آج بھارت میں ہندوتوا کے زیر اثر مسلمانوں کو پھر “غیر ملکی” اور “حملہ آور” کہا جا رہا ہے۔ ان سے بار بار وفاداری کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں، جیسے وہ اس زمین پر اجنبی ہوں۔ ادھر پاکستان میں بھی بعض مذہبی و اشرافی حلقے ترک، عرب یا افغان النسل ہونے کو فخر کی علامت بنا کر مقامی شناختوں کو کمتر گردانتے ہیں۔ یوں دونوں طرف ایک ہی نوآبادیاتی بیانیے کی مختلف شکلیں ہمیں دکھائی دیتی ہیں۔ ایک طرف “مسلمان بطور غاصب” اور دوسری طرف “عرب النسل مسلمان بطور اعلیٰ و مہذب فاتح”۔
یہ وہی نوآبادیاتی منطق ہے جو کہتی ہے:
“زمین کا کوئی وارث نہیں ۔۔ . سب کہیں نہ کہیں سے آئے ہیں”۔
پہلے آریہ، پھر ترک، پھر مغل — اور اب ہندو یا مسلمان۔ اس منطق کا مقصد ایک ہی ہے: زمین سے مقامی لوگوں کا روحانی و تمدنی رشتہ توڑ دینا، تاکہ اقتدار، طاقت اور قبضہ ہی ملکیت کی بنیاد بن سکے۔
اسی لیے صوفی روایت کی مٹیالی مگر روشن خوشبو، مقامی مسلم شناخت اور دھرتی سے جڑے ہونے کا شعور، سب کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
نوآبادیاتی تاریخ: مسلمانوں کو حملہ آور بنانے کا منصوبہ
جب انگریز برصغیر میں قابض ہوئے تو انہوں نے یہاں کے لوگوں کو آپس میں تقسیم کرنے کے لیے تاریخ کو نئے زاویے سے لکھا۔ ولیم ہنٹر، جیمز مِل، ایلفنسٹن جیسے مؤرخین نے ایسی تاریخ مرتب کی جس میں مسلمان “ظالم غیرملکی”، “حملہ آور بادشاہ”، اور “ہندوؤں پر ظلم کرنے والے اجنبی” بن کر سامنے آئے۔ اس کا مقصد واضح تھا:
ہندوؤں کو مسلمانوں سے متنفر کیا جائے، تاکہ انگریز بطور “منصف” اور “امن پسند” طاقت کے طور پر قبول کیے جائیں۔
اسی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر ہندوستانی ملکیت سے دور رکھا گیا ۔ انہیں صرف باہر سے آئے ہوئے “چراغ بردار” دکھا کر یہ باور کرایا گیا کہ وہ اس زمین کے اصل وارث نہیں۔
ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:
“انگریز مؤرخین نے مسلمانوں کو ‘غیر ملکی حملہ آور’ قرار دے کر یہ تاثر پیدا کیا کہ وہ اس دھرتی کے وارث نہیں، تاکہ ہندو اکثریت ان سے مستقل نفسیاتی فاصلہ محسوس کرے۔”
عائشہ جلال اس بیانیے کی سیاسی چالاکی کو بے نقاب کرتے ہوئے کہتی ہیں:
“نوآبادیاتی تاریخ نگاری نے مسلمانوں کو حملہ آوروں کی اولاد بنا کر پیش کیا تاکہ ان کے قوم پرست دعووں کو مشکوک بنایا جا سکے، اور انگریزوں کو غیر جانب دار حکمران دکھایا جا سکے۔”
اورواشی بٹالیا (“Partition: The Long Shadow”) کے مطابق:
“نوآبادیاتی ریاست نے مسلمان کو ایک ازلی اجنبی — ترک، افغان، مغل — کے طور پر متعارف کروایا، تاکہ ہندو شناخت کو سچا ‘قوم’ قرار دیا جا سکے۔”
تاریخی حقیقت: برصغیر کے مسلمان مقامی ہیں
تاریخ، جینیات، لسانیات اور ثقافت سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت باہر سے نہیں آئی بلکہ مقامی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔
ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق:
“برصغیر کے اکثر مسلمان مذہب کی تبدیلی کے نتیجے میں وجود میں آئے، اور ان کے آباء و اجداد مقامی تھے، نہ کہ باہر سے آئے ہوئے عرب یا ترک۔”
ڈاکٹر طارق رحمان (“Language and Politics in Pakistan”) لکھتے ہیں:
“پاکستان کے مسلمانوں کا نسب زیادہ تر مقامی ذاتوں سے ہے، اور اسلام کی قبولیت کا بڑا سبب صوفیاء کی تعلیم، سماجی انصاف اور مساوات کا پیغام تھا۔”
آڈری ٹرشکی (“Aurangzeb: The Man and the Myth”) کہتی ہیں:
“یہ تصور کہ بھارتی مسلمان غیر ملکی ہیں، نوآبادیاتی دور میں پیدا کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر بھارتی مسلمان مقامی باشندے ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا۔”
رچرڈ ایٹن (“The Rise of Islam and the Bengal Frontier”) میں لکھتے ہیں:
“برصغیر میں اسلام عسکری فتح سے نہیں بلکہ صوفیاء کی دعوت، اور مقامی سماجی تغیرات سے پھیلا۔ اسلامائزیشن زیادہ تر مقامی سطح پر ہوئی، نہ کہ عربی یا فارسی ثقافت کے غلبے سے۔”
جینیاتی تحقیق: ایک ہی زمین، ایک ہی نسل
جدید ڈی این اے تحقیق سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ برصغیر کے مسلمان، ہندو، سکھ۔۔ سب کی جینیاتی ساخت تقریباً یکساں ہے۔
ISOGG
اور دیگر اداروں کے مطابق جنوبی ایشیا کی تمام قوموں میں Y-کروموسوم کی اقسام جیسے R1a، H1، L، J2 یکساں طور پر پائی جاتی ہیں۔
Punjab، Bengal، Maharashtra، Sindh، UP، Bihar کے مسلمانوں میں یہ تناسب غیر مسلموں جیسا ہی ہے۔
ڈاکٹر لال جی سنگھ، بھارتی ماہر جینیات، کہتے ہیں:
“مذہب سے قطع نظر، بھارتی عوام کے درمیان جینیاتی تسلسل بہت مضبوط ہے۔ مسلمان بھی اسی سرزمین سے جڑے ہوئے ہیں۔”
بہت سے مسلمان قبائل جیسے انصاری، میو، جولاہے، دھنک، مسلی، قصاب — سب دراصل آدی واسی یا مقامی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اسلام کو روحانی برابری، عزت اور انصاف کے پیغام کے تحت قبول کیا۔
مقامی ثقافت میں جذب شدہ مسلم شناخت
برصغیر کے مسلمانوں کی زبانیں پنجابی، سندھی، بنگالی، پشتو، براہوی، سرائیکی وغیرہ ہیں .۔ سب مقامی ہیں۔
ان کے لوک گیت، کہاوتیں، تہوار، لباس، کھانے سب مقامی ثقافت کا حصہ ہیں۔
صوفی ادب — بابا بلھے شاہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی، رحمان بابا، کبیر — سب نے ایسا رنگ اختیار کیا جو مقامی تھا، نہ کہ “عرب” یا “ترک”۔
آشس نندی کہتے ہیں:
“بھارتی مسلمانوں کو بیگانہ (outsider) سمجھنا، ماضی کو طاقت کے زاویے سے دیکھنا ہے، وابستگی کے زاویے سے نہیں۔”
نتیجہ: مسلمان اس زمین کے وارث ہیں
یہ کہنا کہ مسلمان غیرملکی ہیں، صرف تاریخی لاعلمی نہیں بلکہ ایک سیاسی ہتھیار ہے … جس کا مقصد ان کے حقوق، ان کی زمین اور ان کی شناخت کو غیر قانونی ثابت کرنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان، چاہے وہ کسی بھی علاقے سے ہوں، اسی مٹی کے بیٹے ہیں۔ وہ اس زمین کے ساتھ رچے بسے ہیں، اس کی لوک روایتوں، صوفی دانش، اور تہذیبی تسلسل کے وارث ہیں۔ ان کا اسلام کسی تلوار یا حملے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک مقامی روحانی و تمدنی عمل کا تسلسل ہے۔

نوآبادیاتی بیانیہ: “زمین کا کوئی وارث نہیں”
جو لوگ کہتے ہیں کہ “یہ خطہ تو ہمیشہ حملہ آوروں کا رہا ہے” , وہ دراصل استعماری منطق دہراتے ہیں، جس میں زمین کی ملکیت طاقت سے طے ہوتی ہے، رشتے سے نہیں۔
یہی منطق یورپ نے آسٹریلیا، امریکہ، افریقہ میں اپنائی، اور یہی آج ہندوتوا بھی اپناتا ہے، جب وہ مسلمانوں اور آدی واسیوں کو “باہر سے آیا ہوا” قرار دے کر ان کے وسائل پر قبضہ کرتا ہے۔
فرانز فینن لکھتے ہیں:
“زمین کے اصل وارث وہ ہیں جو اس کے زخموں کو اپنے وجود میں سمیٹے ہوئے ہیں۔۔۔ نہ کہ وہ جو تلوار سے آتے ہیں اور خون کے خاندانی شجرے پیش کرتے ہیں۔”
(Fanon, The Wretched of the Earth)
وندنا شیوا کہتی ہیں:
“جو لوگ زمین کے ساتھ ہم آہنگی میں جیتے ہیں، وہی اس کے اصل نگہبان ہوتے ہیں۔۔۔ نہ کہ وہ جو محلوں سے اس پر حکومت کرتے ہیں۔”
آشیس نندی لکھتے ہیں:
“حملہ آور بھلا دیے جاتے ہیں، لیکن وہ لوگ جو زمین کے ساتھ رچ بس جاتے ہیں، وہ اس کی کہانی کا حصہ بن جاتے ہیں۔”
آدی واسی، دراوڑ، گونڈ، سنتال، ناگا جیسی قومیں ہزاروں سال سے زمین سے تہذیبی و روحانی رشتہ قائم کیے ہوئے ہیں۔
اسی طرح، مسلمان گروہ بھی جب اس سرزمین میں بس گئے، یہاں کی ثقافت، زبان، رشتوں، اور مٹی سے جُڑ گئے ، تو وہ “حملہ آور” نہ رہے۔
تیمور، ابدالی، نادر شاہ جیسے لوگ آئے اور چلے گئے ،وہ محض طاقت کے نمائندے تھے۔
لیکن مغل، لودھی، خلجی یہاں بس گئے، شادیاں کیں، دفن ہوئے، مقامی رنگ اختیار کیا ، تو وہ “باہر والے” نہیں رہے۔
مغل، ترک، افغان بھی اگر اس زمین کا حصہ بنے اور اس کے لیے لڑے، اس میں دفن ہوئے ، وہ بھی حصہ بنے
جیسا کہ Ashis Nandy کہتے ہیں:
“Invaders are forgotten, but those who were domesticated by the land become part of its story.”
لہٰذا وارث وہ ہے جو زمین سے رشتہ بنائے، نہ کہ صرف نسل یا فتح کی بنیاد پر دعویٰ کرے۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں