ہم دونوں ایک دوسرے کو پڑھ رہے ہیں !
ناول ’ کانگریس ہاؤس ‘ مجھے اور میں ناول ’ کانگریس ہاؤس ‘ کو ! میں اسے جھٹلانا چاہتا تھا ؛ ’ نہیں ، میں نے تو یہ سب اس طرح اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ، نہ ٹی وی کے پردے پر ، نہ ہی ایسا سُنا اور پڑھا ‘ ۔ ناول نے جواب دیا ’ ہاں ! مگر سچ یہی ہے ۔‘ اشعر نجمی کا ناول میرے سامنے ، میں کہ صحافی ٹھہرا ، جو سچ دکھا رہا تھا ، وہ اُس سے ، جسے میں سچ سمجھنا چاہ رہا تھا ، کہیں کچھ زیادہ ہی سچ تھا ۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ، میرے سامنے وہ ’ زیادہ سچ ‘ پھر آئے جسے میں قریب قریب بھول چکا تھا ۔ سچ جو انسانی جسم کی پرتوں اور مساموں میں اتر کر اُس کی راتوں کی نیندیں اڑا سکتا ہے ، اُسے خوف کے گھیرے میں لا سکتا ہے اور سیاسی ، قانونی ، سماجی نظام پر لعنت بھجوا سکتا ہے ۔ میں نے تو دیکھا ہے ، لیکن جنہوں نے ، بابری مسجد کی شہادت کے بعد ، ممبئی کے دو مرحلوں کے فرقہ وارانہ فسادات کو نہیں دیکھا ہے ، وہ اس ناول کو پڑھ لیں اور اندازہ کر لیں کہ وہ کیسے خوفناک ایّام تھے ۔ دوست دوست کا ، اور پڑوسی پڑوسی کا دشمن ہو گیا تھا ، اور جگہ جگہ لوگ آگ میں جھونکے جا رہے تھے ، اور جو آگ کی زد میں تھے ، اُن کے جسموں سے چربی پگھل پگھل کر بہہ رہی تھی ۔ جیسے ناصر کے جسم سے : ’’ ناصر کو بالکل پتہ نہیں چلا کہ اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا جا چکا تھا ، اب وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا ۔ اس کے ہاتھ میں بھرا ہوا ریوالور بھی بے کار تھا ۔ ناصر کی بوڑھی ماں ، اس کی بیوی اور پندرہ سالہ بیٹی نسرین کی زندگی کا فیصلہ اب راجیش کے ہاتھوں میں تھا ۔ تلواروں کے سائے میں وہ بھیٹر کے سامنے کھڑی تھیں ۔ مادرزاد بر ہنہ … کوروؤں کے سامنے ہاتھوں سے اپنے ننگے جسموں کو چھپاتی ہوئی دروپدیوں کا رواں رواں پکار رہا تھا :
’ हरि, हरि, अभयम कृष्णा, अभयम’ हरि, हरि, अभयम कृष्णा, अभयम‘
لیکن اس بار کرشن نہیں آئے … شاید اس دن وہ بھی کافی مصروف رہے ہوں گے ۔ پورے شہر کا ہی چیر ہرن ہو رہا تھا … دروپدیاں انہیں آواز دے رہی تھیں ۔ بیچارے اکیلے کہاں کہاں جاتے …. ناصر نے ریوالور پھینک دیا اور پہاڑ جیسا جسم رکھنے والا ناصر دبلے پتلے راجیش کے قدموں پر گر پڑا ۔
’’ تلک نگر کا کنگ کون ؟ ‘‘
اس بار بھیڑ نے خوشی سے اچھلتے ہوئے نعرے کا جواب دیا : ’’ راجیش مہاترے ۔‘‘ اس کے بعد سب کچھ آسان تھا ۔ چتا بھی تیار تھی ۔ ناصر لکڑے والے کی ٹال کی لکڑیاں اس کام کے لیے کافی سے زیادہ تھیں ۔ ناصر کے جسم سے تیل ٹپک رہا تھا ، شعلوں کے درمیان اس کا جسم گل رہا تھا ، وہ سفید پڑتا جارہا تھا ۔ پھر بھیڑ نے اس کی روتی بلکتی ماں اور بیوی کو بھی اسی آگ میں جھونک دیا ۔ راجیش کو جلتے انسانی گوشت کی بو اپنے باکڑے کے کھولتے تیل کے کڑاہے میں چکن فرائی سے اٹھتی بو کی طرح لگی … اس نے زور سے ایک لمبی سانس بھری ۔‘‘
اور ناصر کی بیٹی نسرین ؟
’’ ناصر کی پندرہ سالہ بیٹی نسرین نے بھاگنے کی کوشش کی ، وہاں کھڑے ایک پولیس کانسٹبل نے اسے راستے میں ہی دبوچ لیا اور بھیڑ کی طرف دھکیل دیا ۔ بھیڑ نے اسے بھی ہوا میں اچھال کر آگ کی نذر کرنا چاہا لیکن راجیش مہاترے نے بڑی پھرتی سے اسے درمیان میں ہی دبوچ لیا … کاش وہ اسے آگ سے بچانے میں ناکام ہوجاتا ۔ ’ یہ میرا بدلہ ہے ۔‘ راجیش مسکرایا ۔ اس کی مسکراہٹ میں وحشت بھری طمانیت تھی ۔‘‘
یہ تشدد فرقہ پرستی کے پھیلاؤ کا نتیجہ تھا ، اور آج بھی یہ تھما نہیں ہے ۔ اس کہانی میں بابری مسجد اور اس کی شہادت بھی ہے ، اور ’ منی پاکستان ‘ اور ’ پونیہ بھومی ‘ کی وہ کہانیاں بھی جن کا سایا سارے ملک پر پڑا ہے ، یا یہ کہہ لیں کہ سارے ملک میں ’ منی پاکستان ‘ اور ’ پونیہ بھومی ‘ کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف تشدد پر اتارؤ ہوئے ہیں ۔ لیکن میں یہ بتاتا چلوں کہ یہ فرقہ وارانہ فسادات کا ناول نہیں ہے ۔ شہر بمبئی اور ممبئی دونوں اس ناول میں اپنی پوری بدصورتی کے ساتھ – جس میں خوبصورتی پنہاں ہے – موجود ہیں : ’’ ہم فاک لینڈ سے گزر رہے تھے ۔ ان تنگ گلیوں میں بیڑیوں ، سستی شرابوں ، جگہ جگہ کچرے کے لگے ڈھیروں اور اپنی بدصورتی اور غریبی چھپاتی عورتوں کے جسم سے اُڑتی سستے پر فیوم کی بدبو نے ہمارا بڑھ کر استقبال کیا ۔ چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹ ، جن کا کچن عموماً باہر کی طرف ہوتا ہے ، ان کی بدبو پہلی والی بدبو کے ساتھ آمیز ہو کر اسے اشتہا انگیز بنانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ پسینے میں لت پت باورچی چکن تکہ ، نان ، سیخ کباب ان لوگوں کے لیے بنانے میں کافی مصروف نظر آ رہے تھے جو آج کی رات جسم اور کھانا دونوں سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کا عزم کیے یہاں بھٹک رہے تھے ۔‘‘ لیکن یہ شہر ممبئی کا ناول بھی نہیں ہے ۔ اس میں کوٹھا ہے ، مجرا گاہ اور جسم فروشی بھی : ’’ لڑکوں نے رٹا رٹایا جملہ دہرایا کہ یہاں صرف مجرا ہوتا ہے ، پھر ان میں سے ایک نے سرگوشی کی کہ اگر آپ لوگ کچھ اور بھی چاہتے ہیں تو مجرا کے بعد اس کا بھی انتظام ہو جائے گا ۔‘‘ لیکن یہ جسم فروشی کا ناول بھی نہیں ہے ۔ اس میں سیاسی پستی اور انسانوں کے سیاسی استحصال اور سیاسی تحریکوں کے زوال اور ملک کے بٹوارے کا ذکر بھی ہے ، سنیئے ’ کانگریس ہاؤس کی زبان سے : ’’ ایک روز پگلی کی خلیائی تقسیم ہوگئی ۔ ایک خلیہ سگار والا اپنے ساتھ لے گیا ، دوسرا میرے پاس چھوٹ گیا ۔ میں نے اس سے اظہار ہمدردی کی ، اس کے زخموں پر مرہم لگایا تو مجھ پر وه لوگ نمک پاشی کرنے لگے جواب تک گوروں کے وعدہ معاف گواہ تھے ، حتی کہ وہ سگار والے کے ساتھ مل کر اپنے شہر اپنے صوبے بسا رہے تھے ۔ سگار والے کے جانے کے بعد وہ وعدہ معاف گواہ اچانک اپنی اپنی ماندوں سے باہر نکل کر لوگوں کو اپنی شجاعت کے قصے سنانے لگے اور اپنی پیٹھ خود تھپتھپانے لگے ۔ وہ اس زمین پر اپنی دعویداری ٹھونکنے لگے جس پر کل تک ان کے آقاؤں کا قبضہ تھا اور وہ ان کے رحم و کرم پر زندہ تھے ۔ وہ اس زمین کے سینے پر شگاف ڈال کر اپنی حب الوطنی کے ثبوت مہیا کراتے رہے ۔‘‘ لیکن یہ کوئی سیاسی ناول بھی نہیں ہے ۔ یہ سارے مذکورہ عناصر کو ، قصہ در قصہ کے انداز میں پیش کرنے کا ایک ایسا بیانیہ ہے جو المیوں کے پس منظر اور پیش منظر میں ، اس سارے خطے کو ، جو ہمارا جانا بھی ہے اور انجانا بھی ، ایک جنگل میں تبدیل کردیتا ہے ، ایسا جنگل جہاں چمپنزی سے لے کر چیتوں ، لکڑ بگھوں ، کتوں اور شیر و شیرنیوں تک سب شکاری بنے ہوئے ہیں ، اور کمزور ان کے شکار ۔
ناول میں ممبئی کا کانگریس ہاؤس بظاہر تو علامت ہے ایک ایسی جماعت ، تنظیم ، اور ادارے کی جو سیاسی و سماجی انصاف کے لیے سرگرم رہا ہو ، لیکن اپنی کتھنی اور کرنی کے تضاد سے اب روبہ زوال ہو ، لیکن حقیقتاً یہ ایک ایسے ملک اور سماج کی علامت ہے جہاں سیاسی اور سماجی زوال جنگل راج میں تبدیل ہو چکا ہو ، اور سیما ، نسرین اور سہانی جیسی عورتیں سیاسی استحصال – جس کی ایک شکل ریپ بھی ہے – سے گذرتی ہوں ، اور شکاری ، شکار اور شکار کھیلنے کا عمل اقتدار پر متمکن ہونے کا ایک ذریعہ بن چکا ہو ۔
یوں تو ناول ’ راوی ‘ کی ، جو ایک بے نام مصنف اور وکیل ہے ، اپنے دوستوں کے ساتھ ’ کانگریس ہاؤس ‘ تک جانے کی یادداشت سے شروع ہوتا ہے ، لیکن حقیقی شروعات نسرین کی بیٹی سہانی کے ’ ریپ ‘ کے مقدمہ سے ہوتی ہے ۔ ناول مختلف کرداروں سے گذرتے ہوئے ، جن میں مذکورہ کرداروں کے علاوہ راجن پاسی ، فرید شیخ اور سنیل مورے بھی ہیں ، اور سرکاری وکیل بھی ، جسے لکڑبگھا کہا گیا ہے ، ’ کانگریس ہاؤس ‘ تک پہنچتا ہے ، جہاں بے نام راوی نے ایک کمرہ کرائے پر لے رکھا ہے تاکہ وہ مقدمہ لڑنے کی تیاری کر سکے ۔ اس کمرے میں تین کھڑکیاں ہیں ، جو آگے چل کر ناول کا کردار بن جاتی ہیں ۔ یہ کمرہ اسی کمرے کے پارٹیشن والے حصے سے ، جسے کسی اور نے شاید کرائے پر لے رکھا ہے ’ ڈسکوری چینل ‘ اور ’ اینیمل پلینیٹ ‘ کی رننگ کمینٹری اور جانوروں کی آوازوں سے گونجتا رہتا ہے ۔ آگے چل کر یہ آوازیں ناول کا کردار بن جاتی ہیں ۔ اشعر نجمی نے کھڑکیوں کا کردار کے طور پر بڑا نادر استعمال کیا ہے ، ایک کھڑکی کھولی جاتی ہے تو ’ کانگریس ہاؤس ‘ کی عمارت کے ساتھ حال میں ملا جلا ماضی سامنے آجاتا ہے ؛ سگار پیتے ہوئے محمد علی جناح ، اپنے نام والے ہال کو عوام کے لیے وقف کرتے جناح اور سخت لہجے میں گفتگو کرتے جناح کی تصویریں ابھرتی ہیں ، گاندھی جی کی تصویر ابھرتی ہے ، جو ایک خط میں پنڈت نہرو کی بہن کو ڈانٹ رہے ہیں کہ ’’ سوروپ ! اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو میں کبھی بھی سید حسین کی طرف اس طرح کی دوستی کے احساسات نہیں رکھتا ‘‘ ۔ ان کھڑکیوں میں ساورکر نہرو اور سردار پٹیل کی شبیہیں بھی ابھرتی ہیں ، چلتی پھرتی بولتی اور ملک کی حقیقی سیاست کو عیاں کرتی ۔ اور نریندر مودی کی شبیہ بھی ابھرتی ہے ، بغیر نام کے لیکن خوب واضح ۔ جب دوسری کھڑکی کھولی جاتی ہے ، تو کانگریس ہاؤس کے پڑوس کی عمارت ’ این بی کمپاؤنڈ ‘ نظر آتی ہے ، اپنے ماضی اور حال کے ساتھ ۔ کانگریس ہاؤس کبھی کانگریس پارٹی کا دفتر اور آزادی کی تحریک کا مرکز تھا ، اور این بی کمپاؤنڈ خوبصورت اداکاراؤں ، مجرا کرنے والیوں ، ہدایت کاروں ، اداکاروں اور فنکاروں سے بھرا رہتا تھا ۔ اب دونوں اجڑ چکے ہیں ۔ تیسری کھڑکی بار بار کھولنے کی کوشش کے باوجود نہیں کھلتی ، لیکن اس دن جب سہانی کے مقدمے میں اپنی ’ دلیل ‘ کے بعد بے نام راوی کمرے میں پہنچتا ہے ، تو تیسری کھڑکی کھولنے پر آسانی سے کھل جاتی ہے ، اور وہ منظر نظر آتا ہے جس کی بِنا ماضیٔ قریب کے ہندوستان میں پڑ چکی تھی ، اور حال میں پختہ ہو چکی ہے ، مستقبل میں مزید پختہ ہو سکتی ہے : ’’ میں نے چھوٹی کھڑ کی کھول دی … بغیر کسی کوشش کے … بغیر کسی مشقت کے … کھڑکی کے باہر گھپ اندھیرا تھا … لیکن تھوڑی دیر بعد اس اندھیرے سے باہر نکلتا ایک خوفناک جنگل مجھے اپنی طرف بڑھتا ہوا محسوس ہوا … ایک زندہ جنگل …. قریب اور قریب … اب وہ اتنا قریب تھا کہ میں اسے چھو سکتا تھا … لیکن اُلٹا اس نے مجھے پکڑ لیا… وہ مجھے جکڑتا چلا گیا … جنگل اس چھوٹی کھڑکی سے کمرے میں داخل ہو رہا تھا… میری دہشت بھری وہ آخری پیچ تھی جو میں نے سنی ۔‘‘
اس سے پہلے کا ایم منظر ہے کہ کانگریس ہاؤس اور این بی کمپاؤنڈ کی عمارتیں ہلتے سرکتے ایک دوسرے کے قریب پہنچتی ہیں ، اور جب کانگریس ہاؤس جھٹکوں سے ہلنے لگتا ہے ، تو این بی کمپاؤنڈ اسے سہارا دے دیتا ہے ، اور دونوں ایک ہو جاتے ہیں ، پھر وہاں صرف گھنگروں کی جھنکار ہی سنائی دیتی ہے ۔
ساری علامات ، استعارے اور تشبیہات ’ پگلی ‘ ، ’ وعدہ معاف گواہ ‘ ، ’ آقا ‘ ، ’ نپُنسک ‘ وغیرہ واضح ہیں ۔ کانگریس ہاؤس اور این بی کمپاؤنڈ کا ملاپ بھی ایک واضح اشارہ ہے ، کہ سیاست اب مجرا گھر بن گیا ہے ۔ میرے لیے یہ ناول ’ کمال ‘ کا ہے ، اس لیے کہ خبروں کو ، جو میں نے دیکھی ہیں ، ناول میں اس طرح ڈھلتے ہوئے کم ہی دیکھا ہے ۔ یہ ملک کے جنگل بننے کا ایک ایسا ناول ہے ، جو اپنی زبان ، ہئیت اور اپنی بنت اور ابواب کی ’ بامعنی ‘ سرخیوں اور ادیبوں دانشوروں کے دیے گیے اقوالوں کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ اور بے نام وکیل کی کمرۂ عدالت میں آخری جنون سے بھری بحث کے لیے بھی جسے میں ایک ’ نوحہ ‘ سے کم قرار نہیں دے سکتا ۔ اس کے بعد بے نام وکیل کے کمرے میں ’ جنگل گھس آتا ہے ‘ اور صبح کمرے میں اس کی جلی لاش پائی جاتی ہے ۔ اس ’ کمال ‘ ناول کے لیے اشعر نجمی کو بہت بہت مبارک ہو ۔ یہ ناول 160 صفحات پر مشتمل ہے ، قیمت 375 روپیے ہے ۔ ناول میں پروفیسر شافع قدوائی ، سید محمد اشرف اور ابرار مجیب کی آراء شامل ہیں جو اس کی تفہیم میں مدد دیتی ہیں ۔ کتاب کا انتساب ہندی کے معروف ادیب اُدین واجپئی کے نام ہے ۔ موبائل نمبر 9372247833 اور 9910482906 پر رابطہ کرکے یہ ناول حاصل کیا جا سکتا ہے
بشکریہ فیس بک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں