استقامت/ اقتدار جاوید

ہمارے تین پسندیدہ سفر نامے ہیں اب جن کا شمار کلاسک اور یادگار سفر ناموں میں ہوتا ہے ۔وہ تینوں الگ الگ مزاج کے سفرنامے ہیں اور ان کے تینوں مصنفین بھی الگ الگ طبائع کے مالک ہیں۔
شوق آوارگی، بسلامت روی اور سفر نصیب تینوں پچاس سال قبل قارئیں تک پہنچے اور اب تک ان کی ریڈرشپ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ادب میں ان تینوں سفر ناموں کا ظہور ستر کی دہائی میں ہوا۔قوم ایک بڑی شکست کے بعد تادیر جاگنے کے موڈ میں نظر آ رہی تھی مگر یہ پیشرفت بڑی اور چھوٹی طاقتوں سے ہضم نہیں ہو رہا تھی ۔نہ پاکستان کی ترقی نہ معاشرے کی روشن خیالی۔شوقِ آوارگی میں زندگی کا مشاہدہ، بسلامت روی میں ذات کا مشاہدہ اور سفر نصیب فکر کا مشاہدہ ہے مگر تینوں میں مشترک شے زندگی کی امنگ ہے۔
مختار مسعود تو سفر اور حضر کی تفریق غلط اور اور جادہ و منزل کی تقسیم کو بیکار کہتے ہیں تو یہیں سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کا سفر نامہ مشاہدے کی فکری تقلیب ہی تو ہے۔عطاالحق قاسمی کا سفر نامہ زندگی کی راہوں سے پھول چننا ہے جہاں کہیں اسے کانٹا نظر آتا ہے اس سے الجھنا اسے کہیں اچھا نہیں لگتا۔بسلامت روی کا مصنف چھوٹے چھوٹے واقعات بیان کرتے ہوئے زیرِ لب مسکراہٹ کا التزام کرتے ہیں۔یہ تینوں سفر نامہ نگار بیجا تفصیل سے بھی گریز کرتے ہیں یہی ان کی مقبولیت کی بھی وجہ ہے ۔
” کیا سناؤں میں سفر نامہ تجھے” یونس خیال کا سفر نامہ ہے جو ان کی انگلستان یاترا کے متعلق ہیں۔
ہم سفر نامے کو اکبر الہ آبادی (اب پریاگ راجوی)
کے مشہور زمانہ شعر کی روشنی میں پڑھنے کے عادی ہیں
کہ
سدھاریں شیخ کعبے کو ہم انگلستان دیکھیں گے
وہ دیکھیں گھر خدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے
یونس خیال شاعر ہیں، ترجمہ کار ہیں اور اب سفر نامہ نگار ہیں۔ان کے سفر نامے کا بنیادی جوہر شگفتگی ہے جو قاری کی دلچسپی کو مہمیز کرتا ہے۔ یونس خیال کا کمال یہ ہے کہ واقعات کے تسلسل کے بیچ ایسا لطیف نکتہ سامنے لے آتے ہیں کہ قاری اس تسلسل سے باہر نکل ہی نہیں پاتا اور جملے کی گرفت میں آتا چلا جاتا ہے۔سفر نامے کو تنقید نامہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایک آدھ پیرا گراف پڑھ کر اسے ہضم بھی کرنا پڑے۔یہ ایک بہاؤ ہے جس میں سفر نامہ گندھا ہوتا ہے۔ یونس خیال کا جملہ پوری طرح گھتا ہوا ہوتا ہے نہ اس سے ایک لفظ نکالا جا سکتا ہے اور نہ اس میں ایک لفظ کے اضافے کی گنجائش ہوتی ہے۔یوں بھی ان کی تخلیقی عمر چالیس سال سے کہیں زیادہ ہے۔ان کی فنی ریاضت ایک ایک جملے کی ساخت سے جھلکتی ہے۔
پہلے زمانوں میں سفر نامہ نگار مورخ ہوتا تھا اور وہ تاریخ میں سفر کرتا تھا۔مثلاً ابن بطوطہ نے کیا کیا نہیں لکھا۔ موسم کے حالات، شورشیں، بغاوتیں، ہندوستان کی گرم دوپہروں سے عین خطِ سرطان پر واقع مالی کی نمکین جھیلوں تک۔ایک بادشاہ سلیمان مانسا نے اس کی دل بستگی کے لیے بہت سارے تحائف دیے۔لگتا ہے وہ بادشاہ کچھ زیادہ ہی زندہ دل تھا کہ کنیزیں بھی پیش کیں اور اپنی بیٹی بھی۔ابن بطوطہ کے تعاقب میں ہمارے عہد میں بھی کئی ایک سفر نامہ نگار ہیں جن کے سفر نامے ایسی دل بستگیوں کے لیے مشہور ہیں۔کاش یونس خیال بھی ابن بطوطہ ہوتے اور آج ہمیں شگفتگی بھری تحریروں کی جگہ کچھ اور لذیذ قسم کے افسانے سناتے۔مگر ایک مورخ اور تخلیق کار میں یہی فرق ہوتا ہے۔ تخلیق کار تو خود تاریخ بناتا ہے۔اسی لیے اس کا مقام مورخ سے کہیں اہم اور ضروری ہے۔
اب سفر نامہ کا مزاج بدل گیا ہے۔پہلے سفر ناموں میں وہ تفصیل مہیا کی جاتی تھی جو تاریخ نامہ مرتب کرتے ہوئے کام آ سکتی تھی۔اب سفر نامے میں سفر نامہ نگار کی طبیعت کی شگفتگی اس کے بطون میں ایسے شامل ہوئی ہے کہ سفر نامہ محض اخرجات کا تخمینہ اور اس کی تفصیل تک محدود نہیں رہ گیا۔تخلیقیت نے سفر نامے کی صنف کو از سر نو کھڑا کیا ہے اور یہ صنف بھی باقی اصناف ادب کی طرح ہی اہمیت کی حامل سمجھی جانے لگی ہے۔
اس سفر نامے میں بے ساختگی سے بھرے پرے جملے جابجا بکھرے پڑے ہیں۔لکھتے ہیں ” دوستوں کا خیال ہے کہ اپنی بیگمات کے ہمراہ یورپ کا سفر کرنے والے ” سفر” ہی کرتے ہیں لیکن میں ہمیشہ سے خوش گمان رہا ہوں اور اس تجربے سے گزرے بغیر ماننے کو تیار نہ تھا”۔
عرب ایمرٹس کے ” جہاز کا مزاج ” ہم پاکستانیوں کے مزاج کے خاصا قریب نظر آ رہا تھا اور ایک آدھ بار تو اپنی پی آئی اے بڑی شدت سے یاد آئی”۔
یونس خیال کے سفر نامے کی کہانی حسِ لطافت کی چاشنی سے آگے بڑھتی ہے۔جہاز میں تین مسافروں والی سیٹ ان کے حصے میں آئی۔دو پر تو یونس خیال اور بیگم صاحبہ بیٹھ گئیں۔اب تیسری سیٹ خالی تھی۔یونس خیال لکھتے ہیں ” اس وقت نجانے کیوں میرے ذہن میں معروف سفر نامہ نگاروں کی طرح خیال آ رہا تھا کہ کاش اس طرف کوئی دلکش سی صورت “پلیز ”
کہتی ہوئی سلیقے سے آ کر بیٹھ جائے اور پھر اس سے گفتگو کا سلسلہ چل نکلے”۔ اور اگر بیگم صاحب معترض ہوں گی تو کہہ دوں گا ” انگریزی زبان کی شاعرہ ہیں اور پرانی دوست ہیں۔ایسی اتفاقیہ ملاقات پر انہیں اعتراض ہو بھی کیا سکتا تھا “۔ ابھی سفر نامہ نگار اسی خیالی جنت میں خراماں خراماں ٹہل رہے تھے کہ ” خوبصورت میزبان نے ایک ادھیڑ عمر کے ذرا موٹے مسافر کو ساتھ بٹھا دیا”۔یوں وہ سارا خواب گوں چھناکے سے ٹوٹ جاتا ہے۔فضائی میزبان جب مسافروں کو مست کر دینے والے۔مشروب پیش کرتی ہیں اور ان سے ان کی چوائس پوچھی تو ” میرے حلق سے “جوووووووس” نکل پایا”۔
اب قارئین جوس میں واؤ کی اتنی تعداد دیکھ کر ضرور سمجھ گئے ہوں گے کہ ان کا کیا مطلب تھا اور کس نفاست سے خود کو نشانہ بنایا ہے۔
یونس خیال کمٹمنٹ کا بندہ ہے، میرا پیر بھائی ہے، یاروں کا یار ہے اور اپنی ہٹ کا پکا ہے۔وہ اپنے علاقے کے ہی عظیم شاعر کے کہے کو دل میں بسائے ہوئے ہے کہ
مرشد دے دروازے اتے محکم لائیے جھوکاں
نویں نویں نہ یار بنائیے وانگ کمینیاں لوکاں
اور یہ کہ استقامت کو فوق الکرامت بھی تو کہا جاتا ہے یعنی سب سے بڑی کرامت۔

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply