حالیہ پاک بھارت جنگ نے جنوبی ایشیاء کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا ہے۔ بھارت میں اس جنگ کی تیاری 2014ء میں ہندوتوا آئیڈیالوجی کے اقتدار میں آنے سے شروع ہو چکی تھی۔ آئیڈیالوجی ہمیشہ تھیوری (معقول سیاست) کا الٹ ہوتی ہے اور اپنے ماننے والوں کو اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے کے بجائے دنیا فتح کرنے کا خواب دکھاتی ہے۔ فاشزم کی آئیڈیالوجی نے ہی جرمنوں کو ہٹلر کے ہاتھوں استعمال ہو کر اپنی زندگیاں تباہ کرنے پر قائل کیا تھا۔
اکھنڈ بھارت کا خواب
دنیا فتح کرنے کے احمقانہ خواب کا پہلا مرحلہ اکھنڈ بھارت کے تحت جنوبی ایشیاء کو فتح کرنا تھا۔ اکھنڈ بھارت کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جنوبی ایشیاء کے سب ملک ایک دوسرے کی آزادی کا احترام کرتے ہوئے یورپی یونین کی طرح امن سے رہیں اور ترقی کریں۔ لیکن ہندوتوا کا اکھنڈ بھارت یہ ہے کہ جیسے ہٹلر نے یورپ کو جرمن برتری کے نیچے متحد کرنا چاہا تھا ویسے ہی جنوبی ایشیاء کو برہمن راج کے غلبے میں متحد کیا جائے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بعض لوگ سب مسلمانوں کو اخوان المسلمون کے غلبے کے نیچے متحد دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے اتحاد سے خدا کی پناہ!
اکھنڈ بھارت کے قیام کا پہلا قدم نیوکلیائی طاقت پاکستان کو ختم کرنا تھا۔ چنانچہ افغانستان کے اندر جا کر وہاں سے بلوچ علیحدگی پسندی اور پاکستانی طالبان کو بڑھاوا دیا جانے لگا۔ دوسری طرف بھارتی فضائیہ کو پاکستانی فضائیہ پر برتری دلانے کے لیے رافال جہاز منگوانے کے لیے 8 بلین ڈالر کی خطیر رقم سے سودا کیا گیا۔ وہ سودا کرپشن کے الزامات کی نذر ہوا تاہم دسمبر 2018ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے اس سودے کے حق میں فیصلہ دیا۔
پلوامہ ڈرامہ
14 فروری 2019ء میں پلوامہ کے مقام پر خودکش دھماکے میں بھارت کے 40 اہلکار مارے گئے۔ پرانے مگ 21 جہازوں کے ذریعے بالاکوٹ پر حملہ کیا گیا جس کی ناکامی یقینی تھی۔ پاکستان میں ابھی نندن کے گرفتار ہو جانے کے بعد مودی کو یہ جواز ملا کہ وہ بھارتی رائے عامہ کو جدید ہتھیار خریدنے پر آمادہ کر سکے۔ ابھی نندن کو اس قربانی پر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اب نہ صرف رافال طیاروں کی خریداری اور پائلٹس کی تربیت کا منصوبہ آگے بڑھایا جانے لگا بلکہ اربوں ڈالر خرچ کر کے ایس 400 نامی روسی طیارہ شکن نظام بھی خریدا گیا۔ سوچ یہ تھی کہ اگر پاکستان کے ساتھ ایک محدود جنگ کی گئی، جس میں فضائی حملوں سے اس کی فضائیہ کو ختم کیا جا سکے اور بری فوج کو مشرقی بارڈر پر الجھایا جا سکے تو کے پی کے کو طالبان اور بلوچستان کو بلوچ فاشسٹوں کے حوالے کرنا آسان ہو گا۔ ان میں اتحاد بھی قائم ہو چکا تھا اور وہ ایک بڑا حملہ بھی کر سکتے تھے۔
پہلگام کی شام
22 اپریل 2025ء کو بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک دہشت گرد حملہ ہوا جس میں 26 افراد کو ان کا مذہب پوچھ کر قتل کیا گیا۔ اس حملے نے بھارتی سماج کو ویسے ہی ہلا دیا جیسے 16 دسمبر 2014ء کے آرمی پبلک سکول میں ہوئے قتل عام نے پاکستانی عوام کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مذہب پوچھ کر مارنے نے ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ پاکستان تو خود اسلامسٹ انتہاپسندانہ آئیڈیالوجی سے لڑ رہا ہے اور طالبان قائداعظم کے بجائے ان کے شدید مخالف مولانا حسین احمد مدنی کے پیروکار ہیں۔ وہ پاکستان کو ایک جدید مسلم ریاست نہیں بلکہ ایک فاشسٹ ملا راج میں بدلنا چاہتے ہیں۔ یہ سوچ مولانا مودودی اور سید قطب کی آئیڈیالوجی سے لی گئی ہے جو قائداعظم اور جدت پسند مسلم رہنماؤں کو نام کا مسلمان اور جاہلیت جدیدہ کا شکار کہتے تھے۔ لیکن مودی کے بھارت نے پہلگام دہشتگردی کا الزام پاکستان پر لگایا اور پہلے سے تیار شدہ منصوبے کے تحت ایک مکمل گھیراؤ کا آغاز کیا۔ پاکستانی صحافی جناب نجم سیٹھی نے اس واقعے کو فالس فلیگ آپریشن قرار دیا اور مارچ 2000ء میں امریکی صدر کلنٹن کے دورے کے وقت کیے گئے چھتیس سنگھ پورہ میں 35 سکھوں کے قتل عام سے تشبیہ دی جسے 2006ء میں شائع ہونے والی میڈیلین البرائٹ کی کتاب کے تعارف میں ہیلری کلنٹن نے ہندو انتہاپسندوں کی سازش قرار دیا تھا۔ 23 اپریل 2025ء کو سندھ طاس معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی اور پاکستانی شہریوں کی بے دخلی کا فیصلہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر میں کنٹرول لائن پر توپوں سے گولہ باری شروع ہو گئی۔
سات مئی کی برسات
7 مئی 2025ء کو آپریشن سندور کے تحت پاکستان کے مختلف علاقوں میں میزائل حملے کئے گئے، جن میں براہموس کروز میزائل اور رافال طیاروں کا استعمال ہوا۔ ایس 400 نظام کو پاکستانی سرحدوں کے قریب موجود فضائی اڈوں کی حفاظت پر لگایا گیا تھا۔ انڈین میڈیا پر آئیڈیالوجی کا نشہ چڑھنے لگا۔ جس احمقانہ تکبر کے ساتھ ایرانی اسلامسٹ رہنما کبھی تل ابیب اور حیفا کو خاک میں ملانے کے اعلانات کرتے تھے، وہی زبان انڈین میڈیا پاکستان کے خلاف استعمال کرنے لگا۔ سوشل میڈیا پر گندی گالیوں کا طوفان آ گیا۔ مسلمانوں کی لڑکیاں لونڈیاں بنانے اور کراچی سے پشاور تک شہروں کو تباہ کرنے کے اعلانات کئے جانے لگے۔ البتہ دہلی کے ہٹلر کو ناک پر یوں مکا کھانا پڑا کہ چینی ٹیکنالوجی کی بدولت پاکستان نے تین رافال، ایک مگ 29 اور ایک ایس یو 30 طیارے گرا دیئے۔ یہ مغرب پر چین کی ٹیکنالوجی کی برتری کا پہلا اعلان بھی تھا۔
آٹھ مئی کی اٹھان
8 مئی 2025ء کو آئیڈیالوجی زدہ بھارت نے پاکستانی فضائیہ کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا۔ پاکستانی فضائیہ نے نہایت دانشمندی سے ان ڈرونز پر اپنے دفاعی وسائل ضائع کرنے سے اجتناب کیا تو بھارتی میڈیا پر پاکستان کے دفاعی نظام کے ناکارہ ہونے کا پروپیگنڈہ کیا جانے لگا۔ اس کا مقصد پاکستانی عوام میں افراتفری پھیلانا بھی تھا۔ بھارتی ڈرونز کی پاکستان کے مختلف علاقوں میں گرنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں۔ پاکستان میں مذہبی انتہاپسندوں کے ساتھ مذہب مخالف انتہاپسند بھی ہیں۔ بدقسمتی سے برداشت کی کمی کی وجہ سے معقول لوگوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ جہاں مذہب کو آئیڈیالوجی بنانے والے انتہاپسند اسے پاکستان کی شکست سمجھ کر اپنا نام نہاد اسلامی نظام لانے کا خواب دیکھنے لگے وہیں بعض نام نہاد لبرل بھی فوج کا مذاق اڑانے لگ گئے۔ جبکہ حقیقی لبرل شخص کو معتدل اور معقول ہونا چاہئے۔ اسے جنگ کا مخالف اور دفاع کا حامی ہونا چاہئے۔ اسے پاک فوج کی شکست کی صورت میں ہندوتوا کے قصابوں کے ہاتھوں پاک و ہند میں مسلمانوں پر ہونے والے ممکنہ مظالم کے خطرے سے خوفزدہ ہونا چاہئے۔
سانحۂ نو مئی کی دوسری برسی
نو مئی 2023ء کو پاکستان میں سیاسی فرقہ بندی کا عروج تھا۔ بعض سابقہ جرنیلوں کی حماقت کا نہایت خطرناک نتیجہ نکلا تھا۔ اس دن جو ہوا اس نے دشمن کے حوصلے بھی بڑھائے تھے۔ اب کی بار 9 مئی 2025ء کو پاک فضائیہ نے بھارت پر ڈرون حملے کئے جن کا مقصد بھارتی فضائیہ کو اس مخمصے میں مبتلا کرنا تھا کہ یا تو وہ ان کو گرا کر اپنے دفاعی وسائل ان پر ضائع کرے، یا انہیں بھارت میں جانے دے کہ اس صورت میں بھارتی میڈیا پر مشہور کئے گئے برتری کے بیانیے کو شکست ہو جاتی۔ آئیڈیالوجی کے نشے میں چور بھارتی انتظامیہ کے لیے اپنے لیڈر کی بڑھکوں کو سچ ثابت کرنا زیادہ ضروری تھا، چنانچہ انہوں نے اپنے طیارہ شکن نظام کو استعمال کر کے سینکڑوں سستے ڈرونز گرائے اور بھاری مالی نقصان برداشت کیا۔
جنگ کو دیوانگی کے مرحلے میں پہنچاتے ہوئے آدھی رات کے بعد پاکستان کے متعدد فضائی اڈوں پر میزائیلوں کی بارش کی گئی۔ اب کی بار پاکستانی فضائیہ نے اپنے دفاعی نظام کو متحرک کرے کے کئی ایک میزائلوں کو روکا۔ بھارت سو سے زیادہ طیارے اپنی فضا میں لے آیا۔ اب ٹھوس جوابی کاروائی کے لیے حالات تیار ہو چکے تھے۔ فجر کے وقت پاک فوج نے آپریشن بنیان مرصوص کا اعلان کیا۔ عوام ملک کو درپیش بقا کے خطرے کو دیکھ کر متحد ہو گئے۔ ہمیں سمجھ آ گیا کہ بھارتی مسلمانوں کا دشمن ان سے زیادہ ہمارا دشمن ہے۔ فرقوں اور سیاسی جھگڑوں کو بھول کر سب اکٹھے ہو گئے۔ عقل کی جنون پر فتح کا وقت آ چکا تھا۔ بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے پانچ رافال طیارے گرا دیئے گئے۔ جے ایف 17 تھنڈر نے ایس 400 نظام کو دھوکہ دے کر تباہ کرنا شروع کیا۔ چار گھنٹوں میں ہی بھارت کا فوجی ٹیکنالوجی کی برتری کا دعوی ہوا میں اڑ گیا۔ امریکہ سے درخواست کر کے جنگ بندی کرا لی گئی۔
مولانا آزاد کا بیانیہ ہار گیا
مئی 2025ء کی پاک بھارت جنگ کی مزید تفصیلات تو وقت کے ساتھ سامنے آئیں گی۔ البتہ اب اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ دو قومی نظریہ کوئی آئیڈیالوجی نہیں، بلکہ ایک نہایت محتاط تھیوری تھی جس کی بنیاد جدید دنیا کی سیاست کی گہری سمجھ پر تھی۔ قائداعظم نے یہ جان لیا تھا کہ جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کے لئے ایک ریاست کا ہونا ضروری ہے جس کی طاقت انتہا پسند ہندوؤں سے ہندوتوا کا جن نکال سکے۔ مئی 2025ء کی جنگ میں شکست بھارت کے شہریوں کو آئیڈیالوجی کے نشے سے نکال کر بیدار کر دے گی۔ اب مودی کے لیے اگلا الیکشن جیتنا مشکل ہو گا اور اسے اور اس کے جنونی کارکنوں کو ہر جگہ اس جنگ پر صفائیاں دینی پڑیں گی۔ مولانا آزاد ایک بھولے آدمی تھے جو جنوبی ایشیاء کے بظاہر مہذب سماج کے نیچے دبی ہوئی ان نفرتوں کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ ان کی سوچ صرف اس صورت کامیاب ہو سکتی تھی جب ہندوستان جمہوری معاشرہ رہتا۔ لیکن ہندوستان کے ہندوؤں پر فاشسٹ بیانئے کے غالب آ جانے کے بعد جس کرارے تھپڑ کی ضرورت تھی وہ ایک آزاد مسلمان مملکت ہی لگا سکتی تھی۔ مودی سے بھارتی مسلمان اکیلے نہیں نبٹ سکتے تھے۔ سچ یہ ہے کہ ہندوستان جرمنی سے علم و تہذیب میں پیچھے تھا اور اگر جرمنی جیسے ملک میں ہٹلر پیدا ہو کر یہودیوں کا صفایا کر سکتا تھا تو ہندوستان میں بھی مودی پیدا ہو سکتا تھا۔ یہ بات جناح سمجھ رہے تھے مگر آزاد نہیں سمجھ رہے تھے۔ بھارت کو مودی سے مولانا آزاد نہیں بچا سکے لیکن قائداعظم کے پاکستان کے ہاتھوں شکست ضرور اسے اگلا الیکشن ہرا سکتی ہے۔
اب کیا کرنا ہے؟
اس جنگ میں عامل بابے، صوفی، سیاسی مولوی، حکیم، وغیرہ ہمارے کام نہیں آ سکے۔ اب پاکستان کو جدید علوم میں آگے جانا ہے۔ اب ہمیں ملا صدرا اور سید قطب جیسوں کے جہل مرکب سے باہر آنا ہے اور جدید مغربی سائنس اور فلسفے کو پڑھنا ہے۔ سید قطب کی اسلامسٹ آئیڈیالوجی نے غزہ کو خاک میں ملانے اور ایران جیسے تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ملک کو پے در پے شکستوں سے دوچار کرنے کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔ ہم جمہوری روایات قائم کر کے اور اختلاف برداشت کرنے کو عام کر کے ہی معاشی ترقی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو اب معیشت بہتر کرنی ہے تاکہ ہندوتوا کے اگلے وار سے بھی بچا جا سکے۔ یہ طوفان گزر گیا ہے لیکن اب آرام کرنے کا وقت نہیں ہے۔ پچاس سال بعد ایسا طوفان پھر آ سکتا ہے۔ بھارت اب بھی سائنسی اور معاشی طور پر ہم سے آگے ہے اور اس کمی کو چین سے آلات خرید کر نہیں بلکہ اپنے بچوں کو جدید علوم سکھا کر ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم معاشی اور سائنسی طاقت ہوتے تو شاید دشمن حملہ کرنے سے پہلے کئی بار سوچتا۔
اقوامِ عالم کی ذمہ داری
دنیا کو چاہیے کہ اب دو نیوکلیائی طاقتوں کے درمیان خالصتان کو ایک بفر ریاست کے طور پر قائم کرنے میں بھارتی سکھوں کی مدد کریں۔ پاکستان کو پنجاب کے دونوں حصوں میں قربتیں بڑھانی چاہئیں کہ یہی روشن مستقبل اور پائیدار امن کی امید ہے۔ اس کا ایک طریقہ پنجابی زبان کے رومن سکرپٹ کو پاکستانی پنجاب کے سکولوں میں بنیادی تعلیم کا حصہ بنانا ہے۔ سوشل میڈیا پر دونوں طرف رومن پنجابی ہی لکھی اور سمجھی جا رہی ہے۔ دوسری طرف کشمیر کو بھی ایک آزاد ملک بننا چاہیے تاکہ پرانا تنازعہ حل ہو۔ اس سے خطے میں امن اور خوشحالی آئے گی۔ تجارت اور پیار بڑھیں گے۔ پاکستان ہندوؤں کا نہیں، ہندوتوا کا مخالف ہے۔ ہندو اور مسلمان تو کم و بیش چودہ سو سال سے اس خطے میں ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں لیکن جدید دور میں ہندو مت کو سیاسی آئیڈیالوجی کا رنگ دینے والوں نے اختلاف کو دشمنی کا رنگ دیا جس کے جواب میں مسلم لیگ کو دو قومی تھیوری لانی پڑی۔ اس نہایت معقول تھیوری کو آئیڈیالوجی کا رنگ آزادی کے بعد مولانا مودودی اور غلام احمد پرویز جیسے نیم خواندہ لوگوں نے دیا اور پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ حالیہ دہشتگردی کا بحران اسی انحراف کا نتیجہ ہے۔ اب پاکستان اس راستے کو چھوڑ کر قائداعظم کا پاکستان بننے کی طرف گامزن ہے۔

پاکستانی یونیورسٹیاں متوجہ ہوں
سوشل سائنسز میں کام کرنے والے پاکستانی طلبہ اور استادوں کو چاہیے کہ وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد آئیڈیالوجی کے شر کے بارے میں لکھی گئی تحقیقی کتابوں کو پڑھ کر ہندوتوا کے بارے میں کتابیں لکھیں۔ اس سلسلے میں ہنا آرینٹ کا کام، بالخصوص ان کی کتاب Origins.of.Totalitarianism مددگار ہو سکتی ہے۔ یہ کتابیں اردو زبان میں بھی ترجمہ ہونی چاہئیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں