جہاں انسانوں کو ٹیکنالوجی نے بہت سی سہولیات بھی دی ہیں وہاں ٹیکنالوجی انسان کے لیے ایک بڑا خطرہ بن کر بھی سامنے آئی ہے اور لگتا یوں ہے کہ ٹیکنالوجی کے دو مضبوط اوزار یعنی موبائل فون اور اے آئی کا استعمال انسانوں کے لیے ایک بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ موبائل فونز بہت تیزی سے یادداشت کھاتے جا رہے ہیں اور اے آئی تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگا کر انسانوں کو ان بنیادی انسانی خصوصیات سے بہت تیزی سے محروم کرتا جا رہا ہے۔
پہلے زمانے میں انسان کا دماغ ایک لیبارٹری تھا جہاں وہ معلومات کو محفوظ کرتا، انہیں ترتیب دیتا، اور ضرورت پڑنے پر نکالتا تھا۔ موبائل فون نے اس لیبارٹری کوایک کلک پر معلومات کے ڈمپنگ یارڈ میں بدل دیا ہےیعنی پہلے لوگ پچاسوں فون نمبرز، تاریخیں اور راستے زبانی یاد رکھتے تھے جبکہ آج ہمیں اپنا نمبر بھی یاد کرنا مشکل لگتا ہے اور اگر اپنا نمبر یاد ہو تو ہو ورنہ اس کے علاوہ ہم کسی کا نمبر بھی یاد نہیں رکھ پاتے کیونکہ یہ سب کچھ “کنٹیکٹس” میں محفوظ ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق 60% سے زائد لوگ اپنے بچوں کے فون نمبرز تک نہیں یاد رکھتے۔ اسے “ڈیجیٹل امنیزیا” (Digital Amnesia) کہا جاتا ہے، یعنی ٹیکنالوجی پر انحصار کی وجہ سے دماغی صلاحیتیں سست پڑ گئی ہیں۔
اے آئی ٹولز جیسے ChatGPT، Midjourney، یا Gemini نے تخلیقی عمل کو “آلہٴ تکرار” بنا دیا ہے۔ انسان اب خالق نہیں رہا، بلکہ کمپوزر بن گیا ہے جو صرف اے آئی کے آؤٹ پٹ کو جوڑتا ہے یا اسے ترتیب دیتا ہے۔ پہلے ایک مصنف کرداروں کے جذبات، مکالموں، اور پلاٹ کو خود گھڑتا تھا۔ آج وہ صرف “پرومپٹ”لکھتا ہے اور اے آئی اسے مکمل کہانی میں ڈھال دیتا ہے۔ اسی طرح آرٹسٹ اپنے خوابوں کو کینوس پر اتارنے کی بجائے اے آئی کو “ٹیکسٹ پرامپٹ” دیتا ہے اور تصویریں جنریٹ کروا لیتا ہے۔یوں جیسے جسم کے پٹھے ورزش کے بغیر کمزور ہو جاتے ہیں، ویسے ہی “تخلیقی پٹھے” بھی غیر فعال ہو رہے ہیں۔ اے آئی کے تخلیقی الفاظ میں وہ “انسانی روح نہیں ہوتی جو کسی درد، خوشی، یا تجربے سے ابھرتی ہے۔ یہ تخلیقات روبوٹک لگتی ہیں۔
ویسے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ایک کہاوت ہے کہ “جہاں بیماری آتی ہے، وہاں دوا بھی ساتھ آتی ہے۔” یعنی جب کیلکولیٹر ایجاد ہوا تو لوگوں نے کہا تھا: “اب بچے جمع تفریق کیسے سیکھیں گے؟” مگر ہوا یہ کہ انسان نے کمپیوٹیشنل سوچ کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اسی طرح کیمرے کے آنے پر مصور ڈرے تھے کہ “اب پورٹریٹ بنانے والا کوئی نہیں رہے گا”، مگر پھر “امپریشن ازم” جیسے نئے آرٹ مکتبِ فکر پیدا ہوئے۔ اسی لحاظ سے اب دیکھتے ہیں کہ اے آئی کے بطن سے کیا نکلتا ہے ؟؟؟
سوال یہ ہے کہ کیا ہم ٹیکنالوجی کو شکست دے سکتے ہیں؟ جی ہاں !ٹیکنالوجی کو “غلام”بنانے کے لیے ہمیں وہی کرنا ہو گا جو ہمارے آباؤ اجداد نے آگ کو جلانے سے بچانے کے لیے کیا تھا یعنی اگ کو کنٹرول میں لانا ۔فی الحال اس سے کنٹرول کرنے کے لیے درج ذیل کام بھی کیے جا سکتے ہیں
روزانہ 10 منٹ موبائل کے بغیر گزاریں ۔
کسی شعر، واقعے، یا فون نمبر کو زبانی یاد کرنے کی کوشش کریں۔
برین گیمز”شطرنج، پزلز، یا کراس ورڈز۔ کھیلیں ۔
اے آئی کو “اسسٹنٹ” سمجھیں،”آقا”نہیں۔ مثلاً اے آئی سے کہانی کا ایک ڈرافٹ بنوائیں، پھر اس میں اپنے جذبات اور تجربات شامل کریں۔
ہینڈ رائٹنگ کی عادت ڈالیں ، قلم سے لکھنا دماغ اور تخیل دونوں کو متحرک کرتا ہے۔
انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر نیا آلہ پہلے خوف پیدا کرتا ہے، پھر انقلابی صلاحیتیں جگاتا ہے۔ اے آئی اور موبائلز بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب ہمیں اپنی “انسانی خوبیوں”کو ٹیکنالوجی کے ساتھ متوازن کرنا ہو گا۔ یعنی جیسے ایک کاریگر ہتھوڑے کو کنٹرول کرتا ہے، ویسے ہی ہمیں اے آئی کو اپنے تخیل کا اکسٹینشن بنانا ہو گا۔

” یاد رکھیں! فنکار وہ نہیں ہوتا ہے جو صرف ٹولز استعمال کرے، بلکہ وہ جو اپنے فن میں اپنی روح ڈال دے۔”
ٹیکنالوجی چاہے جتنی ترقی کر لے، وہ ہماری آنکھوں میں چمکتے خواب یا دل کی دھڑکن نہیں بنا سکتی۔ لہٰذا، گھبرائیں نہیں” بس اپنےانسان ہونے پر فخر کریں! ”
یہی سب سے بڑی بات ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں