یہ ترکی کا شہر استنبول ہے ، ایک نسبتاً تنگ گلی کے ایک مکان کی بالائی منزل پر ایک یورپی خاتون شامی مہاجر ین کی مدد کرنے کے لئے ایک تنظیم چلاتی ہیں ۔ اس دفتر میں بہت سی شامی خواتین جمع ہوتی ہیں ۔ جن کو ریلیف کا سامان تقسیم کیا جا رہا ہے ۔ وہ ایک دوسرے سے گفتگو کرتی ہیں ، ہم گفتگو سمجھ نہیں پاتے ان کے ساتھ ان کی گفتگو کو ترجمہ کرنے والا ایک ۲۵ یا ۲۶ سال عمر کا ایک لڑکا ہے جو ان کی باتوں کا انگریزی میں ترجمہ کر کے ان کی بات ریلیف کا سامان تقسیم کرنے والوں تک پہنچاتا ہے ۔
ایک کونے میں تین چار خواتین اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھی ہیں وہ بات نہیں کرتی اور صرف سوال کرنے پر ہی مختصر جواب دے کر پھر سے خاموشی اختیار کر لیتی ہیں ۔
مترجم سے ان کے بارے میں پوچھنے پر بتایا جاتا ہے کہ استنبول کی طرف ہجرت کرنے والے شامی نسبتا متمول گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ چپ چاپ اور گم سم بیٹھی خواتین امراء کے زمرے میں آتی تھیں ، جو وطن سمیت سب کچھ کھو چکی ہیں ۔ اب استفسار کرنے پر اپنے شاندار ماضی کے بارے میں بتا نہیں پاتیں ۔
یہ ترکیہ کے صوبہ حیتے کا سرحدی قصبہ ریحانلی ہے۔ ریحانلی سے شام کی سرحد بعض مقامات پر کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ہے ۔ ریحانلی میں جنگ اور دھماکہ ہونے سے پہلے شام کی سرحد پر سخت پہرہ نہیں تھا اور شاید شامی اور ترکش آزادانہ آ جا سکتے تھے۔ حیتے میں شامی مہاجرین کے سات کیمپس ہیں جہاں کم و بیش ۳۵۰۰۰ مہاجرین رہائش پذیر ہیں ۔
آئی ایچ ایچ کے رضاکار شام کو شامی مہاجرین کو افطاری کراتے ہیں ۔ میں بھی ایک افطاری میں رضاکار بن کر پہنچتا ہوں۔ لمبی قطار میں بیٹھے شامی مہاجرین یاس اور محرومی کا نمونہ پیش کر رہے ہیں۔
کتنے ایسے چامی فوجی بھی وہاں موجود ہیں جن کے بازو یا ٹانگیں غائب ہیں ۔ ان سے شام کا ذکر کریں تو ان کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔
ایک شامی لڑکا مجھ سے انگریزی میں بات کرتا ہے ۔ میرے استفسار پر وہ کہتا ہے کہ وہ برطانیہ سے پڑھ کر آیا تھا ، ایک کالج میں پڑھاتا تھا اب مہاجر کیمپ میں مقیم ہے اور خیرات کا کھانا کھاتا ہے ۔ اس کی باتوں سے کرب نمایاں ہوتا ہے۔
یہ ریحانلی کاایک مہاجر کیمپ ہے ، کیمپ کی طرف مڑیں تو چوک میں شامی عورتیں بھیک مانگتے ہوئے دیکھی جاتی ہیں ۔
کیمپ کے باہر ادھ ننگے بچے دوڑ رہے ہیں ، کئی بچے اپنے ہم عمروں کے ساتھ کھیل کود سے اجتناب کئے ہوئے مٹی کرچ رہے انکی آنکھیں پتھرائی ہوئی ہیں۔ کیمپ میں کوئی بھی گاڑی داخل ہوتی ہے تو عورتیں اور بچے اس امید کے ساتھ گاڑی کے پاس جمع ہوتے ہیں کہ شائد کوئی خیر کی خبر آئی ہو۔
ریحانلی کے ایک تاجر ہمیں اپنے گھر افطاری پر مدعو کرتے ہیں۔ افطار کے بعد کی گپ شپ میں وہ شام اور شامی مہاجرین کے بارے میں ہولناک کہانیاں سناتے ہوئے خود بھی افسردہ ہوجاتے ہین اور کہتے ہیں کہ جنگ کے اثرات، زندوں کو جہنم میں دھکیل دیتے ہیں ۔ جنگ میں بچ جانے والوں کا ٹراما یہ ہے کہ وہ مکمل ذہنی صحت میں نہیں ہوتے ۔
میں ترکی میں شام کے مہاجرین اور فوجیوں سے ملنے کے بعد جنگ کے نام سے ڈرتا ہوں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں