غسان کنفانی ۱۹۳۶ میں فلس طین کے شہر عکا میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۸ کی جنگ اور تباہی نے غسان کی زندگی کو بدل دیا۔ غسان کو جلاوطن ہونا پڑا۔ غسان اپنا وقت میں دمشق ، کویت اور پھر بیروت میں گزارا۔ قدرت نے ان کو لکھنے کا ملکہ دیا ہوا تھا۔ انہوں نے آزادی فلسطین کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف پیلسٹائن میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے ایک اخبار الہدف کے نام سے جاری کیا اور آخری دم تک اس کے مدیر رہے۔ غسان نے ڈنمارک کی ایک استانی سے شادی کی۔ غسان کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا تو وہ اکثر روپوش رہتے۔ روپوشی کے ایام میں ہی انہوں نے ایک ناول ‘الرجال فی الشمس ‘ لکھا جس نے عربی دنیا میں دھوم مچا دی۔ مصری فلم ڈائریکٹر توفیق صالح نے اس کے اوپر المخدوعون نامی فلم بنائی جس کی نمائش پر کئی عرب ممالک میں پابندی لگا دی گئی۔ غسان کنفانی ۱۹۷۲ میں اپنی بھانجی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے تو گاڑی میں فٹ بم سے غسان کنفانی جان بحق ہو گئے۔ یہ مو ساد کی کاروائی تھی۔۔کیونکہ غسان کنفانی فل سطین کی تحریک آزادی کے لیے بہت متحرک تھے لہذا وہ مو ساد کی ناپسندیدہ ترین شخصیات میں شامل تھے۔
غسان کے ناول کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ شاہد حمید صاحب نے انگریزی ترجمہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ جس کا نام ‘دھوپ میں لوگ’ ہے۔ اس کو جہلم بک کارنر نے شائع کیا ہے.
ناول سے پہلے اس کتاب میں تین مضامین شامل ہیں۔پہلا کیرن رائیلی کا ہے جس میں غسان کنفانی کی زندگی اور ان کی فل سطین سے جلاوطنی اور پھر فل سطینی کاز کے لیے جدوجہد کے ساتھ ان کی شخصیت کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اس سے غسان کنفانی کے متعلق کافی جانکاری حاصل ہوتی ہے۔ اس مضمون کا آغاز کیرن نے کنفانی کے اس پر اثر جملے سے کیا ہے۔جو۔کنفانی نے ۱۹۶۰ میں اپنی ڈائری میں لکھے تھے
‘میرے احساسات بہت عجیب ہیں۔ یہ ایک ایسے شخص کے احساسات ہیں جو کام کی تلاش میں کہیں جا رہا تھا کہ سڑک پر چلتے چلتے اچانک اس کا دم نکل گیا’
اتفاق کی بات ہے کہ کنفانی کے لکھے ان الفاظ کی طرح اس کی موت بھی اچانک ہوئی جب کار میں نصب بم پھٹ گیا۔
دوسرا مضمون ایڈورڈ سعید کا ہے جو ان کی کتاب میں سے لیا گیا ہے۔ مسئلہ فل سطین کے حوالے سے ایڈورڈ سعید ایک توانا آواز تھے۔ اپنی کتاب ‘مسئلہ فل سطین ‘ میں انہوں کنفانی کی اس کتاب کا بھی ذکر کیا ہے اور اس کے کرداروں کے اوپر بھی کچھ بات کرکے ان کا تجزیہ کیا ہے۔ اس مضمون میں اس ناولٹ کے علاوہ کچھ مزید ادبی مواد کے متعلق معلومات ملتی ہیں جس میں فل سطین کے مسئلہ کو مختلف انداز سے بیان کیا گیا۔
تیسرا مضمون کنفانی کا اپنا ہے جس میں عکا شہر سے ان کی جلاوطنی اور عرب افواج سے فل سطینیوں کی جڑی امیدوں کا ذکر ہے۔ شروع میں یہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ ہماری جلاوطنی عارضی ہے۔ ہم جلد اپنی سرزمین پر ہوں گے۔ ہمیں عرب افواج صہیو نیوں سے آزادی دلوائیں گی۔ عربوں نے کوشش تو کی مگر ان کی شکست نے تو گویا ان کی جلاوطنی پر مہر ثبت کر دی۔ اس مضمون میں کنفانی کے جذبات جو اپنے سرزمین سے دوری کی تکلیف لیے ہوئے ہیں محسوس کیے جا سکتے ہیں.
یہ کہانی ہے ابو قیس ، اسد اور مروان کی، ان تینوں کی عمریں الگ الگ ہیں مگر ان میں دو باتیں مشترکہ ہیں کہ یہ فل سطینی پناہ گزین ہیں اور تینوں ہی اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے کویت جانا چاہتے ہیں۔ یہ عراق سے کویت جانے کے لیے مختلف اسمگلروں سے رابطہ کرتے ہیں بعد میں ایک ابولخیزان نام کے شخص کے ساتھ جو شروع میں تو معلوم ہوتا ہے کہ پیشہ ور اسمگلر نہیں ہے۔ اس کی کہانی بھی دلچسپ ہے وہ سابقہ فل سطینی مجاہد ہے جو ایک جھڑپ کے نتیجے میں شادی کے قابل نہیں رہا۔ وہ باقی اسمگلروں کی نسبت کم رقم سے ان تینوں کو سرحد پار کرانے کا وعدہ کرتا ہے۔ یہ تینوں اس کے ساتھ اس کی گاڑی کی ٹینکی میں چھپ کر سرحد پار کرتے ہیں مگر شدید گرم موسم فقط ان سے سرحد نہیں عبور کراتا بلکہ ان کی زندگی بھی موت کا سفر طے کرتی ہے۔
کنفانی کا یہ ناولٹ اپنے اندر بہت گہرے معانی رکھتا ہے۔ اس کے کردار اور کہانی کے اندر متعدد پہلوؤں کو دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔
ابو قیس ، اسد اور مروان کے کرداروں میں جلاوطن اہل فل سطین کے اندر پائی جانے والی مایوسی اور محرومی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ابوقیس کی عمر ان سب میں زیادہ ہے۔ اس نے فل سطین کی سرزمین پر سب سے زیادہ وقت گزارا ہے۔ جب شروع میں وہ جلاوطن ہوئے تو اس کو بھی باقی فل سطینیوں کی طرح امید تھی کہ یہ جلاوطنی وقتی ہے۔ اب بھی وہ اپنے زیتون کے درختوں کو یاد کرتا ہے۔
اس ناولٹ کے کرداروں میں مایوسی کا عنصر بھی مشترک ہے۔ تین مختلف عمروں کے لوگوں سے کنفانی نے جلاوطن فل سطینوں کے ہر طبقے کو نمائندگی دی ہے۔ بتایا ہے کہ جیسے ان تین مختلف عمر والے لوگوں کے بظاہر ذاتی مسائل الگ الگ ہیں مگر ان کا حاصل مایوسی ہے۔ یہ مایوسی فقط حالات کی نہیں بلکہ اس میں اجتماعی طور پر عربوں کے کردار سے مایوسی نظر آتی ہے۔ یہ ناولٹ ۱۹۶۲ میں لکھا گیا۔ اس وقت عربوں میں عرب قومیت کا نظریہ بہت مقبول تھا۔ کفنانی کے یہ کردار جب چھپ چھپ کر سرحدیں پار کرتے ہیں تو یہ اس عرب قومیت پر بھی ایک کاری وار بھی ہے کہ تین فل سطینی عربوں کو کس طرح بے یارو مددگار چھوڑ کر باقی سب اپنی دنیا میں مست ہے۔ اس بات کو آج ہم زیادہ بہتر طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں جب ہم دیکھتے ہیں سب عرب ممالک نے مسئلہ فل سطین سے اپنی آنکھیں بند کر رہی ہیں۔
ویسے تو سورج روشنی اور امید کی علامت ہے مگر یہاں سورج کی گرمی حالات کی سختی اور مشکلات کو بیان کرتی ہے۔ جن مشکلات کا اہل فل سطین کو سامنا ہے ان کی عکاسی سورج کی شدید دھوپ میں جلتے اس کے کرداروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ پھر جس طرح یہ کردار اپنا کوئی مددگار نہیں پاتے کچھ ایسا ہی حال فل سطین کا بھی ہے جہاں پر ان کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے ان کے اپنے ہم مذہب اور ہم زبان لوگ بھی ان سے لاپروا ہیں۔
اس ناولٹ کا ایک اور موضوع خاموشی و بے حسی ہے۔ صحراء کی خاموشی ہو یا پھر اس کے مرکزی کرداروں کی مشکلات ، جس طرح سے باقی لوگوں نے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ایسا ہی معاملہ عربوں کا فل سطینیوں کے ساتھ ہے۔ پھر یہ ہی خاموش اہل فل سطین کی مایوسی کو بھی واضح کرتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ان کا استحصال مزید بڑھا ہے۔ جب ابولخیزان ان تینوں لاشوں کو دیکھ کر کہتا ہے کہ تم بولے کیوں نہیں ؟ تم نے ایک بار ٹینکی کو کھٹکھٹایا کیوں نہیں ؟ دراصل اس خاموشی کے پیچھے ایک خوف تھا کہ بولنے پر وہ گرفتار نہ ہو جائیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اجتماعی طور پر بھی ہے جہاں پر اہل فل سطین عربوں کی خاموشی اور بے حسی سے مایوس تو ہوئے مگر بطور احتجاج وہ بولنے کے قابل بھی نہ رہے کہ جس گھٹن زدہ ماحول میں ان کو چھوڑ دیا گیا ہے مزید آلودہ نہ ہو جائے۔
اس خاموشی میں جہاں مایوسی ہے تو ایک موہم سی امید کی رمق اور زندگی کی خواہش بھی ہے کہ شاید خاموشی سے ہم کو کچھ وقت اپنے آپ کو بہتر کرنے کو میسر آ جائے
ابولخیزان کے کردار میں فلس طینیوں کی ناکام مزاحمت نظر آتی ہے۔ جس نے ناکامی کو قبول کرکے اب مزاحمت کو ترک کر دیا ہے۔ اس کی مردانگی کا اختتام، اس کی مزاحمت اور جدوجہد کا اختتام معلوم ہوتا ہے۔ یہ شکست خوردگی کا پتہ دیتی ہے۔ ان کی شکست خوردگی کو مزید ایسے دیکھا جا سکتا ہے کہ ابولخیزان کو بعد میں فقط اپنی فکر ہوتی ہے۔ابولخیزان کا مزاحمت سے اسمگلر کا سفر ایک مزاحمت کار کی موت ہے جس کے اہداف بدل گئے ہیں۔
وہ لوگ جو غیر قانونی طور پر اور چھپ کر دوسرے ملک کی سرحدیں پار کرتے ہیں۔ یہ ناولٹ ان کے المیے کو بھی بیان کرتا ہے۔ ایسے لوگ بیشتر مجبور اور حالات کے مارے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کی امید میں یہ خطرہ مول لیتے ہیں حالانکہ اس سے ان کی جان بھی جانے کا خدشہ ہوتا ہے مگر حالات کو سنوارنے کی امید پر وہ جان کی بازی بھی کھیل جاتے ہیں۔ ابو قیس ، اسد اور مروان کی شکل میں وہ تارکین وطن جو چھپ کر دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں کی زندگیوں کی مشکلات اور مصائب کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
کنفانی کے ناولٹ کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے علامتی کرداروں کو اگر کوئی آج کے تناظر میں دیکھنا چاہیے تو آج کی صورتحال کو سامنے رکھ کر بھی ان کا تجزیہ کر سکتا ہے۔
ناولٹ کی منظر کشی پر بات نہ کرنا انصاف نہیں ہوگا۔ کنفانی نے جس طرح سے صحرا کی تپش ، سورج کی حدت اور کرداروں کی مشکلات کا منظر پیش کیا ہے۔۔وہ بہت درد ناک ہے۔ قاری پڑھتے ہوئے اس درد ناک ماحول اور منظر کو محسوس کر سکتا ہے۔ جو مایوسی ہمیں تینوں کرداروں میں نظر آتی ہے اگر قاری خود کو اس جگہ محسوس کرے تو وہ بآسانی اس درد اور تکلیف کو جان سکتا ہے جو مصنف دکھانا چاہتا ہے۔
آخر میں ترجمے کے بارے میں بھی کچھ کہنا ضروری سمجھتا ہوں۔ جس طرح شاہد حمید صاحب نے اس کا روانی سے ترجمہ کیا ہے پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ ترجمہ ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ کتاب لکھی ہی اُردو میں گئی ہے۔
غسان کنفانی کا یہ ناولٹ علامتی کہانی کے لحاظ سے ایک عمدہ ادبی شہ پارہ ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں