دس سال بعدمیں کہاں ہوں گا؟-خطیب احمد

معلومات کی بمبارٹمنٹ کے اس دور میں یہ طے کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ ہمیں کونسی انفارمیشن اور نیوز کو جاننا چاہیے۔ اس کا سورس قابل اعتماد بھی ہے یا نہیں اور کونسی معلومات ہمارے لیے بالکل غیر اہم ہے۔ بالکل ویسے ہی شیئرنگ کرنے والوں کو بھی کچھ علم نہیں دنیا جہان کا کچھ بھی ملتا ہے اٹھا کر اپنی وال پر چپکا دیتے ہیں۔

وہ دین/مذہب ہو اخلاقیات ہو، سیاسیات ہو، کوئی جذباتی سی وڈیو ہو، کوئی ڈسٹربنگ حادثہ ہو جسے کسی نے فلما کر سوشل میڈیا پر ڈال دیا ہو، یا کامران بشیر مسیح ایک راستہ بتانے والے (نیوی گیٹر) کو فائٹر جیٹ پائلٹ بنانے اور پھر اسلام قبول کروانے جیسی فیک نیوز کا پھیلانا ہو ۔ یا کوئی وائرل کانٹینٹ ہو یا وہ بات ہو جس پر سب ہی بات کر رہے ہوں تو میرا بھی حق بنتا ہے اس ایشو پر لکھا یا بولا جائے۔ بے شک وہ آپکی فیلڈ ہے اس کے متعلق آپ کا علم ہے یا نہیں۔ بس سب بات کر رہے ہیں تو مجھے بھی بہتی گنگا میں نہانا ہے۔

ایشوز اور نان ایشوز میں فرق جاننا بہت ضروری ہے اور پھر ان ایشوز اور نان ایشوز میں دوسری تفریق یہ ہے کہ اس میں ہماری انوالمنٹ اہم ہے یا نہیں۔ نوجوان کیا بوڑھے کیا، مرد و خواتین سبھی اپنی صلاحیتیں اور وقت نجانے کن چیزوں میں گنوا رہے ہیں۔

سوشل میڈیا کے اس دور میں کافی حد تک اندازہ ہوجاتا ہے کہ کوئی ہمارے متعلق جان سکے اور ہم کسی کے خیالات و جذبات و زندگی کو دیکھنے اور گزارنے کا طریقہ جان سکیں۔ یہاں کچھ لوگ ان گائیڈڈ میزائل کی مانند ہیں۔ بس دھماکہ کرنا ہے کیسا بھی ہو جہاں بھی ہو بے شک اس میں خود ہی کیوں نہ مارے جائیں۔

ایک لمحے کو رک کر یہ دیکھنے اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم جو پڑھ اور سن اور پھر لکھ یا بول رہے ہیں۔ کیا وہ ہمارے لیے اور ہماری آڈئینس کے لیے واقعی پڑھنے کے قابل ہے بھی یا نہیں؟

انٹرٹینمنٹ مہیا کرنے والیاں اور والے تو اب ہر دوسرے گھر میں جنم لے کر کہیں نہ کہیں کسی بھی روپ میں اپنی اپنی مداری لگا کر بیٹھے ہیں۔ آپ بھی کیا ایک انٹرٹینر بنیں گے؟ یہی رہ گیا ہوا ہے؟ جو آپ نے پچھلے ہفتے یا ایک مہینے میں شئیر کیا یا پڑھا سنا، اس کا جائزہ لے کر دیکھیے اس سے کیا فرق پڑا ہے آپ کی ذاتی زندگی میں؟

ہماری ترجیحات کیا بنتی جا رہی ہیں؟ ٹک ٹاکرز کے ٹھمکے دیکھنا؟ لوگوں کی گاڑیاں اور بڑے بنگلے دیکھ کر انکے متعلق باخبر رہنا؟ شاید ہمارے اوپر کوئی جادو ہو چکا ہے کہ ہم اور کچھ بھی بن جائیں بس غلطی سے بھی Productive نہ بن سکیں۔ اپنے لیے اپنے اہل و عیال اور قوم و ملت کے لیے اور یہ ہر گز نہ دیکھ سکیں کہ میری لائف ایسی ہی رہی تو دس سال بعد خود کو کہاں دیکھتا ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply