(ڈسلیکسیاDyslexia کی حقیقت، رٹے میں دلچسپی نہ رکھنے والے نوے فیصد بچےکیا ذہنی طورپرمعذور ہیں؟ کیااسپیشل اسکول بچوں کو رٹے کیلئے تیار کرنا چاہتےہیں؟)۔ ۔ ۔ ۔ وحید مراد
تعلیم کی دنیا میں ہر بچہ ایک انوکھا تحفہ ہےجو اپنے اندازِ فکر، مشاہدے اور سیکھنے کے مختلف طریقوں کے ساتھ آتا ہے۔ بدقسمتی سے جب تعلیم کا معیار صرف نمبروں اور گریڈز تک محدود ہو جائے، سیکھنے کا مقصد محض رٹنے اور دہرانے تک سمٹ جائے تو وہ بچے جو مختلف انداز میں سوچتے اور سیکھتے ہیں، تنقید اور شرمندگی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
یہی مقام ہے جہاں ہمیں ڈسلیکسیا (Dyslexia) جیسے فطری مظاہر کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ ڈسلیکسیا کسی کمزوری یا معذوری کا نام نہیں بلکہ دماغ کے ایک ایسے انداز کا نام ہے جو رٹے کے روایتی سانچوں میں آسانی سے نہیں ڈھلتا۔ ایسے بچے الفاظ، حروف اور زبان کو عام بچوں کے مقابلے میں ایک مختلف انداز سے پروسیس کرتے ہیں۔ ان کی سیکھنے کی رفتار ضرور الگ ہو سکتی ہے مگر ان کی تخلیقی سوچ، مشاہدے کی گہرائی اور مسائل کو منفرد انداز میں حل کرنے کی صلاحیت لاجواب بھی ہو سکتی ہے۔
رٹا سسٹم کا ڈسلیکسیا والے بچوں پر سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس میں بچے کی اصل صلاحیتوں کو پرکھنے کا کوئی پیمانہ ہی موجود نہیں۔ یہاں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون کتنی جلدی یاد کر سکتا ہے حالانکہ تعلیم کا اصل مقصد سمجھنا، سوچنا، سوال اٹھانا اور نئی راہیں تلاش کرنا ہے نہ کہ محض یاد کر لینا۔
ڈسلیکسیا والے بچوں کو ایسے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جہاں غلطیاں کرنے کی آزادی ہو، سوال کرنے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے، سیکھنے کے کئی راستے کھلے ہوں اور جہاں یہ مانا جائے کہ ہر دماغ اپنی رفتار اور اپنے انداز سے سفر کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ابھی تک آہستہ انداز سے سیکھنے کو شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ والدین، اساتذہ، اور دوست احباب جانے یا انجانے میں ایسے بچوں کو کمتر سمجھتے ہیں، ان پر اضافی دباؤ ڈالتے ہیں یا پھر ان کی صلاحیتوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اگر یہی بچے اپنے انداز میں سیکھنے کی آزادی پا لیں تو شاید آنے والے کل کے بڑے مصور، موجد، لکھاری اور سائنسدان ثابت ہوں۔
اگر تعلیم کا مرکز حقیقی تفہیم، تخلیقی سرگرمیاں اور عملی تجربات ہوں تو کوئی بچہ بھی اپنے آپ کو “ڈسلیکسک” محسوس نہیں کرے گا۔ آج 90 فیصد بچے رٹے بازی میں دلچسپی نہیں لیتے، اسکولوں کے ٹیسٹ اور امتحانات میں ناکام ہوتے ہیں تو کیا ان سب کو ڈسلیکسک کہا جائے گا؟ روزمرہ زندگی میں نارمل طریقے سے رہنے والے بچے تعلیمی میدان میں معذور کیسے ہو سکتے ہیں؟
یہ بچے سمجھنے اور مشاہدہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں لیکن جب انہیں مخصوص انداز میں پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو وہ پیچھے رہ جاتے ہیں اور ناکام سمجھے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ “ڈسلیکسیا” کا لیبل سسٹم کی ناکامی کو چھپانے کی ایک کوشش ہے۔ تعلیم کا مقصد سیکھنے کو فطری اور آسان بنانا ہے نہ کہ بچوں کو ایک مخصوص سانچے میں زبردستی ڈھالنا۔
ڈسلیکسیا کے نام پر چلنے والے بہت سے “اسپیشل اسکول” دراصل بچوں کو روایتی رٹا سسٹم میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بچوں کے ‘سیکھنے کے منفرد انداز’ کو اپنانے کے بجائے انہیں معذورقرار دے کر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبانے کا باعث بنتے ہیں۔ والدین کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کے بچے “نارمل انداز سےسیکھنے” کے قابل نہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جو بچہ عام زندگی میں کامیاب ہے وہ صرف تعلیمی نظام میں ناکام کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ سوال ہمیں تعلیمی نظام سے کرنا چاہیے، بچوں سے نہیں۔
آج “اسپیشل ایجوکیشن”، “تھیراپی سینٹرز” اور “ماہرین نفسیات” کے نام پر ایک بڑی انڈسٹری وجود میں آ چکی ہے جو والدین کو قائل کرتی ہے کہ ان کے بچوں کو “علاج” کی ضرورت ہے۔ جبکہ حقیقت میں مسئلہ بچوں میں نہیں تعلیمی نظام میں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خصوصی اسکولوں کی بجائے عام اسکولوں میں ہی تعلیمی طریقہ کار بدلا جائے اور فہم پر مبنی تعلیم دی جائے۔
تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ جن بچوں کو ڈسلیکسک کہا جاتا ہے وہ کسی نہ کسی میدان میں غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آئن اسٹائن، ایڈیسن، اسٹیو جابز اور لیونارڈو ڈاونچی جیسے عظیم دماغ روایتی تعلیمی نظام میں ناکام قرار دیے گئےلیکن بعد میں دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔
اب ماہرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا “ڈسلیکسیا” واقعی کوئی بیماری ہے یا ایک مصنوعی لیبل۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بچے ایک منفرد زاویے سے سوچتے ہیں اور اگر تدریسی طریقہ کار کو ان کے انداز میں ڈھال لیا جائے تو وہ حیران کن کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔
اگر ہم رٹے کے بجائے فہم پر مبنی تعلیم دیں تو یہ بچے نہ صرف آسانی سے سیکھ سکیں گے بلکہ نمایاں کامیابیاں بھی حاصل کریں گے۔ ڈسلیکسیا کو مسئلہ سمجھنے کے بجائے اسے سیکھنے کے ایک قدرتی انداز کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔ بچوں پر رٹے کا دباؤ ڈالنے کے بجائے ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور فہم پر توجہ دینی ہوگی۔
اسکولوں کے نظام کو ازسرنو ترتیب دیناہوگا، رٹے کی جگہ حقیقی تعلیم رائج کرنا ہوگی تاکہ ہر بچے کی فطری صلاحیتیں نکھر سکیں۔ بچوں کو مخصوص طریقےپر زبردستی یادکروانے کے بجائے تجزیہ کرنے اور عملی طور پر سیکھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اگر تعلیم کو مشاہداتی، تجرباتی اور عملی بنیادوں پر استوار کیا جائے تو کوئی بچہ خود کو “ڈسلیکسک” محسوس نہیں کرے گا۔ ہر بچے کی سیکھنے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے؛کچھ بچے سن کر سیکھتے ہیں، کچھ دیکھ کر، اور کچھ عملی طورپر۔ لہٰذا ایک ہی ماڈل تھوپنےکے بجائے تدریسی طریقوں میں لچک پیدا کرنی ہوگی تاکہ ہر بچہ اپنی فطرت اور رفتار کے مطابق ترقی کر سکے۔
آج وقت ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام پر سوال اٹھائیں، بچوں کے تنوع کو سمجھیں اور قبول کریں۔ تعلیم کو رٹے سے آزاد کر کے تخلیق، جستجو، تجربے اور خوشی کا ذریعہ بنائیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہر بچہ ایک کہانی ہے، ایک خواب ہے، ایک روشنی ہے—اور ہر کہانی ایک جیسے الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔
آئیے آج یہ عہد کریں کہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں ڈسلیکسیا جیسے مظاہر کو کمزوری کے طورپر نہیں بلکہ سیکھنے کے ایک قدرتی اور منفرد زاویے کے طور پر تسلیم کریں گے۔
ہم بچوں کو ان کے انداز اور رفتار سے سیکھنے کا حق دیں گے۔ کیونکہ تعلیم کا مقصد ذہنوں کو قابو کرنا نہیں، انہیں آزاد کرنا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں