب آزادیوں ، ضمانتوں اور تحفظات کو سلب کرلیتے ہیں۔ اور اس ملک میں شہری محنت کش طبقات ، دیہاتوں کے غریب اور مظلوم و محکوم اقوام کو اس ریاست کی فوجی و سول افسر شاہی اور اس ملک کے سرمایہ دار و بڑی اراضی کے مالکان نے ایسا جال بن رکھا ہے کہ آج کوئی عام شہری اور غریب دیہاتی اس ملک کی قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی، سینٹ ، بلدیاتی اداروں ، حتیکہ اس ملک کے چھوٹے بڑے پریس کلبوں ، ڈسٹرکٹ، تحصیل بار ، صوبائی بار کونسلوں اور ہائیکورٹ بار،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشنوں ، پاکستان بار کونسلز کا عہدے در تک منتخب نہیں ہوسکتا۔ فوج، پولیس ، مقامی انتظامیہ سب کے سب طاقتور دو فیصد اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور عوام پر ایک مطلق العنان مافیا حکومت کررہا ہے۔
حس ناصر عباس نے اسکرا پبلیکشنز کے نام سے پاکستان کے عام محنت کش طبقات کے پڑھے لکھے ، باشعور پرتوں کے لیے لینن کی منتخب تصانیف کی پہلی تین جلدوں کو شایع کیا ہے۔ پہلی دو جلدیں بھی انتہائی اہم مسائل پر بنیادی انقلابی نظریات کو اجاگر کرتی ہیں ۔ یہ جلد بھی انتہائی اہم مسائل پر ان خیالات کو سامنے لیکر آتی ہے جنھیں چھپانے کے لیے آج ریاست کی ساری پراپیگنڈا مشینری مصروف عمل ہے۔
پاکستان میں آج “شہری محنت کش طبقےکا سوال ” ہو یا “کسان سوال ” ہو یا پھر “قومی سوال ” ہو یہ انتہائی سلگتے ہوئے سوال اور مسئلے ہیں ان پر ایسا موقف جو پاکستان کے شہری محنت کش طبقے ، دیہات کے غریبوں اور قومی جبر و استبداد کا شکار مظلوم و مجبور اقوام کی عوام کو متحد و متفق کرسکے اس کے لیے اس تیسری جلد کا مطالعہ انتہائی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سے وہ کنفیوژن دور ہوسکتا ہے جو آج کے نوآبادیاتی سامراجی سرمایہ دارانہ سیاسی، سماجی ، مذہبی ،ادبی ، شاؤنسٹ قوم پرستانہ بیانیوں نے عوام کے اندر پھیلایا ہوا ہے اور ان میں بڑے پیمانے پر مایوسی کو جنم دے رہا ہے۔ ایسا موقف جو پنجاب کے شہری مزدروں ، دیہی غریبوں کو نہ صرف اپنی نجات کا راستہ فراہم کرتا ہے بلکہ وہ ان کی جدوجہد کو بلوچستان ، خیبرپختون خوا ، گلگت بلتستان ، جموں و کشمیر اور سرائیکستان میں نوآبادیاتی سامراجی سرمایہ دارانہ جبر واستبداد کے ستائے ہوئے عوام کی جدوجہد کے ساتھ جوڑ سکتا ہے۔ انہیں پاکستان کے حکمران طبقات کے استحصال، جبر کے ساتھ جڑے بیانیے کے خلاف متحد کرسکتا ہے بلکہ ان کے درمیان جو نسلی ، قومیتی ، لسانی ، فرقہ وارانہ اور موقعہ پرستانہ بیانیے جو ظالم اور مظلوم اقوام کے محنت کش طبقات کے درمیان نفرت ، تعصب اور اس کی بنیاد پر ابھرنے والے فسطائی نظریات و رجحانات کے زریعے تقسیم پیدا کرتے ہیں ان کے حلاف بھی متحد کرکے انہیں پاکستان کے نوآبادیاتی سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کو شکست دینے میں کامیاب کرسکتا ہے۔
تیسری جلد جو 626 صفحات پر مشتمل ہے اس کی قیمت ڈاک خرچ سمیت محض 600 روپے ہے۔ اور اتنی سستی قیمت میں کوئی کتاب ڈیلیوری کی ضمانت کے ساتھ فراہم کرنا اس دور میں خود ایک محیر العقول کام ہے۔ پاکستان کے پڑھے لکھے باشعور محنت کش طبقے ، نوجوان طالب علموں ، ٹريد یونین ، کسان تنظیموں ، اساتذہ کی انجمنوں ، وکلاء ، صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں کو یہ کتاب خرید کر پڑھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اور جو اس کی زیادہ کاپیاں منگواسکیں انہیں یہ کام ضرور کرنا چاہئیے جو غریب پڑھے لکھے شہری مزدور، کسان اور طالب علم ہیں انہیں یہ پڑھنے کو دی جانی چاہئیے۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply