10 مئی 2025 کو سی این این نے ایک انتہائی اہم خبر شائع کی جس نے پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں عالمی سفارتی حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس رپورٹ کے مطابق امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کو ایک غیر معمولی فون کال کی۔ خبر کے مطابق وائٹ ہاؤس کے تین مرکزی عہدیدار، نائب صدر وینس، وزیرِ خارجہ مارکو روبیو (جو عبوری نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر بھی ہیں) اور چیف آف اسٹاف سوزی وائلز۔ گزشتہ کئی دنوں سے بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو انتہائی قریب سے مانیٹر کر رہے تھے۔ پھر اچانک جمعہ کی صبح ایک ایسی خفیہ اطلاع امریکی حکام کو موصول ہوئی جس نے واشنگٹن کو فوری سفارتی اقدام پر مجبور کر دیا۔
اس اطلاع کی نوعیت ظاہر نہیں کی گئی، لیکن امریکی حکام نے اسے انتہائی تشویشناک اور ممکنہ ایٹمی تصادم کا پیش خیمہ قرار دیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب وائٹ ہاؤس نے فیصلہ کیا کہ اب محض تماشائی بنے رہنے کی گنجائش نہیں بچی۔ وینس نے خود صدر ٹرمپ کو اس صورتحال پر بریف کیا، پھر مودی کو فون کیا اور بھارتی قیادت کو براہِ راست پاکستان سے مذاکرات اور کشیدگی کم کرنے کے اقدامات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کون سی اطلاع ہو سکتی ہے جس نے امریکہ جیسے سپر پاور کو فوراً حرکت میں آنے پر مجبور کیا؟ اور ایسی اطلاع امریکہ کو کیسے ملی؟
اس کا جواب ہمیں امریکہ کے اُس کثیر الجہتی خفیہ نگرانی کے نظام میں ملتا ہے جو دنیا میں اپنی نوعیت کا سب سے پیچیدہ اور وسیع نظام مانا جاتا ہے۔ اس میں تین بڑے ستون شامل ہوتے ہیں: سیٹلائٹ کی نگرانی، سگنل انٹیلیجنس اور انسانی ذرائع۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں سیٹلائٹس کی۔ امریکہ کے پاس ایسے جدید جاسوس سیٹلائٹس موجود ہیں جو زمین پر موجود ہر حساس مقام کی مسلسل نگرانی کرتے ہیں۔ یہ سیٹلائٹس نہ صرف تصویری نگرانی کرتے ہیں بلکہ تھرمل (حرارت کی) تصویریں بھی لیتے ہیں۔ مثلاً اگر پاکستان میں کہوٹہ یا خوشاب جیسے ایٹمی مقامات پر اچانک سرگرمی بڑھے، یا کسی میزائل ذخیرہ گاہ میں غیر معمولی حرارت پیدا ہو یا کوئی میزائل لانچر میدان میں آئے، تو امریکی سیٹلائٹس فوراً سگنل دے دیتے ہیں۔ ان سیٹلائٹس کی مدد سے زمین پر ایک چھوٹے سے ٹرک کی حرکت تک دیکھی جا سکتی ہے۔
پھر آتی ہے سگنل انٹیلیجنس۔ امریکہ کا نیشنل سیکیورٹی ایجنسی یعنی NSA ریڈیو، سیٹلائٹ، انٹرنیٹ اور موبائل سگنلز کو دنیا بھر میں سنتا اور ریکارڈ کرتا ہے۔ اگر پاک فوج یا اس کے ایٹمی کمانڈ سینٹرز میں کسی قسم کی گفتگو ہو جس میں ‘نصر’ جیسے ٹیکٹیکل نیوکلئر ویپن یا ان کی نقل و حرکت کا ذکر ہو، تو وہ گفتگو خفیہ انداز میں ریکارڈ کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی پیغام کوڈ میں بھی ہو، تب بھی امریکہ کے پاس ایسے الگورتھمز موجود ہیں جو مخصوص لفظوں یا پیٹرنز کو پہچان لیتے ہیں۔ فرض کریں کسی میجر جنرل نے اپنے ماتحت سے کہا “سامان تیار ہے” اور وہ گفتگو خاص علاقے سے نشر ہو رہی ہو جہاں میزائل لانچر کھڑے ہیں، تو یہ ایک سگنل بن جاتا ہے۔
تیسرا ستون انسانی ذرائع کا ہے۔ امریکہ نے گزشتہ کئی دہائیوں میں دنیا بھر میں اپنے نیٹ ورکس بنائے ہیں۔ یہ نیٹ ورک کئی صورتوں میں ہوتے ہیں: سفارتی عملے، این جی اوز، کنٹریکٹرز، یا مقامی مخبر۔ حساس فوجی تنصیبات کے آس پاس کام کرنے والے لوگ یا ریٹائرڈ اہلکار بھی کئی بار ایسی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کسی مخبر نے اطلاع دی کہ ایٹمی وار ہیڈ ایک خاص مقام سے منتقل ہو رہا ہے، تو یہ بھی ایک الرٹ بن جاتا ہے۔
ان تینوں ذرائع سے حاصل شدہ معلومات ایک مرکزی تجزیاتی نظام میں جاتی ہیں، جہاں مصنوعی ذہانت ان کا موازنہ کرتی ہے۔ اگر تینوں ذرائع کی اطلاع ایک دوسرے سے میل کھاتی ہو، تو فوری الرٹ جاری کیا جاتا ہے۔ یہی شاید اس بار بھی ہوا کہ پاکستان کے اندر ایٹمی تیاری یا نقل و حرکت کا واضح اشارہ ملا، اور امریکہ کو خدشہ ہوا کہ بھارت بھی اس کا سخت جواب دے گا، یا دونوں ملک غیر ارادی طور پر ایک ایسے راستے پر چل پڑیں گے جہاں واپسی مشکل ہو گی۔
یہ بھی اہم ہے کہ امریکہ کے پاس ‘ریڈ لائن’ سسٹم موجود ہے، یعنی اگر کسی بھی ملک کی ایٹمی فورسز کچھ خاص قسم کی نقل و حرکت کریں، تو امریکی فوج، سی آئی اے اور وائٹ ہاؤس کو فوراً الرٹ کر دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات بغیر پائلٹ ڈرونز جیسا کہ RQ-4 Global Hawk بھی ان علاقوں کے اوپر تعینات ہوتے ہیں جو کسی بھی ایٹمی کشیدگی کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ خبریں گردش میں تھیں کہ بھارت پاکستان میں اسکی نیوکلیئر ذخیرہ گاہ کیرانا پر حملہ کرنا چاہ رہا ہے تاکہ پاکستان نیوکلیئر وار کی طرف جا ہی نہ سکے اور دوسرا بھارت فضائی اعتبار سے برتری کھو رہا تھا لہذا اس تناظر میں پاکستان کا بلف کرنا شاید جنگی حکمتِ عملی ہو۔
لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ امریکہ نے شاید پاکستان کے کسی ایٹمی مرکز سے ایک میزائل کی نقل و حرکت دیکھی، اس کے ساتھ کچھ ریڈیو گفتگو سنی اور پھر کسی مخبر سے اس کی تصدیق ہوئی اور ان تمام شواہد نے واشنگٹن کو خبردار کیا کہ یہ کھیل کسی وقت بھی بگڑ سکتا ہے۔
اسی لیے وینس نے مودی کو براہِ راست کال کی، اور اُس ’آف ریمپ‘ (off-ramp) کی بات کی جسے امریکی حکام کے مطابق پاکستان ماننے کو تیار تھا۔’آف ریمپ’ سفارتی اصطلاح ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کسی فریق کو لڑائی یا تصادم سے عزت کے ساتھ پیچھے ہٹنے کا راستہ دینا یعنی ایسا حل جس سے فریقین میں سے کوئی بھی اپنی انا یا قومی وقار کو مجروح کیے بغیر کشیدگی کم کر سکے۔
اُس براہ راست کال کے بعد رات بھر سفارتی فون کالز ہوتی رہیں، اور غالباً اسی مداخلت نے ممکنہ ایٹمی تصادم کو روکا۔
ایٹمی اسلحے سے لیس دو ہمسایہ ممالک کے درمیان اگر جنگ صرف منٹوں کے فاصلے پر ہو اور اس کشیدگی کی خبر واشنگٹن میں الارم بجا دے تو ہمیں بطور خطے کے باسیوں کے سنجیدگی سے یہ سوچنا ہوگا کہ جذبات، انا اور سیاسی بیانیے کتنی تیزی سے کروڑوں جانوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ امن کا راستہ، جتنا بھی کٹھن ہو، ایٹمی تباہی سے ہر حال میں بہتر ہے۔ اس لیے زمہ داری صرف حکومتوں پر نہیں بلکہ عوامی رائے، میڈیا اور باشعور حلقوں پر بھی ہے کہ وہ جنگ کے شور میں ہوش کا چراغ جلائے رکھیں۔
بشکریہ فیسبک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں