’ آوازوں والا کردار ‘ : ایک وجودی ناولٹ/ تعارف و تبصرہ : شکیل رشید

جب داخلی شور کانوں کے پردے پھاڑتا ہو اور خارج میں بھی شور ہی کا راج ہو ، تب انسانی وجود پر کیا گذرتی ہے ؟ اس سوال کا جواب ، نوجوان ادیب تالیف حیدر کے پہلے مختصر ناول ( ناولٹ ) ’ آوازوں والا کردار ‘ میں ، تلاش کرنے پر پایا جا سکتا ہے ۔ میں نے جب اس مختصر سے ناول کو پڑھنا شروع کیا تو پہلے سمجھ نہ آیا کہ مصنف کیا کہنا چاہتا ہے ، وہ قاری کو کس سمت لے جا رہا ہے ، اور قاری کیوں مصنف کے ساتھ چلتا چلا جاتا ہے ، کیوں اس شور بھرے ناول کو پڑھنا ترک نہیں کر پاتا یا کر دیتا ؟ آس ناولٹ کا مرکزی کردار ، اس دنیا کے انسانوں کی طرح کرب ، تشنج ، ماضی اور حال کی آوازوں ، مستقبل کے اندیشوں ، شعور اور لاشعور میں رہ رہ کر دوڑنے والی تیزابی لہروں اور آسمان و زمین کی تعمیر کے دیومالائی قصّوں اور ان سے شروع ہونے والی کہانی کے سارے کرداروں کے ایک دوسرے میں گندھ کر زور زور سے چیخنے کا ہدف بنا ہوا ہے ، سارے کرداروں کی چیخیں اسی کے وجود سے پھوٹتی ہیں ، اسی لیے اسے ’ آوازوں والا کردار ‘ کہا گیا ہے ۔ ایک چھوٹا سا اقتباس دیکھیں : ’’ کسی نے گالی دی تو اسے لطف ملا ، کسی نے منھ چڑایا تو وہ مسکرا دیا اور پھر اسی طرح کبھی زمین پر الٹی رکابی کے رگڑنے کی آواز ، کبھی شادیانوں کے بجنے کی صدا ۔ کبھی بارش کی بوندوں کا شور اور کبھی بجلی کے تاروں میں دوڑتے ہوئے کرنٹ کا نغمہ ۔ اس پر ایک رعشہ سا طاری ہوجاتا ۔ وہ ان آوازوں سے اتنا خوف زدہ تھا کہ اب کسی بھی نئی آواز کو اپنے تجربے میں شامل کرنے سے بچنا چاہتا تھا ۔‘‘ یہ ایک ایسا وجود ہے جس کا نہ کوئی نام ہے ، نہ ہی کوئی اور شناخت ، بلکہ اس ناولٹ کے سارے کردار ’ بے نام ‘ ہیں اور ایک ایسے زمانے میں جی رہے ہیں ، جو اپنی حقیقت میں ’ بے زمانہ ‘ ہے ، یہاں تک کہ پڑھتے ہوئے کسی خطے کی شناخت بھی تقریباً ناممکن ہے ! اس بے شناختی کا کیا مطلب ہے ؟ کیا مصنف پڑھنے والے کو ایسی دنیا کی جھلک دکھا رہا ہے ، جو اِس موجودہ دنیا کو عنقریب اس کی ساری سیاسی ، سماجی و اخلاقی قدروں سے عاری کر دے گی ، اور ہم ایک بے رنگ دنیا کے ، جو ہمارے لیے انجانی ہو گی ، باشندے ہوں گے ؟ شاید ایسا ہی ہے ، یا شاید ایسا نہیں ہے ۔ لیکن یہ ’ حفاظتی دستوں ‘ کی کھیپ کی کھیپ ، یہ مختلف حصوں میں بٹا ہوا شہر ، یہ ایک خطے سے دوسرے خطے میں آنے جانے کی دقت ، اور تشدد ! اس کے تو ہم سب ایک حد تک شاہد بھی ہیں اور مشاہد بھی ۔ ہمارے لیے یہ سب بہت زیادہ انجانا بھی نہیں ہے ! شاید اسی لیے قاری ’ آوازوں والا کردار ‘ کے ساتھ ایک وجودی سفر کا حصہ بنا ہوا چلا چلتا ہے ، وہ اسے درمیان میں چھوڑتا نہیں ہے ، اس میں اسے اپنا وجود کہیں نہ کہیں نظر آ جاتا ہے ۔ تالیف حیدر کی اس کاؤش کو سراہا جانا چاہیے ، انہوں نے ایک ایسا وجودی ناولٹ تحریر کیا ہے ، جو پڑھنے والوں کے وجود کو اس ناول سے وابستہ کر دیتا ہے ۔ ایک اقتباس ملاحظہ کریں : ’’ ایک ہفتے سے نہ کوئی حکومتی ادارہ کھلا تھا اور نہ کوئی پرائیوٹ کمپنی ۔ وردی والوں کے بڑے حکام شہر کے دونوں گروہوں کے سیاسی لیڈروں سے میٹنگیں کر رہے تھے اور شہر کے حالات معمول پر لانے میں کوشاں تھے ۔ لال چوک پہ اب تک خون کے دھبے جگہ جگہ چمک رہے تھے ۔ مزدوروں کو شہر سے متصل شاہراہ کے کنارے ایک زمین کا ٹکڑا دے دیا گیا تھا ، جہاں حکومت نے انہیں جھونپڑے بنانے کا ساز و سامان مہیا کروا کے انہیں ان کی ذمہ داری پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ خود اپنے معاشی معاملات سنبھالیں ۔ سیاسی لیڈروں کے بیانات لگاتار عوام کے غصے کو کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ جس کے لیے دونوں جماعتوں کے لیڈر کبھی ایک دوسرے سے گلے ملتے اور ایک دوسرے کو پھولوں کی مالاپہناتے ہوئے تصویریں جاری کرتے ۔ کبھی ایک دوسرے کو کچھ میٹھا اور نمکین کھلاتے ہوئے ۔ شہر والوں کا غصہ بھی اب دھیرے دھیرے کم ہو رہا تھا اور ان کو اپنے نقصان کا احساس ہو چلا تھا جو انہیں فساد کے حاصل کے طور پر مل رہا تھا ۔‘‘ یہ ناولٹ ’ کریٹیو اسٹار پبلی کیشنز ، نئی دہلی ‘ نے شائع کیا ہے ۔ سرورق پر تصویر ناولٹ کے موضوع کی مناسبت سے ہے ۔ ناولٹ صرف 66 صفحات پر مشتمل ہے ، اور قیمت 150 روپیہ ۔ اسے حاصل کرنے کے لیے موبائل نمبر 9540321387 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔

julia rana solicitors

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply