کویتا/حسان عالمگیر عباسی

جنگ کے ماحول میں مختلف خیمہ بستیوں سے مختلف تحاریر مل رہی ہیں۔ متنوع فکر و نظر سامنے آرہی ہے۔ جنگی نفسیات کا کسی حد تک اندازہ ہو رہا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، جنگ میں سب جائز ہے، طاقت ور کا قانون، دشمن کا دوست دشمن و دیگر واہ واہ و واہیات سے ریکھی سیکھی ہو رہی ہے۔ جن لوگوں کی زندگیوں میں جنگیں ہو چکی ہیں وہ بہرحال مختلف انداز سے دیکھ رہے ہیں اور حقیقت پسندانہ نظر جمائے بیٹھے ہیں۔ میڈیا کا مثبت منفی کردار بھی سامنے آرہا ہے۔ حقیقت، اس کی اوقات، سبجیکٹِوِٹی، آبجیکٹِوِٹی، معنی، معاملہ فہمی اور دیگر میکانکیاں سمجھ آرہی ہیں۔ کویتاؤں، کہانیوں، شاعری، حکایت، فسانے، اور نثر و نظم و بیان کی اہمیت سمجھ آرہی ہے۔ اخلاقیات بھی شکلیں بدل بدل کر سامنے آرہی ہے۔ ضمیر کی آواز، احساسات، انسانیت اور دیگر تہذیبی و تمدنی خچڑ پچڑ نئے نئے پیکس پیکجز میں بٹ رہے ہیں۔ پہلی بار زلزلہ ہوا تھا تو کئیوں کے لیے نئی بات تھی لیکن جنھیں پتہ تھا بارا سنگھا ہر عرصے میں کروٹ لیتا ہے وہ سمجھ گئے تھے۔ حیرانی ہو رہی ہے ایک ہی خیمہ بستی کے دو لوگ ایک ہی نظریے کے متحمل دو باتیں بھی کر سکتے ہیں۔ نسل کشی کل کی بات ہے۔ اس کے بعد اب قانون کی کیا حیثیت ہے وہ بھی بتانا چاہیے۔ پھر ایک بات سے امید بن جاتی ہے کہ غالباً صرف چند فیصد طبقہ ہی ایسا کر رہا ہے۔ وسائل پہ قبضہ کیے ہوئے ہے اور دنیا کو رکھیل بنانا چاہتا ہے اور من مرضی کا مرض دنیا پہ مسلط کر رہا ہے۔ حقیقت پسندی، من پسندی، نارسائیت، پارسائیت، انفرادیت پسندی، اجتماعیت دیگر متنوع نظریے سب گول مول ہو گیا ہے۔ اب دنیا پہ انتہائی بدخصلت اور غیر سنجیدہ انسانوں کا قبضہ ہے, وہی میلان بنا رہے ہیں اور وہی بندے کرائے پہ چلا رہے ہیں۔ بٹوارے کی حیثیت سامنے آ رہی ہے۔ اتحاد و یگانگت کی قلعی کھل رہی ہے۔ مایوسی لفظ ہی بیکار ہے۔ کچھ نیا ایجاد ہونا چاہیے۔ کوئی زبان کا ماہر شاید ایسا کر پائے گا۔ اس ساری ‘کویتا’ کا مطلب یہ ہے کہ ‘انسانیت’ ناکام ہو چکی ہے۔ شرم یا مذمت یا دیگر ایسے الفاظ کی رد و بدل کی ضرورت ہے۔ یہ نام نہاد انسانیت بچوں کو مرواتی ہے۔ محض چند مہینوں کے کئی بچوں سے دودھ کی چوسنی چھین لیتی ہے۔ عورتوں، بوڑھوں، بچوں، اور ضعیفوں پہ اپنی ناکامیوں کا بوجھ لادتی ہے۔ جنگ ہاتھیوں کی ہوتی ہے اور مرتا وہ ہے جو دو ممالک کی غیر فطری لکیر پہ کھڑا ہے۔ اب اس کے بعد انتقامی کارروائیوں سے نکل کر نئی نسلیں کچھ کر پائیں تو بڑا تیر چلائیں گی! انھیں ایسا ہی کرنا چاہیے! ان لرننگ اور ری لرننگ درکار ہے۔ ممکنہ فطری تقسیم کو غیر فطری بندوق یا غلیل سے دبانے کی بجائے تسلیم کرنا انتہائی مناسب ہے! اب موریلٹی بھی ری ڈیفائن کی جائے اور تمام غیر فطری نظریات کو پس پشت کر کے انسانی ترقی کی بات اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ مجموعی ترقی پہ بات ہونی چاہیے! دنیا بہرحال امید و اختلاف پہ قائم ہے اور نئی اقدار، علم و حلم کے ذریعے تا ابد قیام کرے گی بھلے فی الحال بیٹھی کھڑی ہے بلکہ پڑی ہوئی ہے! کھٹمل کھٹمنڈو کہیں کی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply