ایک بار ایک حد تم نے پار کرلی
اور
نئی اُڑان بھر لی
تو سمجھو زمین کی قید سے آزاد ہوئی
اب خلا اور وقت
آواز اور روشنی کی
حدوں کو پار کرنا ممکنات میں ہے
تخیل ( پسٹن)pistons کو بھڑ کاتا ہے
پہلے جذبہ اونچا اُڑتا ہے
پھر راکٹ گھن گرج کے ساتھ نکل جاتا ہے۔
درج بالا اشعار دراصل پروفیسر فریدہ فیض اللہ کی انگریزی شاعری کا ترجمہ ہے۔پروفیسر صاحبہ کراچی کے عبداللہ کالج میں انگریزی کی استاد رہی ہیں۔ انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئیں۔ درس کے شعبے سے ان کی محبت اور دلچسپی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ متذکرہ کالج سے ریٹائر منٹ کے بعد وہ آغا خان ایجوکیشن فاؤنڈیشن سے وابستہ ہوگئیں۔
اسی فاؤنڈیشن کی جانب سے وہ بر طانیہ گئیں اور وہاں کی مشہور لیڈز یونیورسٹی سے ایجوکیشن کے مضمون میں ایم ایڈ کیا۔ برطانیہ سے واپسی کے بعد جامعہ کراچی نے انھیں اعزازی ایم فل کی ڈگری دی۔ آغا خان فاؤنڈیشن کے تعلیمی پروگرام سے وابستہ طلبہ وطالبات کو انگریزی زبان سکھاتی ہیں۔ تدریس کے علاوہ فریدہ نے سندھ ٹیکسٹ بورڈ کا انٹر کا نصاب بھی ترتیب دیا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ تعلیم حاصل کرنا اور حاصل کئے ہو ۓ علم کو آگے بڑھانا یا علم کی شمع کو جلاۓ رکھنا ہی ان کا مقصد حیات ہے۔ فریدہ جیسے لوگوں کے لئے ہی شاید یہ مثال بنی ہے کہ they are borne teacher.
دبلی پتلی ہنستی مسکراتی فریدہ فیض اللہ بہت دلچسپ شخصیت کی حامل ہیں۔ انھوں نے ہنستے ہنستے کہا” اب سے کچھ عرصے پہلے تک تو عورتیں خوب دل بھر کے بچے پیدا کرتی تھیں، ہم بھی چھ بہن بھائی ہیں، اوپر تلے کے، ہمارا بچپن بہت رنگین تھا، بہت کھیلتے،شرارتیں کرتے تھے لیکن سب میں ایکا بھی بہت تھا، کبھی کوئی کسی کی شکایت نہیں کرتا تھا، سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے اور مجھ سے تو سارے بہن بھائ بہت پیار کرتے تھے۔
آج کی پروفیسر فریدہ فیض اللہ سے بہن بھائیوں کے بہت پیار کرنے کی وجہ ،ان کا بچپن سے آنکھوں کی بیماری Retinitis Pigments میں مبتلا ہوناہے۔ آنکھوں کی یہ بیماری موروثی ہوتی ہے۔ فریدہ نے یہ اپنے والد سے ملنے والے ورثے میں حاصل کی ہے۔ ان کے والد بھی اس بیماری کا شکار تھے۔ اس مرض کے حامل افراد کو سورج کی روشنی کے ساتھ ساتھ آس پاس کی اشیاء کا تشخص کرنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے سورج کی روشنی کم ہوتی ہے ان کی بصارت کی صلاحیت بھی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ رات کا وقت ان کے لئے مشکلات کا باعث ہوتا ہے پھر بڑھتی عمر کے ساتھ یہ صلاحیت بھی بتدریج کم ہوجاتی ہے۔
فریدہ کا بچپن اپنے والد کی معیت میں زیادہ گزرا ہے۔ وہ ہر جگہ ان کے ساتھ جاتی تھیں۔
ان کے ساتھ قدرت نے ایک اور ضرب یہ لگائی کہ ان کی بصارت بہت بچپن میں ہی ختم ہوگئ مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری پہلے بہن بھائیوں کی مدد سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، بعدازاں بریل سے انھوں نے بھرپور فائیدہ اٹھایا۔ اپنی گزری عمر کے واقعات کو یاد کرتے ہوۓ بتایا کہ انھیں “ سفید چھڑی “ سے بہت چڑ تھی اور وہ اسے استعمال نہیں کرتی تھیں لیکن جب وہ برطانیہ گئیں تو ان کے پروفیسر نے انھیں اس کے استعمال کےلئے قائل کرلیا۔ ایک قہقہہ لگاتے ہوۓ کہا” جب سے یہ چھڑی میری زندگی میں آئی ہے میری دنیا ہی بدل گئی ہے”۔
گزشتہ ہفتے وہ ملیر میں واقع کوہی گوٹھ ہسپتال میں زیر تعلیم مڈوائفری اور ابتدائی نرسنگ کی تعلیم حاصل کرنے والی بچیوں کے روبرو بحثیت مہمان تشریف لائی تھیں۔
پاکستان بھر سے جمع نوعمر بچیوں کو کوہی گوٹھ ہسپتال زندگی کی عملی دوڑ میں شامل کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہے اور ہر اس کردار کو بحیثیت مثال پیش کرتا ہے جنھوں نے زندگی کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جیا ہے۔
کوہی گوٹھ کی سیدھی سادی فضاؤں میں سات مئی کادن پروفیسر فریدہ فیض اللہ کا دن تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں