ابّا پیارے/آصف حسین

چند ماہ پہلے  یہ کتاب موصول ہوئی۔ گاہے مصروفیات کی وجہ سے پڑھ نہ  سکا لیکن کتاب گھر میں وارد ہو اور والدہ کی توجہ سے محروم رہے، ہو نہیں سکتا۔ اس بیچ جبکہ میں پیشہ ورانہ مصروفیات ، عید تہوار اور چند ایک تقریبات میں مصروف تھا، والدہ نے یہ کتاب پڑھ لی۔
کبھی کبھار آتے جاتے پوچھ لیتا تھا۔ آپ کو کتاب کیسی لگی؟ بتانے لگیں تم پڑھو گے تو ہی معلوم ہوگا۔ لیکن اولاد  نے والدین کے لئے جو یہ ستائشی کام کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اوپر سے کتاب کو اس پیرائے میں آشکار کیا ہے کہ  ذی روح گرچہ اپنے بچپنے لڑکپن میں تھوڑی سی بھی قابلِ بیان رمق محسوس کرتا ہے تو اپنے گزرے زمانوں میں رہ آتا ہے ۔ بعینہ والدہ کی زبان پر اس دوران نانا جان نانی جان کے قصے رواں ہوگئے ۔ گزر بسر کیسی تھی، والدین کی قربانیاں عید تہوار ، غم خوشی کیسے رہے ایک خاص ترتیب سے زندہ ہوگئے ۔

اس واسطے دلچسپی بڑھی ،گو کہ  ابھی چند کتب صرف اس واسطے سرہانے رکھی ہیں کہ  پڑھا جائے، مگر۔۔
خیر یہ کتاب پڑھنی شروع کی تو کئی ابواب ِ زندگی ذہن میں گردش کرنے لگے۔

خیال یہ آیا کم و بیش ہم سب ہی کے والدین اس بات کے حقدار ہیں کہ  ان کی دیانت داری، جفا کشی ، قابلیت اور قربانیوں کو کسی نا کسی طرح خراج تحسین پیش کیا جائے  ۔
اور کتاب اس کی ایک بہترین صورت ہوسکتی ہے  ۔شمع اختر انصاری اور اسماء اختر انصاری نے بیٹیاں  ہونے کا حق  ادا کردیا  ۔

کتاب میں قصہ خوانی ، تفصیلات جس خوبصورتی  سے بیان کی گئی ہیں پڑھنے کے قابل ہے۔ اور جا بجا والدین اور بالخصوص والد بزرگوار کے لئے وہ جذبات  دکھائے گئے ہیں جو ہم اکیلے بیٹھ کر بغیر کہے سُنے  محسوس کرتے ہیں ۔

کہتے ہیں بچے والدین کے رہن سہن اور رکھ رکھاؤ سے بہت کچھ سیکھتے ہیں ۔۔ لیکن اتنی توجہ  بیٹیاں ہی دے سکتی ہیں جو کہ  ترکھان کا جیومیٹری لیول بھی اسلوب تحریر میں ڈھال دے۔   کیا  عید، کیا  مضان ،سحر و افطار ، قربانی کا بکرا تک دھیان میں منمنایا ۔ ۔ خریداری کی روداد   سنو تو ایک سے بڑھ کر ایک ۔ والد کی فکر دیکھو تو ہائی وے پر دوڑے    بھاگے  جا رہے ہیں کہ بچی کو ِشفاء ہو ۔
پکنک ہے تو رانی باغ ہی کو حیدرآباد سے یارا ہے، عید تہوار ایک جیسے کپڑے اور جوتے اس متوسط اور غیر متوسط مگر خوددار طبقے کا ہمیشہ سے تعارف رہا ۔
ہم بھی انہی برساتوں میں نہائے ہیں جنہیں ساون بھادوں کہتے ہیں ۔
ٹڈی دَل کا حملہ ان کا نوش فرمانا ، خاص سرمہ بنانا میرے لئے بہت نئی باتیں تھیں ۔۔۔مگر ہائے کیا تمثیل بیان کی گئی ہے ۔
آشیانے کیسے بنتے اور پروان چڑھتے ہیں آپ کو سب کچھ اس کتاب میں مل جائے گا۔ کتاب پڑھ کر کبھی تو منہ میں پانی آ جاتا ہے کہ  سادہ سی ارہر کی دال کی ترکیب اور گوشت کے اچار کی ترکیب تک ایسے لکھی ہے کہ  کوئی آج بنانا چاہے تو بنالے۔
اجناس کا تعارف ان کی شناخت سے ڈپٹی نذیر احمد کی مراۃ العروس یاد آگئی  اور مجھے پورا یقین ہے کے آج کی نسل اس بابت بالکل کچھ نہیں جانتی ۔

ہجرت، شادی پہلا گھر دوسرا گھر، ہنر مندی کا سیکھنا، جفاکشی، انتھک محنت، بچوں کی پیدائش اموات سب ہی اس طرز پر موزوں ہے کہ  ہر گھر میں تھوڑے ردوبدل کیساتھ ہوا ہی کرتا ہوگا مگر ۔۔ان حالات پر رد عمل مثبت ہو تو واقعی ایک مثبت زندگی کا استعارہ بنتے چلے جاتے ہیں ۔

پھر یہ کتاب صرف کتاب ہی نہیں کئی طبی نسخوں اور ایسے پکوانوں کی تراکیب سے مرتب ہے کہ  یہ کسی کہنہ مشق ، جہان سپاس، صاحب علم ، صحبت یافتہ اور بلا کے قابل انسان کا ہی وصف ہوسکتا ہے جو ذی وقار عالی جناب والد بزرگوار نیک اختر کا وصف ہی معلوم دیتا ہے۔

اور دخترانِ صاحب کا کارنامہ یہ ہے کے انہوں نے ان اوصاف کو نا صرف یاد رکھا بلکہ باذوق لوگوں کے لئے ایک مرقع فن و جفاکشی مرتب کرکے رکھ دیا ۔ اس کتاب میں میرے اپنے شہر یعنی حیدرآباد کی باز گشت ہے اسلئے قصہ درویش پڑھنے میں لطف آیا ۔۔۔۔اور تمام جگہیں جو مذکور رہیں وہ زہن میں ایک فلم کی طرح چلنے لگیں ۔
سچ تو یہ ہے کے نت نئے طعام ان کی پکائی اور اس پر بگھار کچھ دیر تک چھن بھن کانوں میں کرتے رہے ۔۔اور رغبت طعام کا نا پوچھئے ہم کئی تراکیب یا تو خود ہی بنائیں گے یا گھر پر بنوائیں گے ۔۔خدا طعام عطاء کرے تو ویسی بھوک بھی۔۔۔کے شکم سیری پر اتنا بڑا شکر منہ سے نکلے کے ایک کتاب ہو جائے جیسا کے ہوا کی ہے ۔
الغرض یہ کے صرف ایک کتاب سے اس گھرانے کے محاسن اتنے اجاگر ہوئے ۔کے یہ کہتے بنتا ہے ایسے شرفاء ، محنت کش اور دیانت دار لوگ ہمارے یہاں بڑھتے چلے جائیں تو زندگیوں سے کسی بھی حال میں جی نا اکتائے ۔۔۔
اللہ تعالیٰ اوصاف و اسلوب ،سلوک اور معاملات میں ہم سب کے احسن رکھے ۔۔۔سیکھنے سکھانے کی ایک دوسرے سے تعلیم عام ہو ۔۔۔۔
اور سب کے سب مسکراتے ہوئے زندگی بسر کریں آمین ۔

آصف حسین

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply