انسان جب پہلا قدم زمین پر رکھتا ہے تو ماں کی گود اور آسمان کے سائے میں ہوتا ہے۔ اسے نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے، اور اسے کہاں جانا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ سوال اُگاتا ہے — اور سوال وہ بیج ہیں جن سے شعور کی فصل اگتی ہے۔
شعور، انسان کا سب سے انوکھا جوہر ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں انسان نہ صرف اپنا عکس دیکھتا ہے، بلکہ اُس دنیا کی تصویریں بھی، جو اس کے تجربے سے باہر ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ آئینہ بنتا کہاں ہے؟ کیا یہ انسان کے اندر سے پھوٹتا ہے یا باہر سے ڈھلتا ہے؟ کیا خیال محض ایک اندرونی چمک ہے یا بیرونی دھوپ کا عکس؟
ایک چھوٹا سا قصبہ، جس سے ایک فرد کبھی باہر نہ نکلا ہو، اس کے لیے دنیا کا نقشہ اس قصبے کی گلیوں میں سمیٹا ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک چرواہا، جو پہاڑوں کے دامن میں بھیڑیں چرایا کرتا ہے، دنیا کو ایک اور زاویے سے دیکھتا ہے۔ سوچ، جسے ہم ذاتی کہتے ہیں، درحقیقت اُس ماحول کا چُپ چاپ عطیہ ہے جس میں ہم پلتے ہیں۔ گویا شعور ایک بیل ہے، جو سماج کی دیواروں کے سہارے بڑھتی ہے۔
سوال یہ نہیں کہ انسان کیا سوچتا ہے؛ سوال یہ ہے کہ وہ کیسے سوچنے لگتا ہے؟ یہ “کیسے” ہی دراصل اُس ڈھانچے کا پتہ دیتی ہے جو انسان کی انفرادیت کو تخلیق کرتا ہے۔ انسان کی آزادی اسی حد تک ہے جس حد تک اُس کے گرد حالات اسے سانس لینے دیتے ہیں۔ ایک فرد کے خواب کی اڑان، ہواؤں کے رخ سے بے نیاز نہیں ہو سکتی۔
اکثر وہ لوگ جو انفرادی ارادے کی طاقت کے قصے سناتے ہیں، خود اُن نرم صوفوں پر بیٹھے ہوتے ہیں جن کی چمک ان کے خوابوں کی مرہونِ منت نہیں بلکہ ایک مہیا شدہ نظام کی پیداوار ہے۔ ان کی کامیابی، ان کے ہنر سے زیادہ، ان حالات کی مرہونِ منت ہوتی ہے جن میں ناکامی کی گنجائش رکھی ہی نہیں گئی۔
جس طرح گھروں کی بنیاد اینٹوں سے نہیں بلکہ اُنہیں رکھنے کے سلیقے سے بنتی ہے، اُسی طرح معاشرے کی بنیاد بھی افراد سے نہیں، اُن کے مابین قائم تعلقات سے تشکیل پاتی ہے۔ یہی تعلقات، جو بظاہر روزمرّہ کے معمولات ہوتے ہیں، دراصل بڑے سماجی نظام کی بنیاد رکھتے ہیں۔ جس کے پاس وسائلِ حیات کی کنجی ہے، وہی معاشرتی قاموس کا مفسر بنتا ہے۔
شعور کی حقیقت یہ ہے کہ وہ خالص ذاتی نہیں ہوتا۔ وہ فرد کے ساتھ ساتھ، ماحول کی آمیزش سے بنتا ہے۔ انسان مکمل طور پر خودمختار نہیں، نہ ہی مکمل طور پر مجبور۔ وہ ایک ایسے زاوئیے پر کھڑا ہوتا ہے جہاں اس کے ذاتی رجحانات اور گردوپیش کے اثرات ایک دوسرے کو تشکیل دیتے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ معیشت سب کچھ ہے۔ فن، مذہب، رشتے، اور اخلاق بھی انسانی فکر کا حصہ ہیں۔ لیکن جیسے دریا کی سمت زمین کی ڈھلوان طے کرتی ہے، ویسے ہی معاشی تعلقات انسانوں کے مابین تعلقات کی لغت مرتب کرتے ہیں۔
سرمایہ داری کی گلیوں میں آج جو بے ربطی، بے چینی اور بے یقینی چلتی ہے، وہ محض افراد کے بگڑنے کا نام نہیں۔ یہ اُس نظم کا شاخسانہ ہے جس نے انسان کو فرد سے ذرّہ بنا دیا ہے۔ آج اعتماد، محبت، اور سکون، صرف الفاظ کی حد تک موجود ہیں۔ بے چہرہ بھیڑ میں ہر شخص تنہا ہے، اور ہر تنہائی میں ایک چیخ چھپی ہے۔
یہ دنیا جہاں ہر تعلق سودا بن گیا ہے، وہاں بھلائی بھی قیمت مانگتی ہے، اور بدی بھی تحفے کی طرح لپیٹی جاتی ہے۔ ماؤں کے دلوں میں بھی وسوسے ہیں، اور اولاد کے رویے بھی اندیشوں کے اسیر ہیں۔ یہ وقت کی بے رحم گردش نہیں، ایک ایسے نظام کی مکاری ہے جو ہر رشتے کو سودا بنانے پر تلا ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ دنیا افراد سے بنتی ہے، وہ شاید بھول جاتے ہیں کہ افراد خود کن سانچوں میں ڈھلے ہوتے ہیں۔ ہم بچوں کو سلیقہ سکھاتے ہیں، مگر ان کے ماحول کو نہیں بدلتے۔ ان کے ادب و احترام کو رسم میں ڈھالتے ہیں، مگر اُن کی روحوں میں اُمنگ نہیں بھرتے۔ اور جب وہی بچے چھوٹے چھوٹے مفاد کے لیے بڑے خوابوں کو توڑتے ہیں، تو ہم انہیں نہیں، خود کو کوس رہے ہوتے ہیں۔
معاشرہ ایک کشتی کی مانند ہے — اگر اس کے نیچے پانی کی سمت زہر اُبلنے لگے، تو سب مسافر ایک جیسے بھیگتے ہیں، خواہ وہ نچلی نشست پر ہوں یا اونچی چھت پر۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ فرد بدل جائے، تو پہلے ماحول کو، نظام کو بدلنا ہوگا۔
کیونکہ انسان کی تعمیر اُس کی تعلیم سے کم، اور اُس کے گرد کی دنیا سے زیادہ ہوتی ہے.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں