مئی 1998 میں نواز شریف امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیک چکا تھا ،جبکہ بھارت دھمکیوں پر اُترا ہوا تھا، لیکن دھماکوں سے اگلے روز یعنی 29 مئی 1998 کی The New York Times کی رپورٹ شائع ہوئی جو اب بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے جس میں 27 مئی کی رات پاکستان کے وزیراعظم اور بل کلنٹن کے درمیان ہونے والی گفتگو موجود ہے (NYT, 29 May 1998, “Clinton Failed to Persuade Pakistan”).
بل کلنٹن نے پاکستان کے وزیراعظم سے اپیل کی تھی کہ وہ یہ ٹیسٹ نہ کرے اور امریکہ پاکستان کو معاشی مسائل سے نکالے گا وغیرہ، لیکن وزیراعظم کا جواب تھا کہ:
“اگر دنیا بھارت کو ایٹمی دھماکوں پر سزا دینے سے قاصر ہے تو میرے لیے بھی ممکن نہیں کہ آپ کی بات مان لوں۔ اب میرے ہاتھ میں کچھ نہیں۔”
یہ گفتگو کئی امریکی حکام، بشمول سینڈرا کری (US Assistant Secretary) کی یادداشتوں میں بھی موجود ہے، اور پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے بھی اس کا ذکر اپنی کتاب Pakistan and World Affairs میں کیا ہے۔
امریکہ میں اس وقت آدھی رات تھی اور پاکستان میں 28 مئی کی صبح ہو چکی تھی۔ اور اسی دن 3 بج کر 15 منٹ پر پاکستان نے 5 دھماکے کر کے بھارت کے مقابلے میں اپنی ایٹمی قوت ثابت کر دی۔ (Dr. A.Q. Khan, Interview with ARY News, 2004; Dr. Samar Mubarakmand, Geo News, 2008)
اگرچہ یہ معاملہ بہت حساس نوعیت کا تھا اس لیے 11 مئی سے 28 مئی کے درمیان بہت سی قیاس آرائیاں بھی جنم لینے لگی تھیں۔ لیکن مشاہد حسین سید، جو اُس وقت وزیر اطلاعات تھے اور قازقستان کے دورے میں وزیراعظم کے ہمراہ تھے، کے مطابق دھماکوں کی خبر ملتے ہی انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ اب موقع آ گیا ہے کہ بھارت کو جواب دیا جائے (Mushahid Hussain, Interview with Dawn, 2018)۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے مطابق 1983 میں پاکستان نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کر چکا تھا، لیکن افغان وار کی وجہ سے تجربہ نہیں کیا گیا (Dr. Samar Mubarakmand, Nuclear Pakistan: The Making of a Bomb, Documentary, PTV Archives, 2012)۔ 11 مئی ہی کے روز آرمی چیف اور ٹیم کو ٹیسٹ کی تیاری کا حکم بھی دیا جا چکا تھا۔ انہوں نے جنرل جہانگیر کرامت، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، اور آرمی چیف سے رابطہ کیا اور واپسی پر دفاعی کابینہ کمیٹی (DCC) کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔
تاہم، نعیم سالک کی کتاب The Genesis of South Asia Nuclear Deterrence کے مطابق جنرل کرامت نے بیان دیا کہ وزیراعظم نے انہیں کال کر کے فوری تیاریوں کا حکم دیا، جس پر انہوں نے تجویز دی کہ پہلے وزیراعظم واپس آ جائیں اور پھر DCC میں مشاورت کے بعد فیصلہ لیا جائے (Brig. Naeem Salik, Oxford University Press, 2009, pp. 154–158)۔
یہ تاثر ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ فیصلہ صرف فوج نے کیا تھا یا سیاسی قیادت پر مسلط کیا گیا۔ 13 مئی کو وزیرِاعظم کی سربراہی میں DCC کا اجلاس ہوا، جس میں وزیرِخارجہ، وزیرِداخلہ، وزیرِخزانہ، چیئرمین JCSC، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، ڈاکٹر عبدالقدیر خان (KRL) اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند (PAEC) نے شرکت کی (Shamshad Ahmad, 2010)۔
اجلاس میں تمام پہلوؤں پر گہری مشاورت ہوئی۔ ایک طرف بھارت نے پاکستان کو ایٹمی قوت بننے کا موقع دیا تھا تو دوسری طرف سخت معاشی چیلنجز اور عالمی دباؤ بھی موجود تھا۔ ڈاکٹر انجم سرفراز کے مطابق اجلاس ایک جنگی کابینہ کا منظر پیش کر رہا تھا (Dr. Anjum Sarfraz, Pakistan’s Nuclear Deterrence, 2015)۔
حساس تنصیبات کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی۔ کوئٹہ کور کمانڈر کو چاغی کے مقام پر بنائے گئے ٹنلز کی حفاظت کا حکم دیا گیا۔ نیوی نے سمندری گشت بڑھا دی اور فضائیہ نے ائیر پیٹرولنگ شروع کر دی (SIPRI Yearbook 1999; ISPR Archives)۔
تمام اپوزیشن جماعتیں ایٹمی دھماکوں کی حامی تھیں اور سینیٹ نے متفقہ قرارداد منظور کی۔ ڈاکٹر ثمر مبارک کے مطابق انہوں نے وزیرِ اعظم کو بتایا تھا کہ PAEC کو تیاری کے لیے 10 دن درکار ہوں گے۔ ڈاکٹر اشفاق احمد کی بیرونِ ملک سے واپسی کے بعد تیاریاں مکمل قرار دی گئیں۔
14 مئی کو کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں دھماکے کے حق میں فیصلہ ہوا اور وزیرِخزانہ کو ممکنہ پابندیوں کے اثرات پر ایک جامع منصوبہ بنانے کی ہدایت کی گئی۔ انہوں نے تجویز دی کہ غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس کو روپوں میں تبدیل کر دیا جائے، جس سے 7 ارب ڈالر کا ذخیرہ حاصل ہو سکتا ہے، اور ان پر پُرکشش منافع دیا جائے (Ishrat Husain, Governing the Ungovernable, Oxford, 2018, p. 122)۔
وزیرِاعظم نے 18 مئی کو حتمی منظوری دے دی اور 24 مئی کو آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی، جس میں فیصلہ متفقہ طور پر بل منظور کر لیا گیا۔
28 مئی کو نیشنل ڈیفنس کالج (NDC) کے شرکاء نے ایٹمی دھماکوں کے فوائد و نقصانات پر ایک بریفنگ دی، جس میں وزیراعظم، چیئرمین JCSC، سروسز چیفس اور دیگر اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔ بریفنگ میں دھماکوں کی بھرپور سفارش کی گئی (NDC Internal Reports, 1998; Retd Gen. Ehsan ul Haq’s interview, 2015)۔
اسی روز سہ پہر 3:15 پر، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی زیر قیادت ٹیم کے ایک رکن نے “اللہ اکبر” کہہ کر بٹن دبایا۔ تقریباً 35 سیکنڈ بعد زمین لرزی، پہاڑ کی چوٹی کا رنگ بدلا، اور درجہ حرارت 3000 سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔ مجموعی طور پر پانچ دھماکے کیے گئے، جن میں ایک بڑا اور چار کم شدت کے تھے۔ وزیراعظم نے بعد ازاں اعلان کیا کہ پاکستان دنیا کا ساتواں ایٹمی ملک بن چکا ہے۔ چھٹا دھماکہ 30 مئی کو کیا گیا (PAEC Technical Briefing, 1998; Dr. Samar Interview, 2009)۔
28 مئی کو پاکستان میں “یومِ تکبیر” کے طور پر یاد کرتے ہیں کیونکہ اسی دن پاکستان نے دنیا کو بتا دیا کہ اب اس کا وجود ناقابل تسخیر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کی قیادت اور اداروں کی باہم چپقلش پاکستان کے معاشی مسائل حل کرنے میں تاحال ناکام ہے۔ لیکن ہمسائے بھارت کی موجودگی اور جنگی جنون نے پاکستان کو ایک ایٹمی قوت بنانے کی راہ ہموار کی۔
جنگ مسائل کا حل نہیں ہے، لیکن ایٹمی طاقت ہونا دفاعی تحفظ کی ضمانت ضرور ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں