انسان اور مشین کے بیچ دھندلی ہوتی سرحدیں/عدیل ایزد

ہزاروں سال پہلے، انسانوں کو مستقبل کے بارے میں بہت کم علم تھا۔  لیکن معاشرے کے کچھ بنیادی اصول تبدیل نہیں ہو رہے تھے اور لوگ اس کے بارے میں پراعتماد تھے۔ سلطنت کا زوال ہو یا بیماری پھیلے، معاشرے کی ساخت، رہن سہن اور عام آدمی کا کام نہیں بدل سکتا تھا۔ اس وقت، کسان اپنے بچوں کو کاشتکاری سکھاتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انہیں پچاس یا ساٹھ سال بعد بھی ان مہارتوں کی ضرورت ہوگی۔ لیکن آج، ہمیں اس بارے میں کوئی اندازہ نہیں ہے کہ 2050 میں دنیا کیسی ہوگی، لوگ کیسے کام کریں گے، فوج اور بیوروکریسی کیسے کام کرے گی، اور جو کچھ ہم آج سیکھ رہے ہیں، کیا وہ کل کے لیے ضروری بھی ہوگا یا نہیں۔ پہلے یہ بات ماہرین ہی کہتے تھے۔ لیکن اب، جب ہم نے بے شمار مصنوعی ذہانت (AI) کے ٹولز استعمال کیے ہیں، ہمیں اندازہ ہوا ہے کہ یہ کتنی انقلابی چیز ہے اور تبدیلی کی رفتار کتنی تیز ہو گئی ہے۔  ہماری ترقی ایک سیدھی لکیر (linearly) میں ہوتی ہے، لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی ایکسیپوننشل (exponential) یعنی بڑھتی ہوئی رفتار سے ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ تیس قدم سیدھے چلیں تو آپ تیس پر پہنچتے ہیں — یہ (linear) سیدھی ترقی ہے۔ لیکن اگر یہی تیس قدم ایکسیپوننشل انداز میں چلیں تو آپ ایک ارب تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری جیب میں موجود اسمارٹ فون، پچاس سال پہلے کے ساٹھ ملین ڈالر مالیت کے سپر کمپیوٹر سے لاکھوں گنا سستا، ہزاروں گنا چھوٹا اور کئی گنا طاقتور ہے، حالانکہ وہ کمپیوٹر آدھی عمارت کے برابر ہوتا تھا۔

مصنوعی ذہانت (AI) اس تبدیلی کی رفتار کو مزید بڑھا دے گی۔ جو کچھ پہلے سائنس فکشن سمجھا جاتا تھا، وہ آج حقیقت بن چکا ہے۔

چھ سات ماہ پہلے تک ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی مشین اتنی خوبصورت اصل پینٹنگز بنا سکتی ہے،  نظمیں لکھ سکتی ہے، ہم اس سے ایسے بات کر سکتے ہیں جیسے کسی انسان سے کر رہے ہوں، اور یہ بغیر ہر تفصیل بتائے سیاق و سباق سمجھ سکتی ہے۔خودکار آرٹ جنریٹر اور چیٹ بوٹس پہلے سے موجود تھے۔ اور AI  پر برسوں سے کام کیا جا رہا ہے۔ لیکن اب یہ اس لیے اتنی توجہ کا مرکز ہے کیونکہ اب انسان اور مشین کے کام میں فرق کرنا مشکل ہے۔ انسان نے ہمیشہ دماغ کو باہر سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ہمیشہ اس کی تشبیہ باہر کی چیزوں سے دینے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ ہر دور کی جدید ترین چیز کو دیکھ کر ہم اپنے ذہن کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح انسان کے دماغ کو کبھی ہائیڈرالک مشین سے تشبیہ دی گئی، لوگوں کا خیال تھا کہ ہمارے جسم میں طرح طرح کے سیال مادے  ہوتے ہیں جو ہماری جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کی وجہ ہیں۔ بعد میں، اسے ایک ٹیلی گراف کے طور پر دیکھا گیا جہاں ٹیلی گراف کے نظام اور اعصابی نظام کے درمیان مماثلت دیکھی گئی۔کبھی ٹیلی فون ایکسچینج سے تشبیہ دی گئی۔لیکن سب سے غالب تشبیہ کمپیوٹر کی رہی ہے۔ ہمارا دماغ بھی کمپیوٹر کی طرح  معلومات کا حساب اور پروسیس کرتا ہے۔

ہم نے دماغ کی ساخت کو جتنا بہتر سمجھا ہے، ہم نے اس کی ساخت کو خوردبین کے ذریعے دیکھا ہے، ہم نے نیوران کے درمیان رابطوں کو جتنا بہتر سمجھا ہے، اتنا ہی ہم اس کی نقل تیار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ آج کا AI نیورل نیٹ ورک پر کام کرتا ہے جو انسانی دماغ کے افعال کی ہلکی سی نقل کرتا ہے۔ اور آہستہ آہستہ، یہ اپنی فکری اور تخلیقی صلاحیت کو اتنا بہتر کر رہا ہے کہ انسان اور مشین میں فرق کرنا مشکل ہے۔ انسانی تاریخ کے تمام انقلابی لمحات — جنہوں نے ہمیں نئی سمت دی — وہ سب کسی نہ کسی ٹول یا آلے کی ایجاد سے آئے۔ ہم “ٹول بنانے والے جانور” ہیں۔

چاہے وہ درخت سے پھل توڑنے کے لیے لکڑی کا استعمال ہو، آگ پر قابو پانا ہو، یا پہیہ ایجاد کرنا ہو — ہم اپنے اردگرد کے ماحول پر قابو پانے اور اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لیے اوزار بناتے ہیں۔ اور آج، AI بھی ایک ٹول ہے۔ جو لوگ اسے استعمال کریں گے ان کو ان لوگوں پر فائدہ ہوگا جو اسے استعمال نہیں کریں گے۔ لیکن AI نہ صرف ہمیں طاقتور بنائے گا بلکہ یہ ہماری جگہ بھی لے لے گا کیونکہ یہ ہر کام میں اتنا اچھا ہو جائے گا کہ ہم اس کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ جتنا ہم اس پر پرجوش ہیں اتنا ہی تشویشناک بھی ہے۔ کیونکہ مستقبل میں ایک سوال اُبھرے گا کہ ایسا کیا ہے جو تم کرتے ہو اور AI تم سے بہتر، تیز، اور سستا نہیں کر سکتا؟

مورخ اور مصنف یووال نوح ہراری نے اپنی کتاب  Lessons for the 21st Century 21میں ایک مختلف طبقے کا ذکر کیا ہے (Useless Class) — “بےکار طبقہ”۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی میں بہتری آئے گی اور مصنوعی ذہانت علم کے ساتھ ساتھ عام فہم بھی حاصل کرے گی، تب کئی نوکریاں ختم ہو جائیں گی، اور معاشرے کا ایک بڑا طبقہ “بےکار” ہو جائے گا، کیونکہ وہ ایسا کام نہیں ڈھونڈ سکے گا جو AI نہ کر سکے۔

1920 میں اگر کسی کسان کو ٹریکٹروں کی وجہ سے کھیتی باڑی چھوڑنی پڑتی تو وہ ٹریکٹروں کے کارخانے میں نئی نوکری لے سکتا تھا۔1980 میں، اگر کوئی فیکٹری ورکر اپنی ملازمت کھو دیتا ہے، تو وہ سپر مارکیٹ میں کیشیئر کے طور پر کام کر سکتا تھا۔ پیشوں کو تبدیل کرنا ممکن تھا کیونکہ فارم سے فیکٹری اور فیکٹری سے سپر مارکیٹ میں تبدیل ہونے کے لیے زیادہ تربیت کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن 2050 میں، اگر کوئی کیشیئر یا ٹیکسٹائل ورکر کسی AI روبوٹ سے اپنی نوکری کھو دیتا ہے، تو اس کے لیے کینسر کا محقق، ڈرون آپریٹر، یا ہیومن-AI بینکنگ ٹیم کا حصہ بننا مشکل ہو جائے گا کیونکہ اس کے پاس اتنی مہارت نہیں ہوگی۔ ہم مانتے تھے کہ تخلیقی صلاحیت صرف انسانوں کی خاصیت ہے۔ یہ مانا جاتا تھا کہ اگر AI کا پھیلاؤ ہوا بھی، تو تخلیقی کام انسانوں کے لیے بچا رہے گا۔ لیکن یہاں معاملہ الٹ ہو گیا ہے۔ AI سب سے پہلے تخلیقی ملازمتوں کے ساتھ مقابلہ کر رہا ہے۔ ChatGPT ،  DeepSeek،  Claude کسی مصنف کے انداز میں پیراگراف لکھ سکتے ہیں، نئی افسانوی کہانیاں بنا سکتے ہیں۔ E-Dall  اور دیگر  AI امیج جنریٹر نئے اور بہتر فن پارے بنا سکتے ہیں۔ نہ صرف انسان مختلف بے ترتیب چیزوں میں پیٹرن دیکھ سکتے ہیں۔ اب AI بھی ایسا کرنے کے قابل ہے۔ یہ مختلف چیزوں کو جوڑ کر بھی کچھ نیا پیش کر سکتا ہے۔ بنیادی طور پر، تخلیقیت مختلف چیزوں کو جوڑنے کا فن ہے — ربط پیدا کرنا، پیٹرن ڈھونڈنا۔تخلیقی ذہانت تفریح ہے۔ اگرچہ AI تفریح نہیں کر سکتا، لیکن یہ نئے آئیڈیاز پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسے حل اور بصیرت پیش کر سکتا ہے جو بالکل نئے لگتے ہیں۔ اور جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں، AI بے ترتیب چیزوں میں پیٹرن ڈھونڈنے میں انسانوں سے بہتر ہو چکا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ کام کرنے کا طریقہ ہر ایک کا الگ الگ ہے۔ انسان اور AI کے تخلیقی انسپائریشن لینے کے انداز میں فرق ہے۔ جب ہم کوئی تخلیقی کام کرتے ہیں، تو ہم دوسرے فنکاروں سے متاثر ہوتے ہیں، لیکن ساتھ ہی اپنی زندگی کا تجربہ بھی اس میں شامل کرتے ہیں۔ جبکہ AI صرف انسانوں کے کام سے متاثر ہوتا ہے — اس کا اپنا تجربہ نہیں ہے کیونکہ اس نے بیرونی دنیا میں زندگی نہیں گزاری ہے۔

لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

جہاز پرندے کی طرح پر نہیں مارتا — لیکن وہ اُڑتا تو ہے۔

دراصل، AI ہمارے اپنے دماغ کو آئینہ دکھانے کی ایک کوشش ہے۔ ہم Narcissus —”ایک خوبصورت نوجوان جو اپنے ہی عکس پر بے اندازہ فریفتہ ہو کر مر گیا اور نرگس میں تبدیل ہو گیا”— کی طرح اپنے ہی دماغ کا عکس دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ہماری نقل ہے۔ اور جب بھی ہمیں اپنے جیسا کچھ ملتا ہے، جب بھی کوئی دریافت ہماری انفرادیت کے گمان کو توڑتی ہے، جب انسان کی برتری کا تصور جھوٹا ثابت ہوتا ہے، تو ہمیں تشویش ہونے لگتی ہے۔

جب جین گڈال نے دنیا کو بتایا کہ صرف انسان ہی اوزار نہیں بناتے بلکہ چمپینزی بھی یہ کام کرتے ہیں تو لوگوں کو یقین نہیں آیا۔ کیونکہ یہ مانا جاتا تھا کہ صرف انسان ہی اوزار بناتے ہیں — یہی انسان ہونے کی پہچان تھی۔ہم واحد جانور ہیں جو آلہ بناتا ہے۔یہ تھی انسان ہونے کی تعریف۔ یہ خود کو الگ کرنے کا طریقہ تھا۔ لیکن جب اس کی ویڈیو ثبوت کے طور پر دکھائی گئی، تو سب نے مانا۔ اور پھر سوال پیدا ہوا کہ اب کیا کیا جائے؟ کیا ہم مان لیں کہ چمپس بھی ایک طرح سے انسان ہیں؟ ہم سب ایک وجود میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یا ہم انسان ہونے کی کوئی نئی تعریف کریں گے؟

اور آج، ایک مشین جو نہ زندہ ہے، نہ جذبات رکھتی ہے، نہ کبھی ہنسی ہے، نہ کبھی روئی ہے — جو صرف ریاضی اور الگورتھم ہے — وہ ہمارے دماغ جیسی ہے۔وہ بھی کچھ نیا بنا سکتی ہے، اور وہ بھی خوبصورت۔

تو پھر وہی سوال اٹھتا ہے۔

ایسا کیا ہے جو صرف انسان کے پاس ہے؟

کیا چیز ہمیں ممتاز بناتی ہے؟

یا یہ محض ہمارے انا کی حفاظت کا ذریعہ ہے، جو ہمیں زبردستی باقی کائنات سے الگ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے؟

Facebook Comments

عدیل ایزد
قاری اور عام سا لکھاری...شاگردِ نفسیات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply