گزشتہ ہفتے تواتر سے چھپنے والی دو خبروں نے نظر کا دامن پکڑا اور سوچنے پر مجبور کیا۔ ایک خبر میں شہر کے نامور ہسپتال اور میڈیکل کالج سے وابستہ ماہرین صحت نے عوام الناس کو خبردار کرتے ہوۓ بتایاکہ “ پاکستان میں ۳۵ فیصد عورتیں اور ۲۸ فیصد بچے obese ہیں اور ہر پانچ افراد میں سے چار افراد کی کمر کا سائز یعنی waist line مقررہ حد سے زیادہ ہے۔
دوسری خبر میں سندھ کے وزیر تعلیم غیر ملکی امداد سے اسکول کے بچوں کو دوپہر کا کھانا مفت دینے کا اعلان کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس پروگرام میں صوبے کے ۸۰ ہزار سکول شامل ہیں۔پروگرام کی افادیت پر بات کرتے ہوۓ انھوں نے بتایا کہ” بچوں کو سکولوں میں دوپہر کا کھانا مفت دینے سےایک جانب غذائی کمی کا شکار بچوں کی عمومی صحت بہتر ہوگی دوسرے سکولوں سے باہربچے سکولوں کی طرف راغب ہوں گے”۔
سندھ، اس کا تعلیمی نظام،نظام سے منسلک افراد،تعلیم سے مفرور بچے،ان سب کے آگے اتنے بڑے بڑے سوالیہ نشان ہیں کہ انھیں کسی اور مسئلے کے ساتھ ملاکے بات نہیں کی جاسکتی۔
یوں تو ہمارا پورا معاشرہ ہی تضادات کا معاشرہ ہے۔ تعلیم اور صحت سے لے کے زندگی کے کسی بھی شعبے کی بات کریں ہر جگہ اعداد و شمار میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔
مجھے یاد آرہا ہے کہ نوے کی دہائی میں آغا خان فاؤنڈیشن نے سکول جانے والے بچوں کی عمومی صحت اور عادات کا ایک تقابلی سروے کیاتھا۔ اس سروے میں مختلف معاشی رہن سہن اور علاقوں کابھی خیال رکھا گیا تھا۔ اس سروے کے مطابق شہر کےنامور انگریزی میڈم سکول کے ۹ سے ۱۴ سال کے بچوں کی اکثریت کا کولیسٹرول اور شوگر کا لیول ان کی عمر کے تناسب سے زیادہ نکلا تھا۔ یہ بات اس وقت کے تمام ماہرین کے درمیان ایک عرصے تک موضوع گفتگو بنی رہی پھر آہستہ آہستہ کاغذوں میں سو گئی۔
مجھے یہ بھی یاد آرہا ہے کہ موجودہ صدی کے آغاز پر ماہر امراض ذیابطیس ڈاکٹر صمد شیرا مرحوم عالمی یوم ذیا بیطس سے لے کے ہر کانفرنس، سیمینار اور عام گفتگو میں اس بات کا چرچا ضرور کرتے تھے کہ “اس مرض کے عالمی اعدادوشمار میں اس وقت پاکستان کا نمبر چودہواں(۱۴) ہےلیکن پاکستانیوں کے کھانے پینے کی عادات، غیر صحت مند انداز زندگی اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ ۲۰۳۰ تک پاکستان ذیابیطس کے حامل افراد کے تناسب سے دنیا میں چوتھے (۴) نمبر پر ہوگا۔
موٹاپا(obesity ) یعنی ہمارا وزن عمر اور قد کے تناسب سے بناۓگۓ یا بتاۓ گۓ پیمانہ سے زیادہ ہونے کا نام ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا ۲۳ فیصد اور WHO کے حساب سے ہر چار افراد میں سے ایک شخص موٹاپے کاشکار ہے یعنی obesity کی لائن میں کھڑا ہے۔
صحت اور مختلف امراض کی بین القوامی تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق موٹاپاobesity پاکستان میں ایک خاموش وبائی مرض کی طرح پھیلا ہوا ہے۔ ہماری بڑوں کی آبادی کا۱۶۰۷۱% obese ہیں۔ ۲۲۰۹% اپنی عمر اور قد کے حساب سے مقررہ وزن کے پیمانے سے آگے ہیں۔ مختلف سروے اور رپورٹوں کے مطابق شہری آبادی کا ۵۰ % اس مرض کا شکار ہے۔
پاکستان میں obesity یا موٹاپا بچوں اور بڑوں میں ایک ایسا بڑھتا ہوا خوفناک مرض ہے جس کی تباہی کا عام انسانوں کو اندازہ ہی نہیں ہے۔ عورتوں کا تناسب مردوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ۱۳۰۴% بڑی عمر کی عورتوں کے بامقابلہ مرد ۷۰۵ % ہیں۔
غور طلب بات یہ کہ ہمارےبچوں کی آبادی کا ایک بہت بڑا نمبر obesity یعنی موٹاپے کی سرحد پر کھڑا ہے جوبہت جلد obese نوجوان لڑکوں، لڑکیوں کے اعداد میں شامل ہوجائیں گے۔ ایک ریسرچ کے مطابق آنے والے سالوں میں سکول جانے والے بچوں کی ۵۰۴ ملین آبادی کا شمار obese میں ہوگا۔
تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق پاکستانی بچوں میں موٹاپے یعنی obese ہونے کے رجحان میں علاقائی رہن سہن اور کھانے کی عادات کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔
جیسے پنجاب میں سکول جانے والے بچوں کی بہت بڑی تعداد وزن کی زیادتی کا شکار ہے۔ ان کا تناسب ۶۶۰۹% ہے ان میں سے ۵۰۸% کنفرم obese ہیں۔ ان اعداد پر شہری ، دیہی علاقوں کی تقسیم شہری علاقوں کا نمبر مزید بڑھا دیتی ہے۔
تمام تحقیقاتی سروے اور ریسرچ رپورٹ کا لب لباب یہ ہے کہ ہمارا رہن سہن بہت ہی غیر صحت مندانہ ہے۔ بڑوں کی تو بات ہی الگ ہے ہمارے بچے اور نوجوانوں کی زندگیوں میں جسمانی سرگرمیوں کا انتہائی فقدان ہے۔ ان کی کھانے پینے کی عادات قطعی غیر صحت مندانہ ہیں۔ عام گھروں میں بھی گھر کے پکے کھانوں کو نظرانداز کرکے فاسٹ فوڈز اور دیگر چکنائی، کولیسٹرول سے بھرپور کھانوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی, سونے پے سہاگہ وہ رنگ برنگے مصنوعی میٹھوں سے بھرے مشروبات ہیں جن کو نوجوان نسل پانی کی جگہ استعمال کر رہی ہوتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ جسمانی سرگرمیوں میں کمی کی بڑی وجہ بچوں، نوجوانوں اور عورتوں کا زیادہ وقت اسکرین کے آگے گزارنا ہے۔ ان کے خیال میں رات دیر گۓ تک جاگنا اور دن کا آغاز بہت دیر سے کرنا بھی غیر صحت مند عمل ہے۔
ماہرین تحقیقات ،طبی ماہرین کے ساتھ مل کے اس نتیجے پربھی پہنچے ہیں کہ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں جس کی آبادی کابہت بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہو ،وہاں موٹاپے کی بیماری کا وبائی امراض کی طرح پھیلنے کا ایک سبب آبادی کے کچھ نمبروں کے پاس پیسے کی زیادتی بھی ہے۔ پیسے کی زیادتی اور شعور کی کمی کے سبب لوگوں کے ہاتھوں میں آنے والا پیسہ کسی مثبت کام میں استعمال ہونے کے بجاۓ کھانے ،پینے اور آرام طلبی میں خرچ ہورہا ہے۔
وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایسے تمام لوگوں کی زندگیاں بہت جلد زندگی کی کوالٹی سے محروم ہوتی چلی جاتی ہیں چھوٹی عمر میں ہی ایسے افراد مختلف بیماریوں کاشکار ہونے لگتے ہیں۔ جیسے ٹائپ ٹو ذیابیطس، دل کے مختلف امراض،بلڈ پریشر ، کچھ اقسام کے کینسر، سانس کا پھولنا،جوڑوں کا درد ، بعد ازاں یہ لوگ ان بیماریوں سے متصل بیماریوں کا حصہ بنتے ہیں۔ جیسے گردوں اور دل کے امراض وغیرہ۔
ان تمام ماہرانہ تحقیقات کی روشنی میں ہم یہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی کھاتی پیتی آبادی کے مستقبل کے آگے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان منہ کھولے کھڑا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں