ایسا کیوں ہے ؟-شہناز احد

یہ ۱۹۷۰ کی بات ہوگی جب ہماری نانی کے چچا زاد بھائی کی شادی ٹھہری اور برات کو میرپور خاص جا ناتھا۔ شادی کا سندیسہ اس خبر کے ساتھ آیا کہ برات بذریعہ سڑک جاۓ گی۔ اس وقت تک بذریعہ سڑک جانے کاتصور ہمارے ذہن میں واضح نہ تھا کہ آنے جانے کے معاملات بذریعہ ٹرین ہی طے ہوتے تھے۔
سچی بات یہ ہے کہ میرپور خاص کہاں ہے؟ کیسا ہے؟ یہ بھی کچھ خاص واضح نہ تھا۔ امی نے حسب معمول جانے سے انکار کردیا اور نانی کے بے حد اصرار پر کہا لڑکیاں چلی جائیں گی۔ لڑکیوں سے ان کی مراد میں اور میری چھوٹی بہن تھے۔ دسمبر یا جنوری کی ایک صبح منہ اندھیرے بہت سارے عزیز واقارب کے ساتھ ہم دونوں بہنیں بھی بس چڑھ گۓ۔ بس چلی اور کراچی کی مختلف سڑکوں سے گھومتی گھامتی، سردیوں کی صبح کے اندھیرے میں ایک بہت چوڑی سڑک پے آگئی۔ اندھیرے میں سڑک کی چوڑائی دیکھ کے سب نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق اظہار حیرت کیا۔ تب ہی بس کی پچھلی جانب سے ایک آواز آئی یہ “ ہائی وے ہے”۔ حکومت(ایوب خان جاچکے تھےاور یحییٰ خان کرسی  پر سوار تھے) کراچی حیدرآباد کا فاصلہ کم کرنے کے لئے بنارہی ہے۔ اس سڑک بننے کے بعد گاڑی میں دو گھنٹے اور بس میں تھوڑاوقت زیادہ لگے گا، بولنے والا معلومات کا دروازہ کھولے مستقل بولے جارہا تھا۔
کسی نے پوچھا کیا پی ، ڈبلیو، ڈی بنارہی ہے، پہلی آواز نے تیزی سے کہا” نہیں بھئ کیسی باتیں کرتے ہو۔ پی ڈبلیو ڈی کیاخاک بناۓ گی۔ اُن سے تو نالیاں نہیں بنتیں۔ یہ تو فوج کا انجنئیرنگ ڈیپارٹمنٹ بنا رہا ہے۔
بس چلی جا رہی تھی، آسمان کے کناروں سے نئے  دن کی نوید چمکنی شروع ہوگئی تھی۔ نیم اندھیرے میں، آنکھیں پھاڑے،بس کے شیشے کے ساتھ منہ چپکاۓ یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ باہر کیاکیا ہے؟سڑک کے ساتھ ایک جانب کچھ پہاڑی نما اونچائیاں،دوسری طرف کیکر کے درخت،خاکی خیمے، خیموں سے انسانی ہیولے نکل کے ادھر اُدھر آ جا رہے تھےان کے درمیان مختلف قسم کا تعمیراتی سامان،روڈ رولر نظر آرہے تھے۔ جب ہی خاکی وردی میں ملبوس ایک لمبا چوڑا وجود سڑک کے درمیان نمودار ہوا،ہاتھ میں پکڑی بڑی سی ٹارچ کی روشنی بس پر ڈالتے ہوۓ رکنے کا اشارہ کیا۔ ڈرائیور کے کاغذات دیکھے، پھر بس کے اندر آکے سب کے جانے کا مقصد پوچھا،نشستوں کے ساتھ رکھے چھوٹے موٹے سامان کو ٹھونک بجا کے دیکھا اور پھر یہ کہتا ہوا کہ “پچاس میل کے بعد پکی سڑک ختم ہوجائے گی اور حیدرآباد تک نیم پختہ سڑک ہوگی” نیچے اتر گیا۔
ہماری زندگیوں کاوہ سفر مختلف حوالوں اور واقعات سے بھر پور بہت ہی یادگار سفر تھا۔ آج بھی اس سفر کویاد کرکے ہم سب ہنس ،ہنس کے دوہرے ہوجاتے ہیں۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا، سڑک مکمل ہوگئی،نوکری پیشہ اور دیگر افراد نے دونوں شہروں کے درمیان صبح شام آنا،جانا شروع کردیا۔ ہائی  وے نامی یہ سڑک ترقی کرکے سپر ہائی وے کہلانے لگی۔ کراچی شہر سے ذرا فاصلے پر ٹول پلازہ بن گیا اور آتی جاتی گاڑیوں سے ٹیکس کی وصولی شروع ہوگئی۔ آہستہ ،آہستہ براہ ٹھٹھ آنے والی نیشنل ہائی وے سب کو دقیانوسی لگنے لگی۔
ستر کی دہائی کے درمیانی سالوں میں ہم بھی خیر سے باروزگار ہوگۓ اور اپنی ذاتی حیثیت میں ادھر اُدھر آنے جانے لگے۔ اُن ہی دنوں کچھ کر گزرنے کے جنوں میں ہم نے کئی  مرتبہ کراچی تا حیدرآباد تک کا سفر کبھی اپنے فوٹو گرافر کی معیت میں تو کبھی تن تنہا اس “ سوپر ہائی وے پر طے کیا، صبح سویرے صدر یا فیڈرل بی ایریا کے کسی علاقے سے بس پر سوار ہوتے اور شام ڈھلے ربڑی کی مٹکی پکڑے گھر پہنچ جاتے”۔ میری یادداشت میں اس سوپر ہائی سے منسلک دور دور تک کوئ ی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہے۔
میرے ذہن کے سینما گھر میں گزشتہ تین دنوں سے اس سوپر ہائی وے ، جس کانام ایک بار پھر تبدیل کرکے “موٹر وے “کردیاگیا ہے۔ اس سڑک پے کئے ہر ہر سفر کی فلم چل رہی ہے۔ سفری یادوں کی اس چھماچھم کا کارن ہفتے کے دن شائع ہونے والے اخبارات کی خبریں اور ان خبروں سے ملی اتوار کے دن بلائی  جانے والی شیما کرمانی کی پریس کانفرنس ہے۔
جب سے “ سوپر ہائی وے” کا درجہ بلند کرکے اسے “ موٹر وے” کانام دیاگیا ہے۔ اس سڑک پے ہر قسم کے حادثات اور واقعات کا ظہور نہ صرف بڑھ گیا ہے بلکہ بہت بڑھ گیا ہے۔ ان ہی بڑھتے واقعات کا نشانہ جمعرات کی شب شیما کرمانی کا تھیٹر گروپ بھی بنا۔
اتوار کی شام ایک مدت بعد پریس کلب کا ہال وقت سے پہلے صحافیوں اور کیمروں سے بھرا ہواتھا۔ اس کاسبب شیما کی اپنی شخصیت،ان کی تحریک نسواں کی کارکردگی اور مسئلے کی سنجیدہ نوعیت تھی۔ تحریک نسواں کے زیر سایہ مختلف سماجی، معاشی اور نیم سیاسی مسائل کو کراچی اور صوبے کے چھوٹے، بڑے شہروں، گوٹھوں ، دیہاتوں میں اسٹیج تھیٹر، نکڑ تھیٹر اور اس نوعیت کے دیگر ابلاغ کے ذریعے عام آدمی تک پہنچایا جاتاہے۔ یہ ان ہی کا دم ہے۔ علم اور عمل کی آگاہی کایہ کام شیما کرمانی اور ان کی تحریک نسواں سے اچھا شاید ہی کوئی اور کر رہا ہو۔
اسی سبب افراد، ادارے ان سے مختلف موضوعات پر آگاہی کا کام کرواتے رہتے ہیں۔ سندھ کے دیہاتوں ،گوٹھوں میں شیما کا “ رسم نکاح” سے متعلق نکڑ تھیٹر نہ صرف مقبول ہوا آج بھی ان کی پہچان ہے۔
پریس کانفرنس میں انھوں نے بتایا کہ “ ذہنی صحت” سے متعلق تحریک نسواں کا گروپ ایک نکڑ تھیٹر گزشتہ تین ہفتے سے پروگرام کر رہاتھا اور اس رات گھوٹکی میں اپنا پروگرام ختم کرکے جانب کراچی رواں دواں تھا کہ نو شہرو فیروز کے نزدیک ان کی گاڑی کو ڈاکوؤں نے روکنے کی کوشش کی لیکن ڈرائیور کی بروقت حاضر دماغی کے باعث وہ کامیاب نہ ہوسکے تو انھوں نے گاڑی پر بے تحاشا فائرنگ کی اس کے نتیجے میں گروپ کا ایک فنکار زخمی اور گاڑی ناکارہ ہوگئی ہے۔
اس سارے کھیل تماشے کا دردناک، شرمناک ، اندوناک،حیرت ناک پہلو پولیس کا غیر ذمہ دارانہ وہ رویہ ہے جس کا انھوں نے مظاہرہ کیا۔
نو شہرو فیروز کے تھانے میں بیٹھے پولیس اہلکاروں نے پہلا اعتراض یہ کیا کہ” آپ اتنی رات کو سفر کیوں کر رہے ہیں؟ دوسرے آپ نے ہمیں بتایا کیوں نہیں؟ تیسرے آپ لوگ کراچی سے ہو ہم آپ کی ایف آئی آر کیسے لکھ سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ”۔
گروپ کے ارکان نے اپنے زخمی ساتھی کو طبی امداد دلوائی اور اگلے دن قسطوں میں کراچی پہنچ گۓ۔
پریس کانفرنس میں بیٹھے گروپ ارکان کے چہرے ان کے اندر کا حال بتا رہے تھے۔
دنیا کے نقشے میں پاکستان شاید واحد ملک ہے جس کی پولیس ایف آئی آر لکھنے کے بجاے آپ کے سفر اور پولیس کو بنا بتاۓ سفر کرنے پر اعتراضات تو کرتی ہے لیکن اپنے کھاتوں میں واردات کی رپورٹ درج نہیں کرتی۔ دکھ کی بات تویہ بھی ہے کہ ہمارے ٹیکس کے پیسے سے کروڑوں کی گاڑیوں میں پھرنے والے پولیس اہلکاروں کے کانوں پے جوں تک نہیں رینگی ایک پولیس ہی کیا صوبے کی حکومت بھی اسی لائن میں کھڑی ہے۔
آج کی موٹر وے پہ اس نوعیت کے واقعات ، حادثات روز مرہ کا معمول بن گۓ ہیں۔ متاثرین اگر شیما کرمانی جیسے اثر ورسوخ والے ہوں تو ادھر ، ادھر ُ شور مچاتے رہتے ہیں ایک نامعلوم فرد تو یہ بھی نہیں کر سکتا۔
گزرے سالوں کے دوران ہم نے اپنے میزبانوں سے سندھ کے مختلف شہروں میں سفر کرتے ہوۓ یہ ہدایات اتنی بار سنی کہ از بر ہوگئ ہیں۔ “ مٹیاری کو چار بجے سے پہلے کراس کرلو،شام ڈھلنے سے پہلے دادو سے نکل جائیں،دوپہر سے پہلے عمر کوٹ کی حدود پار کرلیں،سکھر، گھوٹکی،ڈہرکی والوں نے نصیحت کی جب فیروز پور سے آگے نکل جائیں تو فون کر دیجیے گا”۔ شکار پور سے سکھر ائیرپورٹ آنے تک کے لئے ہدایتوں کا پلندہ تھمایا جاتاہے۔
بہت دفعہ میزبانوں نے ہمیں کچھ علاقے اپنے ذاتی گارڈز،خاندان کے افراد اور پولیس کی سپردگی میں پار کراۓ ہیں۔ ایسے ہر موقع پر میں نے سوچا ہے ایسا کیوں ہے؟ ہم اپنے ملک میں اتنے غیر محفوظ کیوں ہیں؟ یہ سڑک ہائی وے سے موٹر وے تو بن گئی  لیکن ایک عام انسان کی حفاظت کے لئے کچھ نہیں کر سکی۔
میں نے بارہا یہ بھی سوچا ہے کہ جولوگ ہمیں مختلف شہروں سے نکلنے کے اوقات اور طریقہ کار بتا تے ہیں وہ اس کا سدباب کیوں نہیں کرتے۔
کوئی یہ بھی نہیں جانتا کہ ڈاکوؤں کے روپ میں کون تھا؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply